دنتے واڑہ اور بیجاپورضلع کے پہاڑی سرے پر بسےگمپور کے نوجوان بدرو ماڈوی کو گزشتہ سال جن ملشیا کمانڈر بتاتے ہوئے انکاؤنٹر کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ بدرو کے اہل خانہ اورگاؤں والوں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئےانصاف کی لڑائی کی علامت کے طور پر ان کی لاش محفوظ رکھی ہے۔
دن نکلنے کے بعد جب درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا، چھ لوگوں نے مل کر گمپور گاؤں میں برابرکر دی گئی مٹی کو تیزی سے کھودنا شروع کر دیا۔گمپور، چھتیس گڑھ میں دنتے واڑہ اور بیجاپور ضلع کے پہاڑی سرے پر دوکاپارہ کے جنگلوں کے کافی اندر بسا ہواگاؤں ہے۔
ان لوگوں نے پہلےتقریباً ایک فٹ کی گہرائی تک نرم لال مٹی کو ہٹایا اور اس کے بعد کافی احتیاط کے ساتھ ایک پتلے اوربرابر سے بچھائی گئی ترپال کی پتلی چادر کو کھینچ کر باہر نکالا۔کھدائی جاری رہی۔ دو فٹ کی گہرائی پر انہوں نے ایک گہرے گڑھے کے اوپر رکھے گئے لکڑی کے کئی چپٹے تختوں کو نکالا۔
ادھر ان لوگوں کی مشقت جاری تھی، ادھر گمپور سے کئی لوگ اس جگہ پر جمع ہو گئے۔ ان کا دکھ ہواؤں میں تحلیل ہو گیا جو کہ پہلے ہی مہوا کے پھولوں کی میٹھی کسیلی خوشبو سے بھراہوا تھا۔وہ گڑھا کسی قبر کے گڑھے کی طرح لگ رہا تھا، لیکن یہ ایسا تھا نہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے آدی واسی گروپوں میں سے ایک گونڈ آدی واسی مردوں کو دفن نہیں کرتے۔ وہ ان کو جلاتے ہیں۔
پچھلے سال مارچ میں،یہ بڑا گڑھا ایک‘محفوظ جگہ’کے طور پر اور ایک22سالہ نوجوان بدرو ماڈوی کی لاش کو محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا، جوسینٹرل اور اسٹیٹ کے ریزرفورسز کے ‘جوائنٹ آپریشن’ میں مارے گئے تھے۔
گاؤں والوں نے ایک رائے سے نمک، تیل اور کئی جڑی بوٹیوں کا لیپ لگاکر بدروکی لاش کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی لاش اب کافی حد تک خراب ہوچکی ہے اور جسم کے نام پر صرف ایک میلے سے کپڑے میں لپٹا ہوا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔
حالانکہ گاؤں والوں نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ تب تک ان کی لاش کو محفوظ رکھیں گے جب تک ان کی پریشانیوں کا قانونی حل نہیں مل جاتا ہے۔ بدرو کی موت پچھلے سال کووڈ 19 کے معاملوں کے بڑھنے کے بعد لگائے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران ہوئی۔
گاؤں والوں نے اس کے بعد سے کئی بار بلاسپور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہر بار وبا کی وجہ سےیہ عمل ملتوی ہوتا گیا۔ہر سال مارچ مہینے میں بستر علاقے کے کئی آدی واسی کمیونٹی مہوا کے پھولوں کو چننے میں لگ جاتے ہیں۔ 19 مارچ، 2020 کو بدرو بھی موسمی پھولوں کو اکٹھا کرنے کے لیے گھر سے صبح تقریباً6:30 بجے نکلے تھے۔
صبح 7 بجے کے تھوڑی دیر بعد گاؤں والوں کو ایک تیز دھماکے کی آواز سنائی دی۔ بدرو کو گمپور کے سات پاروں یا پلیوں میں سے ایک ماڈوی پارہ میں اس کے گھر سے کچھ میٹر دور گولی مار دی گئی تھی۔اسٹیٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف) اور ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ (ڈی آرجی)کی طرف سے چلایا گیا جوائنٹ آپریشن تھا۔
