ادبستان

ری پبلک آف ہندوتوا: ایک ایسی کتاب جو سنگھ کے اسٹرکچر اور طور طریقوں کے بارے میں بتاتی ہے

بک ریویو:  پڑھے -لکھے شہریوں اور لیفٹ- لبرل طبقوں میں آر ایس ایس کو لےکر جو عقیدہ  رہا ہے وہ یہ ہے کہ سنگھ بہت ہی پسماندہ تنظیم  ہے۔ بدری نارائن کی کتاب ‘ری پبلک آف ہندوتوا: ہاؤ دی  سنگھ از ری شیپنگ انڈین ڈیموکریسی’ دکھاتی ہے کہ سنگھ نے اس کے برعکس  بڑی محنت سے اپنی امیج بنائی ہے۔

Republic-of-Hindtva-Book-Photo-Amazon

حالیہ چند سالوں میں آر ایس ایس (سنگھ)کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ 1925 میں قائم ہونے والے  سنگھ کے بارے میں2014 سے پہلے تک چند کتابیں ہی موجود تھیں جو اکیڈمک اورکبھی کبھی مقبول  طریقے سے سنگھ کی تاریخ ، اس کے نظریات اور اس سے وابستہ اہم افراد کے بارے میں جانکاری دیتی تھیں۔

سال 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی نے ماہرین سماجیات اور انتخابی مبصرین کو حیران کر دیا۔ ایک دو سالوں  کی شروعاتی  ہچکچاہٹ کے بعد لوگوں نے یہ ماننا شروع کیا کہ بی جے پی  کی اس کامیابی  کے پیچھے سنگھ کے کارکن  اور ان کی تنظیم  تھی۔

یہ سب جانتے ہیں کہ 1990 کے بعد کے ہندوستان  کی سیاسی پارٹیوں  کو آسانی سے سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہندوستان  میں انتخابی کامیابی  تب تک ممکن نہیں ہے جب تک دلت بہوجن برادریوں  کے سب سے بڑے انتخابی  حلقےکو اپنی طرف  نہ ملایا جائے۔

کاشی رام، مایاوتی، ملائم سنگھ، یادو، رام ولاس پاسوان، لالو یادو اور ایچ ڈی دیوگوڑا جیسے رہنماؤں نے 1989 سے لےکر 2004 تک اس کو ثابت بھی کیا۔ بی جے پی، کانگریس اور یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتی تھیں۔ دلت بہوجن سیاسی عروج  کے پہلے ان کے ووٹر اور کیڈر کا بڑا حصہ ان برادریوں  سے تعلق رکھتا تھا۔

سال2009 میں ہی مؤرخ اورماہر بشریات بدری نارائن نے اپنی کتاب‘فیسینیٹنگ ہندوتوا:سیفرن پالیٹکس اینڈ دلت موبیلائزیشن’ میں اسے نشان زد کیا تھا کہ سنگھ کس طرح  دلت برادریوں  کے بیچ پیٹھ بناتا ہے اور اس کا پیٹرن کیا ہے اور یہ سب بی جے پی  کی مدد کیسے کرتے  ہیں۔

لگ بھگ ایک دہائی  سے زیادہ کے بعدانہوں نے اپنے کہے ہوئے کو نہ صرف پھر سے دیکھا ہے بلکہ نئے فیلڈ ڈاٹا کے ساتھ ایک نئی کتاب لکھی ہے۔

ان کی کتاب‘ری پبلک آف ہندوتوا:ہاؤ دی سنگھ از ری شیپنگ انڈین ڈیموکریسی’ اس بات کی جائزہ لیتی ہے کہ سنگھ کے اتنے بڑے اسٹرکچرمیں‘تنظیم، نظریات اورشخص’ ایک ہی سرزمین پر کس طرح کام کرتے ہیں اور وہ  کس طرح ایک ‘ہندو جمہوریہ کے قیام ’ کی جانب  بڑھ  رہے ہیں۔

اپنی بات کی تصدیق کے لیے بدری نارائن پہلے سے طے شدہ کسی اصول سے اس کومنسلک  نہیں کر دیتے ہیں بلکہ اسے سماج کے بیچ جاکر ہی ٹیسٹیفائی کر رہے ہیں۔انہوں نےالگ الگ عمر کی خواتین، مردوں ، سنگھ سے وابستہ کارکنوں اوررہنماؤں سے لمبی بات چیت کی ہے، انہیں بولنے دیا ہے اور اس سے نکلی بات کو ایک دلچسپ  تفصیلات میں پیش  کر دیا ہے۔

لیکن یہ سب کوئی یک خطی  اکیڈمک مشق  نہیں ہے بلکہ اس میں ہندوستان  کی تاریخ ، آزادی کے بعد کے ہندوستان  کی مختلف کمیونٹی  کے تجربے، دلتوں کو بااختیار بنانے کے منصوبے اور انتخابی سیاست شامل ہیں۔

