ادبستان

آخر وہ کون سی چیز ہے جو شیکسپیئر کو لافانی بناتی ہے …

ہماری تہذیب اور ثقافتی ورثے پر شیکسپیئر کا تاثر اتنا گہرا اور ہمہ گیر  ہے کہ  وہ ہمارے شعور کا حصہ بن گیاہے ہماری ذہنی نشوونما میں گھل مل گیا ہے۔

فوٹو بہ شکریی، وکی میڈیا کامنس

فوٹو بہ شکریی، وکی میڈیا کامنس

وہ کون سا آب حیات ہے جس کو پی کرشیکسپیئراس دنیا سے جانے  کے چار صدی بعد بھی موت کو انگوٹھا دکھا رہا ہے؟اس سوال کا جواب انگریزی ادب کے عالم اتنے ہی وقتوں سے مسلسل ڈھونڈ رہے ہیں ، لیکن اس کے اتنے سارے او ر متضاد جوا ب ہیں  کہ ہر جواب ناقص  جان پڑتا ہے۔

یہ بات میں نے کہیں پڑھی تھی،حالاں کہ اس کی صداقت   کی تصدیق کا کوئی طریقہ میرے پاس نہیں ہے کہ ٹالسٹائی، شیکسپیئر کے ڈرامے ‘کنگ لیئر’ کا روسی زبان میں ترجمہ کررہے تھے۔ کنگ لیئر کا انجام  دیکھ کر وہ کانپ گئے۔ اور انہوں  نے اپنے ترجمہ میں بادشاہ کو بچا لیا۔دراصل  کنگ لیئر میں وہ اپنی تصویر دیکھنے لگے تھے۔

تو شیکسپیئر کی ایک خوبی یہ تھی- انسانی مزاج اور دانش  پر ایسی چابکدستی  کہ ان کے کردار پنی دورافتادہ  زبان اور پوشاک  کے باوجود بالکل قاری کی طرح ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم کنگ لیئِر اور ٹالسٹائی کی زندگی پر نگاہ کریں  تو  دونوں  کا انجام  انتہائی اذیت ناک اوردل کو چھو لینے ولا ہوتا ہے۔

یعنی شیکسپیئر نے کنگ لیئِر اور اس لحاظ سے ٹالسٹائی کے لیے جو تقدیر  طے کردی تھی- ٹالسٹائی- اپنی تخلیقی کاوشوں کے باوجود اس سے بچ نہیں پائے۔

دراصل شیکسپیئر کی تفہیم کرتے ہوئے  ہمیں زندگی اور ادب دونوں کی کئی گتھیاں  سمجھ میں آتی  ہیں۔ہم سب کہتے ہیں کہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے ، لیکن ہم اس جملے کے حقیقی مفہوم  سے تقریباًناواقف  ہوتے  ہیں۔ چونکہ زندگی اتنی ساری گتھیوں سے بھری ہوتی ہے ، وہ سادگی اور پیچیدگی کاایسا بے مثال مرکب ہے اور اس میں اتنی پرتیں ہیں کہ ادب کا کوئی  بھی آئینہ اس کو ٹھیک ٹھیک اپنی گرفت میں  نہیں لےپاتا۔

جو ادب اس زندگی کے بہت قریب جاتا ہے ، اس کے غیبی اور اچھوتے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے  اور اسے اپنے تاریک گوشوں  سے نکال کر باہرلاتا ہے، وہی عظیم ادب ہے۔

 شیکسپیئر یہی کام کرتا ہے۔ اس کے پاس جادوئی ٹارچ ہے۔ اس کی روشنی ایک طرف عظیم تر نظر آنے  والی زندگیوں کے انتہائی معمولی پہلوؤں پر پڑتی ہے ، اور دوسری طرف انتہائی معمولی نظر آنے والے لوگوں کے غیر معمولی پہلوؤں کو روشن کرتی ہے۔

یہاں تک کہ تمام جائز  اور فطری خواہشات کے ساتھ ایوان سیاست کی باگ ڈور تھامنے کی کوشش کرنے والے وزراء ،حقیر سی  جسمانی خواہشات میں مبتلا پائے جاتے ہیں اور طوائفوں کا ایک دلال یہ دیکھ کر پریشان ہوسکتا ہے کہ ایک  سیدھے سادے  آدمی کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے (حوالہ؛ میجر فار میجر)۔

اس کے یہا ں ہی ایسے جرأت مندمنفی کردار مل سکتے ہیں جو یہ بے ہچک قبول کریں کہ ؛’میں جو ہوں وہ نہیں ہوں۔’اور جو بس    برائی کے لیےکسی کی برائی چاہیں(اوتھیلو کا ایاگو)۔

انسانی ہمدردی کے جذبے کو ‘قانونی شرائط میں پابند انصاف ‘سے زیادہ  اہمیت دے کر شیکسپیئر وہ راستہ کھولتے ہیں جس کا استعمال  چار صدی بعد ذات پات پر مبنی تشدد کے بعد اجتماعی میل ملاپ کی کوششوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔  (مرچنٹ آف وینس) ۔

زندگی کےطوفان میں کھوئی ہوئی  شناختوں کا بھیدشیکسپیئر کے ڈراموں میں اس طرح سے اور اتنی بار کھلتا ہے کہ وہ اپنے سارے تحیر  کے باوجود ایک ما بعد جدید تعبیر کو بروئےکار لانے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ بے ساختہ پوری دنیا کے تخلیق کاروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئیں اوراس کی  کہانیوں  کودوبارہ تخلیق کریں۔

