جہاں ملک ایک طرف‘گجرات ماڈل’کی شکل میں پیش کیے گئے چھلا وے کو لےکر آج سچائی سے واقف ہورہا ہے، وہیں گجرات کے کیوڑیا گاؤں کے آدی واسیوں نے بہت پہلے ہی اس کے کھوکھلے پن کو سمجھ کر اس کے خلاف کامیابی کے ساتھ ایک مزاحمتی تحریک شروع کی تھی۔
نرمدا بچاؤ آندولن (این بی اے)کےسینئر رہنما، پربھوبھائی تڑوی کا 28 اپریل2021 کو انتقال ہو گیا۔ پربھوبھائی خود ایک آدی واسی تھے اور ان کا گاؤں واگھڑیا ان چھ گاؤں میں سے ایک تھا، جن کی زمین کیوڑیا کالونی کی تعمیر کے لیےحاصل کی گئی تھی۔
کیوڑیا کالونی، نرمدا ندی پر بنائے جا رہے دنیا کے سب سے بڑے باندھوں میں سے ایک باندھ سردارسروور پروجیکٹ(ایس ایس پی)- کے تحت بنی ایک پروجیکٹ کالونی ہے۔
اپنےمعروف نام گجرات کی جیون ڈوری(لائف لائن)سے پہچانے جانے والےسردارسروور پروجیکٹ اپنے سنگین ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی نتائج کے باوجود اس بنیاد پرمناسب ٹھہرائی جاتی ہے کہ یہ گجرات میں پانی کی کمی کے مسئلے کو مستقل طور پر حل کر دےگی۔
لیکن آج ایس ایس پی پروجیکٹ کالونی یا کیوڑیا کالونی الگ ہی وجوہات کے لیے جانی جاتی ہیں۔ یہاں دنیا کا سب سے اونچامجسمہ اسٹیچو آف یونیٹی واقع ہے، جس کی ویب سائٹ پرفخریہ انداز میں کہا گیا ہے کہ:
‘دنیاکا یہ سب سے اونچا میموریل سردار سروور باندھ سے 3.2 کیلومیٹر کی دوری پر ایک شاندار مقام پرواقع ہے۔ یہ عظیم الشان مجسمہ ہندوستان کے گجرات صوبے میں راج پیپلا ضلع کے کیوڑیااسٹیٹ میں بہتی نرمدا ندی کے سادھوبیٹ پر واقع ہے۔ یہ میموریل تیزی سے ملک کے اہم سیاحتی مرکز میں اپنی جگہ بنا رہا ہے…’
سردار سروور باندھ کے بارے میں، اسی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ:
‘ایس ایس این ایل منتظمہ ٹیم اور اس کے انجینئروں نے دنیا کے سب سے اونچے کنکریٹ گریوٹی باندھ کی تعمیر کی ہے…’
اس طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑے، دنیا کے سب سے اونچے باندھوں میں سے ایک باندھ اور دنیا کاسب سے اونچامجسمہ وکاس کے اس ‘گجرات ماڈل’ کی علامت ہیں جس کی تشہیر ملک بھر میں کی گئی ہے۔
لیکن جس بات سے ملک بہت حد تک انجان ہے وہ یہ ہے کہ گجرات ماڈل کی ان علامتوں،بالخصوص ایس ایس پی کے تنازعات، بین ریاستی تصادم،آدی واسی کمیونٹی سمیت مقامی کمیونٹی کی نقل مکانی اور بےدخلی،ماحولیات کی تباہی اور ان سب کو چیلنج دینے والی کئی طاقتورعوامی تحریکوں کی ایک طویل نشیب وفراز والی تاریخ رہی ہے۔
میں یہاں ایس ایس پی کی اس متنازعہ تاریخ میں نہیں جانا چاہتی، بلکہ میں پربھوبھائی جیسے ان سینکڑوں آدی واسی خاندانوں کی کہانی بیان کرنا چاہتی ہوں، جنہوں نے اس عالمی شہرت یافتہ کیوڑیا کالونی کی تعمیرمیں اپنی زمینیں گنوا دی ہیں۔
