نل جل منصوبہ میں سورس سے لےکرگاؤں کی حد تک پانی پہنچانے کا کام کمپنیوں کو سونپا گیا ہے۔ کوئی گارنٹی نہیں کہ کمپنی پانی فراہمی کےاصل وسائل پر اپنا حق نہیں جتائے گی۔ اجارہ داری ہوئی تو آب پاشی وغیرہ کے لیے پانی سے انکار کیا جا سکتا ہے، وصولی بھی ہو سکتی ہے۔ مودی سرکار کی دیگر کئی اسکیموں کی طرح نل جل کا ایجنڈہ کارپوریٹ نہیں ہوگا، اس کی کیا گارنٹی ہے؟
دنیا میں پانی کو ترستے، جھپٹتے اور بیمار ہوتے مشاہدے کے پیش نظر بھلا کون اس خواہش سےمتفق نہیں ہوگا کہ ہرانسان کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی ملے اور صاف پانی ملے۔ جل جیون مشن کا مقصدیہی ہے ہر گھر جل – 16 کروڑ خاندانوں کے لیے ہی نہیں، جانوروں کے لیے بھی۔
جل جیون مشن کے رہنما خطوط کے دستاویز دیکھیے۔
ہم تعریف کر سکتے ہیں کہ آئینی ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی مرکزی حکومت نے 73ویں آئینی ترمیم کے جمہوری جذبےکے مطابق مقامی سطح پر پینے کے پانی کے انتظام کے لیے منصوبہ بندی،عمل درآمد،ملازم، نگرانی اورادارہ جاتی حقوق کوحقیقت میں ان گاؤں کی پنچایتوں کو سونپ دیا ہے، جن پر پینے کے پانی کے مقامی انتظام کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی پہلا ہی موقع ہے کہ جب ہر گھر کو نل سے جل پلانا طے کیا گیا ہے اور اس کے لیے پورے ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپے ایک مشت لگا دیے گئے ہیں۔
بارش کے پانی کو جمع کرنے اورمنظم طور پرپانی کے استعمال کےسلسلے میں جل جیون مشن میں پیش کردہ ہدایات کو لےکر بھی ہم مطمئن ہو سکتے ہیں کہ اب جوابدہی لوگوں کے سر آ گئی ہے۔لوگوں نے جوابدہی نبھائی توممکن ہے کہ پانی کی نکاسی اورذخیرہ میں توازن قائم جائے۔ لیکن یہ موقع، حقوق، جوابدہی اور پیسہ یوں ہی گنوا نہ بیٹھیں؛ اس لیے کچھ ضروری سوال تو پوچھنے ہی ہوں گے۔ آئیے، پوچھیں۔
کتنی قانونی پانی کمیٹیاں
ہر گرام پنچایت میں پینے کے پانی کے انتظام کے لیے ریاستی پنچایتی ایکٹ کے تحت پانی کمیٹیاں پہلے سے موجود ہیں۔ اس لیے پوچھنا ہوگا کہ جل جیون مشن کے تحت بننے والی پانی کمیٹیاں، کیا پہلے سے قائم کمیٹیوں کے علاوہ ہوں گی؟
اگر ہاں، تو کیا نئی پانی کمیٹیاں غیرقانونی نہیں ہیں؟اگر ہاں تو کیا ان متوازی پانی کمیٹیوں کو کبھی بھی رد کیا جا سکےگا؟اگر جل جیون مشن کے دستاویزوں میں بتائے گئے پانی کمیٹی کا مطلب، پہلے سے موجود پنچایتی پانی کمیٹی ہی ہے، تو اس کی تشکیل میں 25 فیصدرکنیت پنچایتی نمائندےاور50 فیصدخواتین کے لیے محفوظ کیا جانا متبادل ہےیا لازمی؟
اگر لازمی ہے، تو کیا ریاست اس کو چیلنج دے سکتے ہیں؟
نل سے جل کی پابندی کیوں؟
سوال یہ بھی ہے کہ اگر دیہی علاقوں میں پینے کےپانی کے منصوبے سے لےکرعمل درآمد تک سارے حقوق اصل میں ادارہ جاتی طور پر پنچایتوں کو سونپنے کی منشا ہے، تو ہر گھر کو نل کنیکشن لینے کی پابندی کیوں تھوپی جا رہی ہے؟
مقامی گرام سبھاؤں کو یہ طے کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا کہ وہ کیسے پانی پینا چاہتے ہیں؟ نل سے یا ہینڈ پمپ اور کنویں سے؟ بلاشبہ، پہاڑی اور دور دراز والے گاؤں میں پینے کا پانی پہنچانے میں نل جل مددگار ہے، لیکن باقی علاقوں کے سلسلے میں یہ سوال پوچھنے اس لیے بھی ضروری ہیں کیونکہ نل جل، پائپ پر مبنی پانی فراہمی کا منصوبہ ہے۔