بدرو کو‘جن ملیشیا کمانڈر’بتایا گیا اور ان کے پاس سے ایک بھرمر (دیسی کٹا)، ایک ٹفن بم اور ترقی یافتہ ہتھیاروں کا ایک بڑاذخیرہ ملنے کا دعویٰ کیا گیا۔ حالانکہ ان کے اہل خانہ اور دوسرے گاؤں والے ان الزامات کی پرزور طریقے سے تردید کرتے ہیں۔
بستر رینج میں ایکسٹرا جوڈیشل کلنگزعام بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ عام ہے لوگوں کو ان کے گاؤں سے اٹھا لینا اور بعد میں انہیں ‘فرار’باغی یامسلح بغاوت میں شامل ‘نکسلی’ قرار دینا۔
کئی معاملوں میں ان ہلاکتوں کو گاؤں والوں کے سامنے یا آس پاس سے گزر رہے لوگوں کے سامنے کھلے عام انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ ان معاملوں کی شاید ہی کبھی قانونی جانچ ہوتی ہے، اس لیےچشم دیدوں کی گواہی مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کی مزاحمت کی طرح کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
جب بدرو کو گولی ماری گئی، اس وقت وہ اکیلے نہیں تھے۔ ان کے رشتہ کے بھائی سانو بھی اس دن پھول چننے کے لیے ان کے ساتھ گئے تھے۔سانو بتاتے ہیں کہ جب فورس نے گولیاں چلائیں اس وقت وہ کسی طرح سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو سکے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ‘میرا بچ جانا کسی معجزہ کی طرح تھا’۔
سانو کے ذریعے ہی بدرو کے گھروالوں کو اس واقعہ کی جانکاری ملی۔ کچھ منٹوں کے اندر ہی ان کی چاچی کوسی ماڈوی جائے وقوع پر پہنچ گئیں۔
کوسی بتاتی ہے، ‘ہم اس مقام پر پہنچ پاتے، اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ انہوں نے بدرو کو کپڑے میں باندھ دیا تھا اور وہ اس کی لاش کو گھسیٹ کر لے جا رہے تھے۔میں نے اس کی لاش کو چھوڑ دینے کی مانگ کرتے ہوئے ان کا ماڈوی پارہ سے وینگ پال(7 کیلومیٹر دور واقع ایک گاؤں)تک پیچھا کیا۔ انہوں نے مجھے پستول کے کندے سے مارا۔’
بدروکی لاش کو دنتے واڑہ ضلع اسپتال لےکر جایا گیا، جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ کافی درخواست کرنے کے باوجود انہیں آٹوپسی رپورٹ مہیا نہیں کرائی گئی۔گاؤں والوں کو ان کی لاش کو حاصل کرنے کے لیےضلع کلکٹر کےآفس کے سامنے کئی دنوں تک دھرنا دینا پڑا۔ اس کے بعد سے اس کی لاش کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں میں ایکسٹرا جوڈیشل کلنگز کا پہلا معاملہ نہیں ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ یہ آخری بھی نہیں ہوگا۔
بتادیں کہ28 جنوری2017 کو 22سالہ بھیما کڑتی اور اس کی15سالہ سالی سکھ متی ہیملا کاقتل ٹھیک اسی طرح سے کیا گیا تھا۔ ان کی بے رحم ہلاکت سے محض چھ دن پہلے بھیما کی بیوی جوگی نے دوسری بیٹی، بومو کو جنم دیا تھا۔
جوگی کا دعویٰ ہے کہ بھیما پوری حمل اورزچگی کے دوران اپنی بیوی کے پاس تھے۔ بچہ کی پیدائش کے چھٹے دن منائی جانے والی چھٹی کے رسموں کے ضروری سامانوں کی خریداری کرنے کے لیے بھیما، سکھ متی کے ساتھ 30 کیلومیٹر دور کرندل کی مقامی منڈی گئے تھے۔ ان دونوں کو بیچ میں روکا گیا اور ایک انکاؤنٹر میں انہیں مار گرایا گیا اور بعد میں انہیں‘نکسلی’قرار دیا گیا۔
