معاشرتی عدم مساوات سے گھرے ہوئے ہندوستانی قصبوں اورگاؤں کی عورتیں اپنے حالات کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف اپنی سطح پر کسی بھی طرح اگر پدری نظام کو چیلنج دے رہی ہیں تو کیا وہ بڑے شہروں میں تانیثیت کی آواز بلند کر رہی خواتین سے کسی طور پرکمتر ہیں؟
فیمنزم،تانیثیت،تانیثی ڈسکورس…ان لفظوں کوجس شہر میں اسکولی تعلیم حاصل ہوئی، ریاست کی راجدھانی کے پاس کی جس یونیورسٹی میں مزید پڑھائی ہوئی، وہاں بھی نہیں سنا تھا۔ اس لفظ سے سابقہ میڈیا میں کی گئی پہلی نوکری کے بھی کچھ سال بعد پڑا۔ کسی مضمون اور اس کے بعد ہوئی ادارتی بحث کے بعد جانا کہ فیمنزم کیا ہے۔
آج سوشل میڈیا پر گالی کی طرح بنا دیا گیایہ لفظ عورتوں کے اپنےحقوق کی کتنی لمبی لڑائی کے بعد وجود میں آیا ہے، اس کے بارے میں ہزاروں مضامین اور کتابیں موجود ہیں اور آج بات چیت کا موضوع وہ نہیں ہے۔
میری سمجھ میں جس بارے میں آج، 21ویں صدی کی تیسری دہائی کی شروعات میں سوال اٹھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اصل میں تا نیثیت اور تانیثی ڈسکورس کی تعریف کیا ہے؟
راجدھانیوں کے کانفرنس ،سیمینار ، سوشل میڈیا کے مباحثےاورتہمتوں سے الگ ملک کے لاکھوں قصبوں، کروڑوں گاؤں میں روزمرہ کی زندگی بسر کرنے والی عورتیں، لڑکیاں اپنے کتنےحقوق کے بارے میں جانتی ہیں اور ان کے لیے کتنی بار آواز اٹھاتی ہیں۔ یا پھر اس لفظ اور اس کا مطلب جانے بغیر ہی وہ اپنے حصے کاانقلاب لانے کے لیے چپ چاپ ایک لڑائی لڑ رہی ہیں!
کچھ سال پہلے ایک سینئر ساتھی نے بات چیت میں بتایا تھا کہ کیسے انہوں نے 1980 کی دہائی کے بیچ دہلی میں صحافت سے وابستہ نوکری شروع کی تھی۔ وہ جے این یو سے پڑھ کر نکلی تھیں اور دنیا کو لےکر ان کا نظریہ بےحد لبرل تھا۔ ہم عورتوں کی تعلیم سےمتعلق کسی موضوع پر ایسے پہلو پر تھے، جہاں میں نے انہی کی ہم عمر اپنی ایک شناسا کے بارے میں سوچا اور ان کی سوچ سمجھ کو لےکر ایک متوازی سوچ بنا لیا۔
یہ شناساایک چھوٹے شہر کی ہیں اور اس ماحول کو دیکھتے ہوئے کافی لبرل رویہ رکھتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پڑھائی لکھائی پرورش کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ ایک بے حد غلط موازنہ تھا، میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ ایکسپوزر، وسائل اورمواقع سے بہت کچھ طے ہوتا ہے، لیکن اپنی سطح پر موجود غیر برابری سے لڑ رہی کسی بھی عورت کو تانیثیٹ کے کسی طے شدہ کھانچے میں نہیں باندھا جا سکتا۔
پچھلے کچھ سالوں سے لڑکیاں اورخواتین سوشل میڈیا پر لگاتار کھل کر لکھ رہی ہیں اور عورتوں کے مسائل پر مسلسل بات ہو رہی ہے۔ ان مسائل کے بیچ کئی بار مباحث تلخ ہوتے ہیں اور ‘میرا فیمنزم تمہارے ‘کھوکھلے فیمنزم ’ سے بہتر ہے’ کا زاویہ ابھر کر آتا ہے اور بحث کی جہت بدل جاتی ہے۔ میں اسے سمجھنا چاہتی ہوں۔