پڑھے-لکھے شہریوں اور لیفٹ- لبرل طبقوں میں سنگھ کو لےکر جوعقیدہ  رہا ہے وہ یہ ہے کہ سنگھ بہت ہی پسماندہ  اورتقسیم کاری تنظیم ہے۔ جیسا کہ بدری نارائن کی یہ کتاب دکھاتی ہے کہ سنگھ نے اس کے برعکس  بڑی محنت سے اپنی امیج  تیار کی ہے۔

اس نے لوگوں کی زندگی میں شامل ہونے کے لیے سیوا یعنی خدمت  کا سہارا لیا ہے۔ عوام  کے بیچ اپنی پیٹھ کو یقینی بنانے کے لیے اس نے لگاتار علامتوں ، ہیروز، نظریات اور دائروں (اسپیس)کی تخصیص(ایپروپرییشن)کی ہے۔

اس عمل  سے نکلنے والی سیاست لوک سبھا اور ودھان سبھا انتخابات میں رنگ دکھاتی ہے۔ اس وقت مبصرین  اور اپوزیشن  پارٹیوں کے ہاتھ میں سنگھ نہیں بلکہ اس کی امیج  ہاتھ میں آتی ہے۔ وہ  اس سے پوری کوشش سے لڑنا تو چاہتے ہیں لیکن یہ ایک امیج وار ثابت ہوتی ہے کیونکہ تب تک سنگھ اپنے آپ کو بدل لیتا ہے۔

حالانکہ صاحب کتاب نے اس بات کے امکان سے انکار نہیں کیا ہے سنگھ کے کئی پرانے کارکن  ان کی اس بات سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔

یہ کتاب بالکل شروعات میں ہی بتاتی ہے کہ ہندوستانی  سماج کے وہ تمام طبقے (مسلمانوں کو چھوڑکر)جو سنگھ کی سماجی ثقافتی سیاست کی  مخالفت میں کھڑے تھے، انہیں سنگھ اپنے اندرشامل  کرتا جا رہا ہے اور وہ ایک نئےطرح  کے سماج کی تعمیرکر رہا ہے۔ ‘ری پبلک آف ہندوتوا’اسی سماج کا انکشاف ہے۔

اس کتاب کی نمایاں اورسب سے بنیادی دلیل  یہی ہے کہ سنگھ اور بی جے پی  ایک دوسرے سے ناف اورنال کی طرح وابستہ ہیں، حالانکہ وقت وقت پر بی جے پی اور سنگھ کےعہدیدار اس بات پر زور ڈالتے رہے ہیں کہ دونوں آزادیاں  ہیں اور سنگھ کا کام ‘ثقافتی قومیت’کو بڑھاوا دینا ہے۔بی جے پی کا کام سیاست سےمتعلق  ہے۔

یہ کتاب اس دلیل سے آگے جاتے ہوئے بتاتی ہے کہ یہ سنگھ کاثقافتی  راشٹرواد سپیروں، مسہروں جیسی پسماندہ  برادریوں اور خانہ بدوش  اورنیم خانہ بدوشوں کی  برادریوں  کے بیچ کس طرح کی شکل  اختیار کرتی ہے اور یہ کمیونٹی  بی جے پی  کےپھیلے ہوئےانتخابی تصورات میں شامل  ہوتی چلی جاتی ہیں۔

سنگھ اس کے لیےہدف میں شامل برادریوں اور دائروں میں‘خدمت’کے کاموں  کی توسیع کرتا ہے اور عوام  کے ایک بڑے حصہ کو خود سے جوڑ نے کی کوشش کرتا ہے۔

راشٹریہ سیوا بھارتی، ودیا بھارتی، ونواسی کلیان آشرم، شکشا سنسکرتی اتھان نیاس، ششو شکشا پربندھ سمیتی، سہکار بھارتی جیسی  ذیلی تنظیم تعلیم ،محنت، کوآپریٹو کمیٹیوں  اور مزدوروں کے بیچ کام کرتے ہیں اور بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد ہندومفادات کو آگے لے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ایک بڑی تنظیم  کے ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے کے اندر یہ تمام اسٹرکچر کام کر رہی ہوتی ہیں۔ بھارتیہ مزدور سنگھ اور سودیشی جاگرن منچ جیسی تنظیم سرکار سے مختلف مدعوں جیسےحصول اراضی  اورغیرملکی سرمایہ  کے داخلہ کے مدعے پر الگ رویہ رکھتی ہے لیکن آخرکار ان سب کی شمولیت سنگھ کے اندر ہو جاتی ہے۔

سنگھ جہاں اپنی اندرونی دقتوں کو ٹھیک کر لیتا ہے وہیں ہندوستانی سماج کی ان سچائیوں کے اجتماع  کی کوشش کرتا ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ایک طرف سنگھ دلتوں کے بیچ پیٹھ بناتا ہے، ان جھگی بستیوں کو بھگوابناتا ہے جہاں امبیڈکر اور کاشی رام کی سیاست پروان چڑھی تھی۔