اسٹیٹ نے دعویٰ کیا کہ وہ جن ملیشیا کے ممبر تھے۔ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ، بخار کی دوائیاں اور سرنج بھی ان سے برآمد کیے گئے سامانوں کے طور پر دکھلایا گیا۔ جہاں بھیما کو بالکل پاس سے گولی ماری گئی، وہیں گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ سکھ متی کا پہلےجنسی استحصال کیا گیا اور پھر گولی مارکر اس کو ہلاک کر دیا گیا۔
ارولی جنگل کے کافی اندر دوکاپارہ گاؤں، جہاں دونوں کو مبینہ طور پر لے جایا گیا تھا، کے آس پاس کے کئی لوگوں نے سکھ متی کے ذریعے مدد کے لیے چلانے کی تصدیق کی ہے۔پولیس کی بربریت بھیما اور سکھ متی کی ہلاکت کے ساتھ ہی بند نہیں ہوئی۔ جیسے ہی ان کی موت کی خبر ان کےاہل خانہ تک پہنچی، بھیما کے بڑے بھائی با من کڑتی نے انصاف کی مانگ کی۔
قابل ذکر ہے کہ 29 اور 30 جنوری،2017 کو کئی مقامی میڈیا اداروں نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے انصاف کے لیے لڑنے کاعزم لیا تھا۔ 31 جنوری کو سیڈیشن کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
جیل میں بتائے چھ مہینے بےحدخوفناک تھے۔ ایسا الزام ہے کہ پولیس نے انہیں لگاتار ہراساں کیا اور یہاں تک کہ ان کی جانگھ میں کوئی دھاردار چیز بھی گھونپ دی گئی۔ اس زخم کے نشان ابھی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
بھیما اور سکھ متی کی ہلاکت نے پورے گاؤں میں ابال لا دیا۔ تین سال بعد کے بدرو کے معاملے کی ہی طرح اس وقت بھی گاؤں والوں نے ایک رائے سے کورٹ کی دخل اندازی سے پہلے ان کی لا شوں کونہیں جلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
بھیما کے گھر والےنے دوسری آٹوپسی کے لیے؛بالخصوص سکھ متی کی لاش کایہ پتہ لگانے کے لیے کہ کیا اس کے ساتھ جنسی استحصال ہوا تھا یا نہیں بلاس پور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔دوسری آٹوپسی جگدلپور ضلع اسپتال میں کی گئی۔ متاثرہ کے اہل خانہ نے دنتے واڑہ اور جگدلپور ضلع اسپتالوں پر پولیس کی طرفداری کرنے اور اس کی لاش پر جنسی تشدد کے نشانات کو درج نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ایڈوکیٹ رجنی سورین کا کہنا ہے کہ 2017 میں دائر کی گئی ایک عرضی ابھی‘آخری شنوائی’ کا انتظار کر رہی ہے۔ سورین نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے بتایا،‘چار سال گزر چکے ہیں۔ لوگ اسے‘طے شدہ ضابطہ’ کہہ سکتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ ایسے معاملوں میں شنوائی میں غیرمعمولی طریقے سے تاخیر کی جاتی ہے۔’
جہاں بھیما کے گھروالے نے آدی واسی حقوق کے کارکن سونی سوری اور ایڈوکیٹ سورین کی مدد سے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہیں کئی گاؤں والوں نے معاملے میں دخل اندازی کی مانگ کرتے ہوئے 30 کیلومیٹر دور واقع کرندل پولیس اسٹیشن تک مارچ کیا۔
الزام ہے کہ مقامی پولیس نے ان گاؤں والوں کی پٹائی کی۔دوسری آٹوپسی کے ہونے کے ساتھ ہی پولیس گاؤں پہنچی اور گاؤں والوں کو لاش کو جلانےکے لیے مجبور کیا۔
ہر نئے واقعہ کے ساتھ گمپور کے حالات اور بگڑتے ہی گئے ہیں۔ جنگلوں کے کافی اندرواقع یہ گاؤں باہری دنیا کی پہنچ سے لگ بھگ دور ہی ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے پیدل25 کیلومیٹر چلنا پڑا، تیکھی چڑھائی والی وینگ پال پہاڑی کو پار کرنا پڑا اور کئی اتھلے پانی کے دریوں کو پار کرنا پڑا۔