سال1961 میں چھ گاؤں نوگام، گورا، لمڑی، واگھڈیا، کوٹھی اور کیوڑیا میں رہنے والے آدی واسی خاندانوں کی زرخیز زرعی زمین کو کالونی کی تعمیر کے لیےحاصل کیا گیا تھا، جن میں باندھ کے لیے گودام، دفتر اور ایس ایس پی کالونی شامل تھی، جسے بعد میں کیوڑیا گاؤں کے نام سے کیوڑیا کالونی کہا گیا۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جن آدی واسیوں نے اس باندھ کالونی کے لیے اپنی زمینیں گنوا دیں ، انہیں کبھی بھی پروجیکٹ سے متاثرہ خاندان نہیں مانا گیا اور بازآبادی سے محروم رکھا گیا۔
ان کی زمین،آزاد ہندوستان میں برٹش دور کےحصول اراضی ایکٹ1894 کے توسط سے ‘عوامی مفاد’کے نام پر حاصل کی گئی تھی۔ جن لوگوں کو اس ‘عوامی مفاد’کے لیےقربانی دینے کے لیےمجبور کیا گیا، ان کا اس فیصلے میں کوئی رول نہیں تھا اور ان سے کبھی کوئی رضامندی نہیں لی گئی۔
سال1961 میں آدی واسی زمین کا حصول کیسے کیا گیا، اس کی تفصیلات کیوڑیا گاؤں کے پانچ بار کےسرپنچ مول جی بھائی تڑوی نے زبانی تاریخ کی شکل میں بیان کیا ہے، جو 1961 میں ایک نوجوان تھے۔
خود مول جی بھائی کی زمین باندھ کی بنیاد کے لیے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو کی آمد کے موقع پع ایک ہیلی پیڈ کی تعمیرکی غرض سےحاصل کی گئی تھی۔ اس وقت یہ باندھ بہت چھوٹا تھا اور اسے نوگام باندھ کہا جاتا تھا۔
انگریزی ذیلی عنوان کے ساتھ گجراتی میں کیے گئے اس انٹرویو کو مول جی بھائی تڑوی– نرمدا کی زبانی تاریخ پر سنا جا سکتا ہے۔
لیکن، چونکہ آدی واسیوں کو بازآبادی نہیں دی گئی تھی اور چونکہ نرمدا بین ریاستی آبی تنازعہ کی وجہ سے ایس ایس پی کے تعمیری کام میں تاخیر ہو رہی تھی، اس لیے متاثرہ خاندانوں کو ان مقبوضہ زمینوں پر کھیتی کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن سرکار کو لگان کی ادائیگی کرنے کے بعد ہی، کیونکہ ان کی زمین اب سرکاری پراپرٹی بن چکی تھی۔
باندھ کی اونچائی کو لےکرمتعلقہ صوبوں کے بیچ طویل تنازعہ اور ماحولیاتی منظوری ملنے میں تاخیر کے بعد ہی، اسی کی دہائی میں پہلے سے کہیں زیادہ اونچے باندھ، جسے اب سردار سروور کہا جانے لگا، پر تعمیری کام شروع ہوا۔
جب باندھ پر تعمیری کام شروع ہوا، تو ان چھ گاؤں کے آدی واسیوں کو، جنہیں تب تک اپنی مقبوضہ زمین پر کھیتی کرنے کی اجازت دی گئی تھی، انہیں حاشیے میں دھکیلا جانے لگا کیونکہ ان زمینوں کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر باندھ کی تعمیر اور متعلقہ ضروریات کے لیے قبضہ کیا جانے لگا۔
مثال کے طور پر، باندھ بنانے والوں کے دفاتر،ملازمین کے گھروں، مزدوروں کی رہائش، سیمنٹ، لوہا اور اسپات کے گودام، باندھ کی تعمیر کی بھاری مشینوں کے لیے پارکنگ اور بڑی سڑکیں، وی آئی پی مہمانوں کے لیے پولیس اسٹیشن، ہیلی پیڈ، باغ اور سرکٹ ہاؤس، ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے لیے اسپتال، اسکول وغیرہ کے لیے۔
چونکہ ان سب کی وجہ سے آدی واسی اب اپنی زمینوں پر کھیتی نہیں کر سکتے تھے، ان میں سے کئی خاندان گزارے کے لیے باندھ پر مزدوری کرنے لگے۔ کئی آدیواسی خواتین کو حکام کے گھروں میں گھریلو خادمہ کے طورپر کام کرنا پڑا۔