پانی کی فراہمی چاہے پائپ سے ہو یا نہر سے، ٹوٹ پھوٹ اور لیک سے انکار کرناناممکن ہے۔ مشاہدہ ہے کہ 40 فیصد تک لیک ہو سکتے ہیں۔
پانی کون دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شہرکے کئی بچہ آج بھی نل کا نام لیتے ہیں۔ شانتا کمار کے وقت میں ہینڈ پمپ لگے تو شملہ کے کنویں اورباوڑیاں بدحال ہو گئے۔ 200 فٹ تک گہرے بوروالا انڈیا مارکہ لگا توہندوستان کے زیادہ تر اتھلے کنویں اندھے ہو گئے۔
چار نمبر چھ نمبر کی چھوٹی ہینڈ پمپ مشینوں نے پانی دینا بندکر دیا۔ کئی جگہ لال رنگ پوت کر ہینڈ پمپ بند کرا دیے گئے۔ بوتل بند پانی آیاتو فروخت کو یقینی بنانے والوں نے ریلوے اسٹیشن، بس اسٹیشن، بازارجیسے عوامی مقامات پر واقع نل توڑ دیے، ہینڈ پمپ اکھاڑ دیے گئے۔
گاؤں میں یہ نہیں ہوگا، اس کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ سب سے بڑی بات، معیار کے نام پر پیش نل جل کے عوض میں گاؤں کے ہر گھر مالک کو ہر مہینے بل ادا کرنا ہوگا۔نل جل، پانی کے لیے خودکفیل گھروں کو بھی دوسرے پر منحصر بنائےگا۔ بجلی ہوگی، تبھی سورس سے نل تک جل پہنچ پائےگا۔
کہنا ہوگا کہ نل جل نہ صرف گاؤں کے پانی کے انتظام وانصرام کوبدل دےگا، بلکہ طرز زندگی بھی متاثر ہوگی ۔ اس لیےسوال تو پوچھنا ہی ہوگا کہ نل سے جل لازمی کیوں؟
نل جل سے صفائی کی گارنٹی کتنی
اسی سے متعلق اگلا سوال یہ ہے کیا صرف نل سے جل پہنچا دینے محض سے خالص اورمناسب پانی فراہمی کی گارنٹی ممکن ہے؟ جب ہم بقیہ ہندوستان میں نل والے موجودہ صارفین کو ہی صاف اورمطلوبہ پانی کی فراہمی کی گارنٹی نہیں دے پا رہے تو 16 کروڑ نئے گھروں کو 24 گھنٹے صاف پانی کی فراہمی کی گارنٹی کی کیا بنیاد ہے؟
غور کیجئے یہ سارا نل جل نظام معیار اور خاطرخواہ پانی کی فراہمی کے نام پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔معیار کے لیے پانی کی فراہمی کے طے بنیادی سورس پر ہی پلانٹ لگانے کا منصوبہ ہے۔کیا چھوٹے پلانٹ سے صاف پانی کے دوبارہ استعمال کی گارنٹی ممکن ہے؟ ہاں، لیکن بنیادی حقیقت یہ ہے کہ پانی کی فراہمی کے ذرائع کے خالص ہونےکی گارنٹی ہم ابھی تک ممکن نہیں کر پائے ہیں۔
اسی مارچ کے اواخر میں خبر چھپی کہ دہلی میں پانی کی فراہمی کا سب سے اہم سورس بنی یمنا میں پچھلے چھ مہینے میں16 بار امونیا کی مقدار میں اضافہ ہوا۔ دہلی کو اس کے حصہ کا پانی دلانے کے لیے سپریم کورٹ کومداخلت کرنی پڑی۔
مارچ کے شروع میں آندھراپردیش کے ایلرو شہر کے لوگ پانی اور دودھ میں نکیل اور سیسے جیسی بھاری دھاتوں والاپانی پینے کومجبور ہوئے۔ 500 سے زیادہ بیمارافراد کو دورے، گھبراہٹ، بےہوشی، الٹی، پیٹھ درد ہوئے۔محققین کو خدشہ ہے کہ دھاتی آلودگی آبی حیاتیات تک پر جینیاتی مضر اثرات ڈال سکتی ہے۔ کیا کوئی ایسی گارنٹی دے سکتا ہے کہ اب آگے سے ایسی آلودگی نہیں ہوگی؟
علاج سے پہلے روک تھام ترجیحات میں شامل کیوں نہیں
مشاہدہ یہ ہے کہ اگرسورس خالص ہو توصاف پانی کی گارنٹی نل سے بھی ممکن ہے اور ہینڈ پمپ اور کنویں سے بھی۔ پرانی سیکھ بھی ہے کہ علاج سے بھلا روک تھام۔ اس لیے ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ سورس آلودہ ہی نہ ہو۔