گلزار اس کے ‘کامیڈی آف ایرر’ کو اٹھاکر ‘انگور’ جیسی دلچسپ فلم اور حبیب تنویر ‘مڈسمرز نائٹس ڈریم’ کی ایک الگ متخیلہ دیسی تعبیر’کام دیو کا اپنا وسنت ریتو کا سپنا’جیسے ڈرامے  تیار کر دیتے  ہیں ۔

ان سب سے الگ اور انوکھا کام وِشال بھاردواج نے کرتے ہیں جو شیکسپیئر کےتین عظیم ترین المیوں ، ‘میکبیتھ’ ، ‘اوتھیلو’ اور ‘ہیملیٹ’ کو ‘مقبول’ ، ‘اوم کارا’ اور ‘حیدر’ جیسی تین ایسی جدید فلموں میں ڈھال دیتے ہیں جو کہیں سے بھی غیر ہندوستانی  نہیں لگتیں۔

اگر ہم غور سے دیکھنا شروع کریں تو ہماری مکمل تہذیب پراور ہمارے ثقافتی ورثے پر شیکسپیئر کا تاثر اتنا گہرا اورہمہ گیر  ہے کہ ایسا لگتا ہے گویا شیکسپیئرہمارے شعور کا حصہ بن گیاہو ہماری ذہنی نشوونما میں گھل مل گیاہو۔

زندگی کو تھیٹر اور کٹھ پتلیاں  ماننے  کی کہاوت  ہوں، یا جڑواں بھائیوں کے بچھڑنے کی داستانیں ، باپ اور بیٹیوں کے باہمی اعتماد کی آزمائش ہو  یا محبت کی عظمت کی گہرائی، دوست کے فریب کو بروطس سے مربوط کرنے کا چلن  ہو ، یا ‘نام میں کیا رکھا ہے’کی تجویز !  لگتا ہی نہیں ہے شیکسپیئر ہم سے الگ اور جدا ہے۔

ڈنمارک کی غلاظت میں ہمیں  ہماری غلاظت دکھائی دیتی ہے۔اور اس کا ماتم ہمیں ہماری تقدیر محسوس ہوتی  ہے۔وہ   زندگی کی خوبصورتی اور بدصورتی کو ، اس کے سیدھے پن اور اس کی چالاکی کو ، اس میں موجود محبت اور اس کے  اندر چھپی ہوئی نفرت کو ور ان سب سے مل کر بننے والی  آنے والی ستم ظریفی کو ، عشق کے   نمک اورجنون کے  زہر کو ، اس طرح  اپنی گرفت میں لیتا اور لکھتا ہے کہ اس کا قلم ہم سب کی زندگی کا آئینہ بن جاتا ہے۔ہم سب اپنے اندر جھانکنے  لگتے ہیں۔

ولیم شیکسپیئر، فوٹو بہ شکریہ وکی میڈیا کامنس

ولیم شیکسپیئر، فوٹو بہ شکریہ وکی میڈیا کامنس

یقیناً شیکسپیئر کی عالمی شناخت میں برطانوی سامراج نے ضرور   مدد کی تھی۔ لیکن وہ برطانوی سامراج میں پیدا نہیں ہوا تھا۔

اس نے جس انگریزی میں لکھا  تھا اس انگریزی کی کوئی معیاری شکل  بھی وجود میں نہیں  آئی تھی ۔

شیکسپیئر کسی بھی کلاسیکی معنوں میں کوئی عالم اور دانشور نہیں تھا۔ دراصل  یہ شیکسپیئر  کا علاقائی تشخص  یاعوامی عنصر ہے جو  اس  میں  ایک انوکھی چمک بھرتا ہے اور  عالمی مقبولیت فراہم کرتا ہے۔

شیکسپیئر جو کہانیاں کہتا ہے ، وہ سنی ہوئی لگتی  ہیں،لیکن وہ اتنی ہی انفرادیت سے کہتا ہے کہ کہانی بدل جاتی ہے،کردار بدل جاتے ہیں اور ماحول بھی بدل جاتا ہے۔

انگریزی دانشوروں کے ہاں یہ تسلیم شدہ امر   ہے کہ شیکسپیئر نے یونانی المیوں  کی بنیادی نوعیت کو تبدیل کردیا۔ یونانی المیوں  میں ، انسان تقدیر کا پتلا دکھایا گیا ہے۔ لیکن شیکسپیئر کے کردار  اپنی منزل اور اپنی تقدیرخود بناتے ہیں- ‘کریکٹر ہی تقدیر’ہے ،اس   فقرےسے ان کی المیہ سازی اور کامیڈی وجود پاتی ہے۔

یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کون سا ادب پائیدار ہے؟ اس سوال کے بھی بہت سے جواب ہوسکتے ہیں۔ لیکن صحیح جواب یہ ہے کہ جس ادب میں زندگی اپنے تمام تر جوش و جذبے کے ساتھ نظر آئے  اور اس کے باوجود  شعور اور وقار کی چمک میں کوئی کمی  واقع   نہ ہو۔ ایسا ادب نسل در نسل پڑھا جاتا ہے، اور ہر آنے والی نسل اس کے اپنے اپنےمعنی نکالتی رہتی  ہے۔

مصنف بھی بار بار وہی ادب تخلیق کرتے ہیں۔اس طرح سے ایک شیکسپیئر،یا تو پاموک کے اندر یا مارکیز  کے اندر ہلتا ڈولتا نظر آتا ہے – اور ان کئی  شاعروں میں بھی ، جن میں انسانیت کی روشن چمک باقی ہے۔ دراصل یہ امرت نہیں ہے بلکہ زندگی کا زہر پینے کی ہمت ہے جس نے شیکسپیئر کو بچایا ہے۔

(ہندی سے ترجمہ:مصدق مبین)