کوئی اور چارہ نہ ہونے پر کچھ خواتین کو شراب بنانے اور بیچنے پر مجبور ہونا پڑا، جو گجرات میں غیرقانونی ہے۔
کیوڑیا کالونی کے لیے اپنی زمینیں کھو دینے کے بعد آدی واسی خواتین کو جس طرح کے کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا، اسے کپلابین تڑوی کے زبانی بیان(کپلابین تڈوی– نرمدا کی زبانی تاریخ، 01:14:10 سے 01:23:14 کے بیچ)سے سمجھا جا سکتا ہے، جو نرمدا بچاؤآندولن کی ایک جاندار رہنما اور کارکن تھیں، اور پربھوبھائی کی بیوی بھی۔ گجراتی میں ریکارڈ کیا گیا یہ اصل انٹرویو انگریزی ذیلی عنوان کے ساتھ دستیاب ہے۔
متاثرہ لوگوں کے ساتھ ہونے والی شدید ناانصافی کی وجہ سے نرمدا گھاٹی میں باندھ کی تعمیر کے خلاف تحریک میں تیزی آئی۔ اور پھر، طاقتورعوامی تحریک این بی اے–کی وجہ سے باندھ کےکام میں تاخیرہوئی اور ایس ایس پی کے پروموٹر کےطورپرورلڈ بینک کی شراکت داری پر سوال اٹھنے لگے۔
اپنی ساکھ اور بھروسے پر ہو رہے حملےکی وجہ سےورلڈ بینک نے دباؤ ڈالا اور گجرات سرکار نے کیوڑیا کالونی کی تعمیر سے متاثرہ آدی واسیوں کے لیے نوے کے دہائی میں پینتیس ہزار روپے کے نئے نقد پیکیج کا اعلان کیا۔
لیکن اس چھوٹی سی رقم کو زیادہ تر خاندانوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ اس پیسے سے زمین تو دور کی بات ہے، انہیں ایک بھینس بھی نہیں ملے گی۔
کیوڑیا کالونی کے بے گھروں کی تحریک نےزمین پر مبنی بازآبادی اور باندھ کے بے گھروں کے ساتھ بازآبادی کی پالیسی میں برابری کی مانگ جاری رکھی۔ معاملہ آخر میں سپریم کورٹ تک گیا جہاں نرمدا بچاؤ آندولن معاملہ میں1990کی دہائی کے دوران چھ سال تک شنوائی چلی۔
شنوائی کے دوران عدلیہ نےگجرات میں بے گھر لوگوں کے معاملوں پر غورکرنے کےلیے شکایت کے ازالے سے متعلق اتھارٹی(جی آراے)کی تشکیل کی ہدایت دی، جن میں ان بے گھر لوگوں/متاثرین کو بھی شامل کیا گیا جنہیں پروجیکٹ سے متاثر نہیں مانا گیا تھا۔
این بی اے نے گجرات میں جی آراے کے سامنےدلیل پیش کی کہ کیوڑیا کالونی کی تعمیرکے لیےضرورت سے زیادہ زمین حاصل کی گئی تھی، جیسا کہ ایسےتمام پروجیکٹ میں دیکھا جاتا ہے اور جو زمین پروجیکٹ کے لیےضروری نہیں ہے، انہیں بے گھر لوگوں کو واپس کر دیا جانا چاہیے۔
این بی اے نے کالونی متاثرین کی بازآبادی کی بھی مانگ رکھی۔ این بی اے نے جی آراے کےسامنے گجرات سرکار کے ذریعے ایس ایس پی کے لیےمقبوضہ آدی واسی زمین کے پانچ ستارہ سیاحتی سہولیات کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جانے کی بھی مخالفت کی، کیونکہ یہ ان کے حصول کے بنیادی مقصد میں ایک بڑی تبدیلی تھی، اور ایسے کسی بھی‘عوامی مفاد’میں نہیں آتی تھی، جس کے لیے لازمی حصول کومناسب ٹھہرایا جا سکے۔