آبی آلودگی کے اہم اسباب ہیں: آبی سطح میں کمی، روانی میں کمی، صنعتی، فضلہ، پالی و الکٹرانک کچرا اور زراعت میں مصنوعی کیمیکلز کی زیادتی۔وزارت زراعت27 مصنوعی کیمیکلز کے زراعتی استعمال پر پابندی کے بارے میں غورکر رہا ہے۔ ریاست اور مرکز کی سطح پر کئی مصنوعی کیمیکلزاور جراثیم کش ادویات پر پہلے سے پابندی ہے۔
مدھیہ پردیش انتظامیہ نے صرف زراعت کے شعبہ میں گریجویٹ کو زراعت سے متعلق مصنوعی کیمیکلزکی فروخت کاحق دینے کا اصول کافی پہلے ہی بنا دیا تھا۔ باوجود اس کے کیا اگلے 10 سال میں بھی ہم یہ گارنٹی دینےکےقابل ہوں گے کہ کسان مضر کیمیکلز کا استعمال کرنا پوری طرح بند کر دےگا؟
سوچھ بھارت ابھیان کے معیار کی بڑے پیمانے پر ان دیکھی کے نمونے بنے کچے گڑھے والے ٹوائلٹ کو دیکھ کرکیا ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ یہ زمینی پانی کے ذرائع کو آلودہ نہیں کریں گے؟ہندوستان کے سیوریج نظام کو دیکھ کر بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہماری ندیاں آلودہ نہیں ہوں گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم زمینی پانی کی سطح کو اٹھا پا رہے ہیں؟ کیا ندیوں کی روانی کو بڑھانا سرکار کی ترجیحات بن پائی ہے؟ کیا کچرے پر روک تھام کی پابندی صرف کاغذی ثابت نہیں ہو رہے؟زیادہ استعمال سے زیادہ کچرا۔ کیا ہمارے ہندوستان کے پالیسی ساززیادہ استعمال سے کم کی جانب واپسی کرنے کےخواہش مند ہیں؟ اگرنہیں تو پھرصاف صفائی کے نام پر ایک ایسانظام کیوں کھڑاکر ر ہے ہیں، جس میں خطرے ہی خطرے ہیں؟
کہیں پیوری فائیر کا بازار بڑھانے کا اوزار تو نہیں بن جائےگا نل جل؟
آراو(رورس آسموسس)صفائی کے ایک عمل کا نام ہے۔ آراوعمل میں بہت زیادہ پانی برباد ہوتا ہے۔ اس میں پانی کئی ضروری نامیاتی اور غذائی اجزاء سے محروم ہوجاتا ہے۔اس وجہ سےآراو پیوری فائیر سے نکلا پانی صاف مگر سب سے کمزور پانی ہوتا ہے، جبکہ صاف پانی کا مطلب نامیاتی اور غذائی اجزاء سے بھرپور صاف پانی۔
ماہرین کاخیال ہے کہ آرسینک جیسی کئی آلودگیوں کو صاف کرنے کے آراو پیوری فائیر کمپنیوں کے اشتہار گمراہ کن ہیں۔ایسے ہی نتائج کی بنیادوں پر نیشنل گرین اتھارٹی(این جی ٹی)نے ریاستی سرکاروں کو ہدایت دی تھی کہ جہاں پانی میں تحلیل ٹھوس مادہ(ٹی ڈی ایس)کا مقدار500 ملی گرام فی لیٹر تک ہو، ان علاقوں میں آراو پیوری فائیر لگانے پر پابندی عائد کی جائے۔
دوسری ہدایت یہ تھی کہ لوگوں کو آراو پیوری فائیر کے مضر اثرات کے بارے میں بیدارکیا جائے۔ اپنی تیسری ہدایت کے تحت این جی ٹی نے کہا تھا کہ جہاں بھی آراو لگانے کی منظوری دی گئی ہے، وہاں آراو پیوری فائیر سے نکلے پانی کی60 فیصدی کے دوبارہ استعمال کو لازمی کیا جائے۔اس کو بعد میں بڑھاکر 75 فیصدی کر دیا جائے۔
کیا سرکاروں نے اس کو یقینی بنایا ہے؟ نہیں، اس کے برعکس سرکاروں اور عدالتوں نے جہاں چاہے اسکول/کالج میں جبراً آراو پیوری فائیر لگوائے۔اب جل جیون مشن کی ہدایات میں پہلے پانی صاف کرنے اور پھر معدنیات ملانے کی بات موجود ہیں۔اس کی جانچ کی جانی چاہیے کہ کیا نل جل پرمنصوبوں میں لگے ایسے پلانٹ کو لگاتے وقت نیشنل گرین اتھارٹی کے آراو سے متعلق تینوں احکامات پر عمل درآمد ہواہے؟