اس گاؤں میں بجلی نہیں ہے، گاؤں میں کہیں ایک بھی ہینڈ پمپ نہیں ہے۔ چونکہ 20 کیلومیٹر کی دوری میں کوئی اسکول نہیں ہے، اس لیے زیادہ تر بچوں کو باقاعدہ تعلیم نہیں مل پاتی ہے۔ گاؤں میں کوئی ہیلتھ سینٹر نہیں ہے؛ زیادہ تر زچگی گھر میں ہی ہوتی ہیں۔
راستے سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سےیہ علاقہ ہمیشہ اسٹیٹ اورسینٹرل فورسز کے رڈار میں رہتا ہے۔ فورسزکے ذریعے پیٹا جانا یا حراست میں لے لیا جانا یہاں کافی عام ہے۔
پہنچ سے دور ہونے نے اس علاقے کے کئی گاؤں کوبالخصوص غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ اس لیے جب تین اضلاع دنتے واڑہ، بیجاپور اور سکما کاجوائنٹ فورس اس سال 18 مارچ کو گمپور پہنچا، گاؤں والے خود کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائے۔
بھیشم کنجام پوچھتے ہیں،‘سب سے نزدیکی پولیس اسٹیشن یہاں سے 25 کیلومیٹر دور ہے۔ جب فورسزگاؤں میں داخل ہوتے ہیں اور ہم پر حملہ کرتے ہیں، تب ہم مدد کی فریاد بھی کیسےکر سکتے ہیں؟’ ڈی آرجی کے لوگوں نے مبینہ طور پر بھیشم کنجام کی پٹائی کی تھی۔
دی وائر نے31 مارچ کو گاؤں کا دورہ کیا؛بھیشم کے جسم پر لال اور کالے نشان اس وقت تک دیکھے جا سکتے تھے۔ ایک80سالہ خاتون باندی کنجام کے اوپری جانگھ اورکولہوں پر بھی نشان تھے۔ انہوں نے شکایت کی،‘وردی والے ایک شخص نے بندوق کے کندے سے مجھ پر وار کیا۔’
ڈی آرجی ممبروں کو مقامی نوجوانوں اور بستر ڈویژن میں سرینڈرکرنے والے نکسلیوں کے بیچ سے بھرتی کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے گاؤں پر حملہ کیا، ان میں سے ایک شانو کنجام بھی مبینہ طور پر موجود تھا۔
شانو جو خود گمپور کاباشندہ تھا، نے ضلع پولیس کے سامنے سرینڈر کیا تھا۔ تشدد کے کئی معاملوں میں اس کی تلاش تھی اور سرینڈر سے پہلے اس کے سر پر ایک لاکھ کا انعام تھا۔ گاؤں والوں نے ایک رائے سے اس بات کی تصدیق کی کہ شانو سب سے زیادہ خونخوار لوگوں میں سے تھا۔
کئی جوان خواتین نے گھسیٹے جانے اور ریپ کی دھمکی دیے جانے کی شکایت کی۔ کوسی کنجام ، جس کا حمل کافی بڑھا ہوا تھا، کا کہنا ہے کہ اسے شانو اور اور دو دیگر ہتھیاربند لوگوں کے ذریعے اس کے گھر کے باہر گھسیٹا گیا اور اسے لگاتار ریپ کی دھمکی دی گئی۔
وہ یاد کرتی ہیں،‘میں کافی ڈر گئی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ میراریپ کیا جائےگا۔ میں بس یہ چاہتی تھی کہ وہ میرے بچہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ بالوں اور ساڑی سے پکڑکر گھسیٹنے کے بعد ان لوگوں نے گھر کے باہر چھوڑ دیا۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد گاؤں والوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔ اور ان کا مقصد پورا ہو گیا۔’
ایک طرف تو یہاں کے گاؤں میں سب سے بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے، دوسری طرف انہیں اپنے برائے نام کے وسائل کو بھی پولیس کے پیچھے دوڑنے اور عدالتوں کا چکر لگانے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن انصاف انہیں تب بھی نہیں ملتا اور انصاف کی تلاش اب ایک جوکھم بھرا کام ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