کیوڑیا کالونی کی تعمیر کے لیےضرورت سے زیادہ زمین اور اس سے متعلق جدوجہدکے معاملے کو گجرات کے اہم عوامی مفاد کے وکیلوں میں سے ایک گریش بھائی پٹیل نے اپنےانٹرویو(00:12:00 سے 00:16:00 کے دوران)میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ گجراتی میں ریکارڈ کیا گیا یہ بنیادی انٹرویو بھی انگریزی ذیلی عنوان کے ساتھ دستیاب ہے۔
این بی اے کی دلیل کو صحیح ٹھہراتے ہوئے، جی آراے نے 1999 میں ہدایت جاری کی کہ:
‘چھ گاؤں کی زمین کے سلسلے میں جانکاری… جنہیں1961اور 1963 کے بیچ، کیوڑیا کالونی کے عوامی مقاصد کے لیےحصول اراضی ایکٹ ، 1984 کےاہتمام کے تحت حاصل کیا گیا تھا…اس طرح کی زمین یا اس کے کسی بھی حصہ کو جی آراے کی پہلے سے رضامندی کے بغیر ایسےکسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائےگا، جو براہ راست اوربنیادی طور پر ایس ایس پی کے ریگولیشن سے متعلق نہ ہو۔’
سال 2000 میں جی آراے کی جانب سے ایک اورہدایت جاری کی گئی:
‘جن لوگوں کی زمین(کیوڑیا کالونی کے لیے)حاصل کی گئی تھی، ان کے لیے ایک تازہ بازآبادی پیکیج کو حتمی شکل دیا جانا اور منظور کیا جانا جی آراے کے سامنےزیرالتوا ہے…یہ ہدایت جاری کی جا رہی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جی آراے کے ذریعے حتمی شکل دیے جانے اور منظوری کےالتوا رہنے تک ان زمینوں کےسلسلے میں صورتحال کو قائم رکھا جائے…’
بدقسمتی سے، اس طرح کی یقین دہانی کے بعد کیوڑیا کالونی کے معاملے میں سپریم کورٹ میں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ این بی اے کی دلیل کہ گجرات سرکار زمین کے حصول کے مقصدمیں تبدیلی کرکے اس کو عالیشان سیاحت کے لیے استعمال کرنے کامنصوبہ بنا رہی تھی، کو ان سنا کر دیا گیا۔
این بی اے کا معاملہ آخرکار سال2000 میں ایک منقسم فیصلے کے ساتھ خارج کر دیا گیا۔ باقی سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ سے باہر ہوا، تو جی آراے بھی معذورہو گیا۔
کیوڑیا کالونی کے بے گھروں کے لیے کوئی بازآبادی پیکیج کااعلان نہیں کیا گیا اور جب 2017 میں باندھ کی تعمیر مکمل ہو گئی تو جن زمینوں پر کبھی گودام، مزدوروں کی رہائش، پارکنگ وغیرہ ہوا کرتے تھے، اب ایس ایس پی کے لیے ان کی ضرورت نہیں ہونے کی وجہ سے انہیں ہٹا دیا گیا۔
لیکن ان زمینوں کو آدی واسیوں کو واپس کرنے کے بجائے وزیراعظم نریندر مودی نے باندھ کے پورا ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد اسٹیچیو آف یونیٹی کا افتتاح کیا۔
ان زمینوں کے ایک بڑے حصہ کے علاوہ دیگر گاؤں کی زمین کا مہنگے سیاحتی خدمات، پانچ ستارا ہوٹلوں، عالیشان رسارٹ، عالیشان ریستوراں، مال وغیرہ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اسٹیچیو آف یونیٹی کی ویب سائٹ پر ڈینگ ہانکی گئی ہے کہ:
‘تاریخی اسٹیچیو آف یونیٹی کے نزدیک کے علاقہ میں اب ایک مشہور عالیشان ہوٹل برانڈ موجود ہے رامدا اینکور…ہوٹل سے عالیشان اسٹیچیو آف یونیٹی کا ایک حیرت انگیز نظارہ کیا جا سکتا ہے…عیش و آرام، اعلیٰ ثقافت اور مہمان نوازی رامدا اینکور کی خاصیت ہیں… شاندار ڈھنگ سے سجے52 عالیشان کمروں کا یہ ہوٹل، سیاحوں سے عیش وعشرت اور آرام سے بھرے تجربے کا وعدہ کرتا ہے۔’