بدری نارائن اس کے لیے‘سیفرن سلم’کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک وقت  مانا جا رہا تھا کہ ان جھگی بستیوں سے نئی دلت سیاست نکلے گی۔ اب اس سیاست نے بی جے پی  کی طرف منھ کر لیا ہے۔بی جے پی کی انتخابی کامیابی کو تب تک ڈی کوڈ نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک ایسےنظرانداز دائروں کا گہرائی سے معاشرتی و اقتصادی مطالعہ نہ کیا جائے۔ بدری نارائن یہ کرتے رہے ہیں۔

وہ  سنگھ کے اس تذبذب پر بھی انگلی رکھتے ہیں کہ سماج کے نچلے طبقوں کے بیچ اپنی سیاسی بنیاد بڑھا رہے سنگھ کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ‘کور سپورٹرس’یعنی اشرافیہ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔اس کتاب کا سب سے اہم  حصہ وہ ہے جہاں بدری نارائن سنگھ، بی جے پی ا اور اس کے رائے دہندگان  کے رشتہ کی توضیح  کرتے ہیں۔ دراصل موجودہ ہندوستان  میں انتخابات میں میں کسی پارٹی کی جیت درحقیقت اس کے نیریٹو کی جیت ہے۔

تمام  پارٹیاں اپنی تاریخ ، نظریات اور ممکنہ رائے دہندگان  کو دھیان میں رکھ کر نیریٹو کی تشکیل کرتی ہیں۔ بی جے پی  نے 2014 میں وکاس اور ہندوتوا کا نیریٹو سامنے رکھا اور فروری 2019 میں اسے تھوڑا پیچھے رکھتے ہوئے اس میں بالا کوٹ کے نیریٹوکو قومی سلامتی  کے سوال کے ساتھ جوڑکر پیش کر دیا۔

ادھر مایاوتی اور اکھلیش یادو نے دلت پسماندہ  گٹھ جوڑ کا نیریٹو تشکیل کرنے کی کوشش تو کی لیکن وہ چل نہیں پایا۔ یہاں تک کہ مایاوتی جی کو علی بجرنگ بلی کا نیریٹو گڑھنا پڑا۔

اتر پردیش کے بھاجپائی وزیر اعلیٰ نے وکاس اور ہندوتوا کےنیریٹوکو کمبھ 2019 کے میلے میں ایک بار پھر ملا دیا۔ اپنی سہولت اور موقع  کے مطابق  بی جے پی  اور سنگھ ہندوتوا کا نیریٹو پیش  کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے زمین تیار کرنے کا کام سنگھ کرتا ہے۔

ایسی  بہت سی تفصیلات کے ذریعے بدری نارائن یہ دکھاتے ہیں کہ انتخاب  کس طرح  بیانیے کی لڑائی میں بدل جاتے ہیں اور موجودہ تناظر میں بی جے پی  اور سنگھ اپنے نیریٹو سے ان انتخابات میں کیسے آگے نکل جاتے ہیں۔

جب میں یہ تبصرہ  لکھ رہا ہوں تو کورونا کے معاملوں میں خوفناک  اچھال دیکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کی  زندگی شدیدخطرے میں ہے اور ہری دوار میں کمبھ چل رہا ہے۔ وہاں بھی کورونا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کی خبریں آ رہی ہیں۔

بدری نارائن اپنی کتاب کےپس لفظ میں کہتے ہیں کہ جب جب کبھی یہ مہاماری قابو ہو جائےگی، سماجی زندگی  نارمل  ہو جائےگی تو سنگھ ہندوتوا پبلک اور بایو پبلک کو آپس میں ملا دےگا۔

سال 2020 میں کووڈ کے شروعاتی دور میں ہی فلسفی  جورجو آگامبن نے اس بات کی جانب  اشارہ کیا تھا کہ ایسے آفات میں کس طرح  عوام کو صرف جینے کی پڑی رہتی ہے اور بدن  ہی اس کی تشویش  کا بنیادی مرکز بن جاتا ہے۔ ہندوستان  میں ذات پات  اور چھوا چھوت  پہلے سے ہی تھے۔ کورونا نے اس کو اور تیز کر دیا ہے۔

بدری نارائن اسے مانتے ہوئے بھی یہ کہتے ہیں کہ کچھ جگہوں  پر ذات پات کچھ وقت کے لیے کمزور بھی ہوئے لیکن اسے ہمیشہ کے لیے تو نہیں کہا جا سکتا ہے۔ سنگھ انہی امتیازکو کم کرکے اپنے ڈھانچےمیں ملا لینا چاہتا ہے۔

یہ کتاب ہندوستانی رہنماؤں، دانشوروں ، صحافیوں  کے لیے ضروری کتاب تو ہے ہی،سماجیات کے شعبہ میں تحقیق کرنے والے طلبا کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے جو کسی واقعہ  کی تشکیل و تعمیر اور اس کے سماجی ، ثقافتی  اورسیاسی اثرات  کا مطالعہ  کرنا چاہتے ہیں۔

(مبصر آزاد محقق  ہیں۔)