گوٹھڑا ٹپہ ڈہینا ہریانہ کے ریواڑی ضلع کے جاٹوسانا بلاک کی گرام پنچایت ہے۔ سال 2017 میں یہاں تقریباً 80اسکولی لڑکیاں بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئیں۔ مانگ تھی کہ ان کے گاؤں کے اسکول کو دسویں سے بڑھاکر بارہویں تک کیا جائے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ گاؤں میں اسکول نہ ہونے کے سبب انہیں تین کیلومیٹر دور دوسرے گاؤں کے اسکول جانا پڑتا ہے، جہاں راستے میں آتے جاتے اکثر انہیں چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لڑکیوں کو اس کی وجہ سے پڑھائی چھوٹنے کا ڈر تھا۔ اس سے پچھلے ہی سال 2016 میں اسی ضلع میں اسکول جاتےوقت ایک لڑکی کے ساتھ ریپ ہونے کے بعدگاؤں کی دو لڑکیوں نے ڈرکی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔
کیا اپنے پڑھنے اور تحفظ کے حق کے لیے لڑ رہی ان لڑکیوں کا موازنہ دہلی یونیورسٹی میں کرفیو ٹائمنگ ختم کرنے کے لیے آواز اٹھا رہی لڑکیوں سے کی جا سکتا ہے؟جب اس طرح کا موازنہ ہوتا ہے، تب ایک لفظ سامنے آتا ہے پریولیج،یعنی استحقاق۔مطلب مجھے جو چیزیں؛حقوق، اطلاعات، معلومات وغیرہ آسانی سے مل گئے کیا وہ سب کے لیے اتنے ہی سہل ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو یہی میراپریولیج ہے۔
میرا تعلق ایک ایسے شہر سے جس کا نام بتاکر پہچان کروانے کے لیے پڑوس کے اضلاع کے نام بتانے ہوا کرتے ہیں۔ حالانکہ پھر اعلیٰ تعلیم،خواتین کی تعلیم کے لیے مشہور ایک یونیورسٹی سے ہوئی، جہاں کے قاعدے ایک عمر اورعلم میں اضافہ کے ساتھ پدرانہ لگنے لگے۔
(مثلاً سمون کی سیکنڈ سیکس فرسٹ ایئر کی لڑکیوں کے پڑھنے لائق نہیں ہے کہہ کر لائبریرین کا اسے ایشو کرنے سے انکار کر دینا)لیکن ایسا ہونے سے وہ سچ، اپنے فیصلے لینے، جج ہونے کی پروانہ کرنے کی آزادی کا وہ احساس جو نوعمری میں میں نے کیا، کم نہیں ہو جاتا۔
جس شہر میں لڑکیوں کا نویں کلاس کے بعد جینس پہن کر نکلنا ہائی فائی ہونے کی علامت ہو، جہاں لڑکیاں اکیلے اپنی سہیلیوں کے یہاں نہ جا سکتی ہوں، وہاں سے نکلی کسی لڑکی کو بس کی چھت پر آزادانہ بیٹھ کر، اکیلے سفر کرتی لڑکیوں کو دیکھنا کسی طلسمی دنیا کی طرح تھا۔
یونیورسٹی کے قاعدوں کی پدریت کا احساس ایک سفر کے بعد ہوا، جس میں کئی برسوں کا وقت لگا، کئی کتابیں،تجربے اور لوگ لگے۔ اس سفر کا موازنہ بنا کسی ایسے تجربات سے گزرے شخص کی علم اور جہالت سے کیسے کیا جا سکتاہے؟
منیشا پانڈے میڈیا کےشعبےمیں تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ خواتین، ان سے متعلق موضوعات کو لےکر وہ کئی سالوں سے لکھ رہی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک سوشل میڈیا بحث کے بعد انہوں نے لکھا، زندگی میں سب کچھ نسبتی ہے۔ کوئی آخری سچ ،آخری تعریف نہیں۔ سب کچھ مسلسل تبدیلی،مسلسل سفر کاحصہ ہے۔ فیمنزم بھی۔’اس کے بعد انہوں نے کچھ عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے وہ فیمنزم کے روایتی کھانچے میں فٹ نہیں تھیں، لیکن اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ خدمات دے رہی تھیں۔