لیکن اس کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ پروجیکٹ کے ملازمین کے لیے بنائے گئے کیوڑیا کالونی کے واحد اسپتال کو اسی وقت بند کر دیا گیا جب باندھ پورا ہونے کے قریب تھا۔
حالانکہ یہ اسپتال ایس ایس پی کے ملازمین کے لیے بنایا گیا تھا اور یہاں تمام سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں، لیکن اس کے باوجود یہ واحد اسپتال تھا جسے کالونی کے آدی واسی کبھی کبھی استعمال کر سکتے تھے۔
لیکن ایس ایس پی کے اکثر ملازمین کے چلے جانے کے بعد،مقامی لوگوں کی ضروریات کی ان دیکھی کرتے ہوئے، اسپتال کی ضرورت نہیں ہونے کی دلیل دے کر اسے بند کر دیا گیا۔
اس لیے جب کووڈ کی دوسری لہر نے ہندوستان پر حملہ کیا اور ان لوگوں کو بھی متاثر کیا، جنہوں نے اپنا سب کچھ اس کالونی کے لیے قربان کر دیا ہے، جو اب اس سب سے اونچے مجسمہ اوردیو ہیکل باندھ کی وجہ سے حاشیے پر ہیں، اب کیوڑیا میں ان کے پاس علاج کے لیے کوئی اسپتال نہیں۔
کیوڑیا کالونی میں اور اس کے آس پاس کے مقامی لوگوں کے پاس باندھ اورمجسمہ تو ہے، لیکن کووڈ مریضوں کے لیےقریبی اسپتال بہت دور راج پیپلا میں ہے، جہاں جم غفیر ہے۔
جب این بی اے کے سب سے قدآور آدی واسی رہنماؤں میں سے ایک، پربھوبھائی تڑوی کو 27 اپریل2021 کو سانس لینے میں تکلیف ہونا شروع ہوئی تو کیوڑیا کے ایک نجی معالج نے بتایا کہ ان کا آکسیجن لیول خطرناک سطح تک گر گیا تھا۔
بدقسمتی سے آس پاس کوئی اسپتال نہیں ہونے کی وجہ سے اور کیوڑیا کا واحد اسپتال بند کر دیے جانے کی وجہ سے، مایوسی اور بے بسی بڑھنے لگی، اور اس ہنگامے میں پربھوبھائی نے آخری بار سانس لی۔حالانکہ پربھوبھائی کے کووڈ 19 کا شکار ہونے کاسرکاری طور پر تواعلان نہیں کیا گیا، لیکن وہ یقینی طور پر اس گجرات ماڈل کے شکار ضرور بنے جس کی وہ ہوش سنبھالنے کے بعد سےزندگی بھر مخالفت کرتے رہے۔
یہ ‘گجرات ماڈل’کی سچائی ہے جہاں دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے اور سب سے بڑے باندھوں میں سے ایک باندھ بھی ہے، جسے صوبے کی لائف لائن کہا جاتا ہے، یہ سبھی کچھ کیلومیٹر کے دائرے میں آدی واسی زمین پر کھڑا ہے، لیکن اس تباہ کن ماڈل کے لیے اپنا سب کچھ گنوا چکے آدی واسیوں کی زندگیوں کو بچا سکنے والی یہاں کوئی بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔
یہ مضمون پربھوبھائی کو ایک خراج تحسین ہے، ایک ایسے جاں باز کو جو ساری زندگی اس یک طرفہ گجرات ماڈل سے لڑتے رہے، جس کی سچائی ملک کے باقی لوگوں کے سامنے اب اجاگر ہو رہی ہے، البتہ بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد ۔
(نندنی اوجھا نرمدا بچاؤ آندولن میں کارکن کے طور پر بارہ سالوں تک کام کرنے کے بعد اب نرمدا سنگھرش کی زبانی تاریخ پر کام کر رہی ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
Categories: فکر و نظر