سو فیصدی نل جل فراہمی والے علاقے گوا اور تلنگانہ اس کی جانچ کے لیے لیب بن سکتے ہیں۔اگر نہیں، تو خطرہ یہ ہے کہ صاف پانی کے چکر میں نل جل سب سے صاف،لیکن سب سے کمزور پانی پلانے والی قواعد تو ثابت ہوگی ہی، پانی کو صاف کرنے کا عمل بازار کے چکرویوہ میں بھی پھنسائے گا۔
نیت پر سوال
دراصل، اب سوال جل جیون مشن کی پالیسی سے زیادہ سرکاروں کی نیت پر آکر ٹک گیا ہے۔ پی پی پی ماڈل کی سب سے زیادہ مخالفت این جی او(غیر سرکاری تنظیم)ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا این جی او کو بھی اس نیت میں شریک کر لیا گیا ہے۔
نیت کا تازہ نمونہ یہ ہے کہ اپنے چہیتے این جی او کو کام دینے کے لیے اتر پردیش انتظامیہ نے پانی کو صاف کرنے کے معیارات کو ہی بدل ڈالا ہے۔پانی میں لوہا، بھاری پن، کلورین، نائٹریٹ، فلورائیڈ اورمہلک آرسینک جیسےعناصر کی موجودگی کے معیار کو 25 سے 50 فیصدتک ڈھیلا کر دیا ہے۔
یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے
وزارت ماحولیات کے اس وقت کے ایڈیشنل سکریٹری ارون کمار مہتہ کے ذریعےپانی صاف کرنے کے معیار میں ترمیم کے بارے میں 13 اکتوبر، 2017 کو جاری نوٹیفکیشن(نمبر843)نے بھی یہی کیا تھا۔آلودگی پر قابو پانے والے مرکزی بورڈنے جومعیار اکتوبر، 2015 میں بنائے تھے، آدھے ادھورے حکومتی کوششوں کو پوراکامیاب دکھانے کے لیے اکتوبر، 2017 میں ان معیارات کو خود ہی گرا دیا تھا۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈکے ذرائع کہتے ہیں کہ گہرائی کم سے کم تین میٹر ہو، تو مہاسیر مچھلی کو آنے جانے میں سہولت ہوتی ہے۔لیکن معیار کو گھٹاکر آدھا میٹر تک کرنے کی کوشش ہوئی، جو احتجاج کرنے پر ایک میٹر کی گئی۔
خدشات بے بنیاد نہیں
سورس سے لےکر گاؤں کی حد تک پانی پہنچانے کا کام پہلے ہی کمپنیوں کو سونپ دیا گیا ہے۔ کوئی گارنٹی نہیں کہ کمپنی فراہمی کے بنیادی ماخذ پر اپنا حق نہیں جتائےگی۔جل جیون مشن نے کم سے کم 30 سال تک پانی پلانے والے آبی وسائل کو اپنانے کی ہدایت دی ہے۔ لگاتار پانی کی فراہمی کی گارنٹی کے نام پر کمپنیاں مانگ سکتی ہیں کہ سورس کو 30 سال کی لیز پر کمپنی کو ٹرانسفر کرو۔
اجارہ داری ہوئی تو کمپنی سینچائی وغیرہ کے لیے پانی لینے والے کسانوں کو انکار بھی کر سکتی ہے، وصولی بھی کر سکتی ہے، کارپوریٹ مقبوضہ کھیتی کو پانی مہیا کرانے کا اوزار تو بن ہی سکتی ہے۔چہرہ سماجی، ایجنڈا کارپوریٹ کیا مودی سرکار کے دیگر کئی منصوبوں کی طرح، نل جل کا بھی ایجنڈہ کارپوریٹ نہیں ہوگا؟ اس کی کیا گارنٹی ہے؟
اگرکسی پنچایت کی پانی کمیٹی تعاون، بل کی ادائیگی اورپانی کی فراہمی سے متعلق شرطوں کے مطابق ممکنہ کام کرکے نہ دکھا سکی تو پانی کی فراہمی اس سے چھین کر کسی ٹھیکیداریا کمپنی کو نہیں سونپ دی جائےگی، اس بات کی گارنٹی جل جیون مشن کے دستاویزوں میں نہیں ہے۔
آخرکار ڈھنگ سے پانی فراہمی کے نام پر پی پی پی ماڈل اپنانے کا بڑھتا چلن یہی تو کر رہا ہے۔ سرکاریں کامیاب ہوئیں تو اس تجربہ کو سینچائی میں بھی لے جا سکتی ہیں۔کسانوں کو ابھی تین زرعی قوانین کے خلاف جوجھنا پڑ رہا ہے، تب کیا ہوگا؟ جواب لینا اور دینا ضروری ہے۔
(مضمون نگارآزاد صحافی ہیں۔)
Categories: خبریں