اس بیچ انہوں نے ایک کہانی بھی بتائی تھی،’10 سال پہلے جئے پور لٹریچر فیسٹیول میں ایک لڑکی مجھ سے ملنے آئی۔ وہ گھر سے لڑکر، باپ کی مرضی کے خلاف جئے پور آئی تھی کیوں کہ لٹریچر فیسٹیول اٹینڈ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی جیب میں معمولی سے پیسے تھے۔ وہ کسی جین دھرم شالہ میں رکی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کچھ رسالے تھے، جو وہ مجھے دینے کے لیے لائی تھی۔ ان دنوں وہ معمولی سے اخباری کاغذ پر ایک رسالہ نکالتی تھی۔
شہر کے کسی چھوٹے موٹے دکاندار، بزنس مین سے کوئی اشتہار مل جاتا۔ ان پیسوں سے میگزین چھپتی۔ باقی چھپائی سے پہلے کا سارا کام کمپیوٹر پر خود کرتی۔ اور یہ سب وہ روز اپنے باپ سے لڑتے ہوئے کر رہی تھی۔ سچ کہوں تو اس میگزین میں ورجینا وولف والی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ پدری نظام پر سیدھے کوئی چوٹ بھی نہیں کر رہی تھی۔ لیکن وہ لڑکیوں کو پڑھنے، اپنا وجود بنانے کو کہہ رہی تھی۔ وہ میگزین گریٹ نہیں تھی۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ میگزین گریٹ تھی یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جتنی بھی چھوٹی سی دنیا، معمولی وسائل ، محدود ایکسپوزر، چند کتابیں اسے حاصل ہوئیں، اس نے اس کا کس طرح استعمال کیا۔ وہ ان سب کے بیچ بس کسی طرح اپنی جگہ بنانے کے لیے لڑ رہی تھی۔’
اسی بحث کے آخر میں انہوں نے لکھا، ‘… یہ سب عورتیں اپنی طرح کی فیمنسٹ ہیں۔ یہ سب عورتیں اس سفر کاحصہ ہیں، جس سے ہوکر ہم یہاں تک پہنچے ہیں… جو جہاں بھی اپنی جگہ سے تبدیلی کی تھوڑی بھی کوشش کر رہا ہے، چھوٹی سی لڑائی لڑ رہا ہے، وہ سب ایک بڑی مشترکہ لڑائی کاحصہ ہے۔ وہ ہماری لڑائی کاحصہ ہیں…’
اس کو پڑھ کر میں نے دیر تک اپنے حافظے سے ان خواتین کو نکال کر پرکھا جو گھر کی بہنوں بیٹیوں کو بندشوں میں رکھنے کی چاہت رکھتی تھیں اور خود ایک وقت میں پورے سسرال سے جھگڑ کر نوکری کرنے جاتی تھیں، گھر سنبھالتی تھیں۔گزشتہ دنوں ایک خاتون رشتہ دارکو ان کی شادی میں خوش نہیں دکھ رہی بیٹی کو گھر چھوڑکر اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر پیسہ کمانے کے بارے میں کہتے سنا۔
اس سے الگ طرزعمل میں وہ مردوں کی اس دنیا میں ان کے بنائے‘اصولوں اور رواجوں’کو نبھانےنبھوانے کی پیروکار ہیں لیکن شاید وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ اپنی آزادی کے لیے قدم عورت کو ہی اٹھانا پڑےگا۔
ہندستانی لڑکیاں،بالخصوص جو پڑھ لکھ کر اپنی کوئی جگہ بنانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہیں، گر رہی ہیں، گرکر سنبھل رہی ہیں، ان کا یہی سفرتانیثیت اور تانیثی ڈسکورس کی راہ ہموار کرےگا۔ ہم سیکھ رہے ہیں، سیکھا ہوا بہت کچھ بھلا رہے ہیں، پر ہر اس عورت کے ساتھ ہیں، جو کسی بھی کونے میں اپنے حصہ کی لڑائی لڑ رہی ہے۔
علم اور اس کےحصول کےسفر کا احساس برتری کےحاوی ہوئے بغیرکسی کا ہاتھ پکڑکر اسے آگے لے چلنے سے ہی تبدیلی اور سسٹرہڈممکن ہو سکےگا، اور یہ بات ہم پرویلیجڈ، شہروں میں رہنے والی اور تمام وسائل تک رسا ئی رکھنے والی لڑکیاں جتنی جلدی سمجھ لیں، اتنا یہ راستہ آسان ہو چلےگا۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر