کشمیر گھاٹی میں گاندربل کےصفاپورہ کے رہنے والےسجاد راشد صو فی نے 10 جون کولیفٹیننٹ گورنر کے صلاح کار کے ساتھ مقامی لوگوں کی بات چیت کے دوران یہ تبصرہ کیا تھا۔ مبینہ طور پر ان کے اس تبصرے سے گاندربل کی ڈپٹی کمشنر ناراض ہو گئیں، جو اتر پردیش سے ہیں۔ مختلف کمیونٹی کے بیچ عداوت کو بڑھاوا دینے کے لیے ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
کشمیر گھاٹی میں ایک شخص کو عداوت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر جیل بھیج دیا گیا ہے۔الزام ہے کہ اس شخص نے جموں وکشمیر کےلیفٹیننٹ گورنر کے صلاح کار سے کہا تھا کہ اسے ان افسروں سے کوئی امید نہیں ہے، جو مقامی نہیں ہیں۔
مبینہ طور پراس شخص کےاس تبصرے سے گاندربل کی ڈپٹی کمشنر ناراض ہو گئیں، جو اتر پردیش کیڈر کی ہیں۔
اس مبینہ تبصرے کے لیے گاندربل کے صفاپورہ کے وانی محلہ کے رہنے والے 50 سالہ سجاد راشد صوفی کے خلاف مذہب ، کاسٹ، مقام پیدائش، رہائش،زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف کمیونٹی کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینے کے لیے آئی پی سی کی دفعہ153 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
سجاد نے 10 جون کو سینٹرل کشمیر کے گاندربل کے مانس بل میں لیفٹیننٹ گورنر کےمشیر بشیر احمدخان کے ساتھ مقامی لوگوں کی بات چیت کے دوران یہ تبصرہ کیاتھا۔
گاندربل کی مقامی عدالت میں درج کی گئی پولیس رپورٹ کے مطابق، سول سوسائٹی دفد کا حصہ رہ چکے سجاد نے صلاح کار خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ‘میری آپ سے امیدیں ہیں، کیونکہ آپ کشمیری ہیں اور سمجھ سکتے ہیں اور میں آپ کا کالر پکڑ سکتا ہوں اور آپ سے جواب مانگ سکتا ہوں، لیکن ایک غیر کشمیری افسر سے میں کیا امید کر سکتا ہوں؟’
پولیس رپورٹ کے مطابق، اس دوران گاندربل کی ڈپٹی کمشنر کرتیکا جیوتسنا نے اپنی کرسی سے اٹھ کر اس تبصرے پر شدید اعتراض کیا۔
جموں وکشمیر کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے 10 جون کو جاری آفیشیل ہینڈآؤٹ میں کہا گیا کہ اس دن صلاح کار نے مانس بل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کام کاج کاجائزہ لینے کے بعد بی ڈی سی، ٹرانسپورٹروں، تاجروں ،سول سوسائٹی کے ممبروں اور صفاپورہ کے مذہبی رہنماؤں سمیت کئی وفد سے ملاقات کی۔
گاندربل کی ڈپٹی کمشنر
گاندربل ڈپٹی کمشنر کرتیکا جیوتسنا اتر پردیش کیڈر کی2014 بیچ کی آئی اے ایس افسر ہیں۔ انہیں اپنے شوہر راہل پانڈے(آئی اے ایس)کے ساتھ دو سالوں کے لیے آٹھ فروری 2021 کو جموں وکشمیر بھیجا گیا تھا۔
جموں وکشمیر راج بھون میں ایڈیشنل سکریٹری پانڈے کے پاس ڈائریکٹر انفارمیشن کاچارج ہے۔
پولیس سمن
مقامی لوگوں نے دی وائر کو بتایا کہ اس دن جب سجاد نے یہ تبصرہ کیا تھا، انہیں مقامی اسٹیشن ہاؤس افسر(ایس ایچ او) نےپولیس کےاعلیٰ افسر کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیا تھا۔
ایک مقامی نے پہچان اجاگر نہیں کرنے کی شرط پر بتایا،‘مقامی ایس ایچ او انہیں دوپہر لگ بھگ 3:30 بجے افسر کے پاس لےکر گئے۔ انہیں شام 7:30 بجے سے ایس ایس پی آفس سے صفاپورہ پولیس تھانے لے جایا گیا اور رات 8:30 بجے انہیں رہا کیا گیا۔’
انہوں نے کہا کہ رات دس بجے سجاد کو دوبارہ صفاپورہ پولیس تھانے کےسامنےپیش ہونے کے لیے فون کیا گیا۔
ایک مقامی نے کہا، ‘وہ صفاپورہ پولیس اسٹیشن گئے اور 10 اور 11 جون کی درمیانی شب کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ انہیں تین دنوں تک صفاپورہ پولیس تھانے میں رکھا گیا۔’
انہوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے عبوری ضمانت دیے جانے کے بعد بھی انہیں پولیس نے رہا نہیں کیا۔
مقامی لوگوں نے کہا، ‘ہمیں بتایا گیا کہ ان کے اوپر آئی پی سی کی دفعہ107 اور 151 بھی لگائی گئی ہے۔’
دراصل ان دفعات کے تحت ایگزیکٹو مجسٹریٹ امن و امان کو متاثر کرنے کے خدشات میں کسی شخص کو حراست میں بھیجنے کاحکم دے سکتا ہے۔
گاندربل کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت نے 12 جون کو سجاد راشد صوفی کو 21 جون 2021 تک عبوری ضمانت دی۔
جج نے کہا، ‘کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ضمانت ضابطہ ہے اور اس کا خارج کرنا مستثنیٰ ہے۔ غیر ضمانتی جرم میں مضبوط وجہ دیے بنا ضمانت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ ضمانت عدالت کی صواب دید پر ہے اور ضمانت کی صواب دید کا استعمال من مانے ڈھنگ سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔’
آفیشیل ورژن
گاندربل کے ایس پی سہیل منور میر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سجاد احمد پر آئی پی سی کی دفعہ153 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ انہیں تبھی سے حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں