وقت وقت پر ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ زور پکڑتا ہے،لیکن یہ پھر سست پڑ جاتا ہے۔ اس بار بھی ذات پر مبنی مردم شماری کو لےکرعلاقائی پارٹیاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور مرکزی حکومت پر دباؤ بنا رہی ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے۔
یہ سال 2021 ہے اور اسی سال ملک بھرمیں مجوزہ مردم شماری ہونی ہے۔ملک میں ہر دس سال میں ہونے والی مردم شماری میں ایس سی- ایس ٹی کی مردم شماری ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے، لیکن او بی سی کو اس مردم شماری سے دور رکھا جاتا ہے۔
حالانکہ اسی طرز پر او بی سی سماج بھی چاہتا ہے کہ اس کی بھی گنتی کی جائے تاکہ ایس سی -ایس ٹی کی طرح انہیں بھی فلاحی اسکیموں کا فائدہ مل سکے۔
وقت وقت پر ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ زور پکڑتا ہے، لیکن یہ پھر سست پڑ جاتا ہے۔ اس بار بھی ذات پر مبنی مردم شماری کو لےکرعلاقائی پارٹیاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور مرکزی حکومت پر دباؤ بنا رہی ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے۔
بہار میں بی جے پی کی اتحادی پارٹی جنتا دل یونائٹیڈ(جے ڈی یو)او بی سی مردم شماری کا لگاتار مطالبہ کر رہی ہے۔
हम लोगों का मानना है कि जाति आधारित जनगणना होनी चाहिए। बिहार विधान मंडल ने दिनांक-18.02.19 एवं पुनः बिहार विधान सभा ने दिनांक-27.02.20 को सर्वसम्मति से इस आशय का प्रस्ताव पारित किया था तथा इसेे केन्द्र सरकार को भेजा गया था। केन्द्र सरकार को इस मुद्दे पर पुनर्विचार करना चाहिए।
— Nitish Kumar (@NitishKumar) July 24, 2021
جے ڈی یو کےسینئررہنما اوربہار کےوزیر اعلیٰ نتیش کمار اس کی حمایت میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں،‘ہم لوگوں کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری ہونی چاہیے۔ بہار مقننہ نے 18فروری2019 اور بہار اسمبلی میں27 فروری2020 کو اتفاق رائے سے اس مفہوم کی تجویز پاس کی تھی اور اسے مرکزی حکومت کو بھیجا گیا تھا۔مرکزی حکومت کو اس معاملے پردوبارہ غور کرنا چاہیے۔’
اس معاملے پر بہار کی ایک اور بڑی پارٹی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)بھی جے ڈی یو سے تال سے تال ملا رہی ہے۔
जब इस देश में पेड़ों, पशुओं, गाड़ियों और सभी अनुसूचित जाति व जनजाति के लोगों की गिनती हो सकती है तो भाजपा को OBC वर्ग के लोगों से क्यों इतनी घृणा है कि जनगणना में उनकी गिनती से कन्नी काटा जा रहा है?
केंद्र सरकार पिछड़े वर्ग के लोगों की गिनती भी करवाए और आँकड़े सार्वजनिक भी करे! pic.twitter.com/UBG542iOhU
— Rashtriya Janata Dal (@RJDforIndia) July 30, 2021
آر جے ڈی کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئے ٹوئٹ میں کہا گیا،‘جب اس ملک میں پیڑوں،جانوروں، گاڑیوں اورتمام ایس سی -ایس ٹی کے لوگوں کی گنتی ہو سکتی ہے تو بی جے پی کو او بی سی طبقہ کے لوگوں سے کیوں اتنی نفرت ہے کہ مردم شماری میں ان کی گنتی سے کنی کاٹا جا رہا ہے؟مرکزی حکومت اوبی سی کے لوگوں کی گنتی بھی کروائے اور اعدادوشمار کوعوامی بھی کرے۔’
ٹھیک اسی طرز پر بی جے پی کی ایک اور اتحادی پارٹی اپنا دل (ایس)نے ذات پر مبنی مردم شماری کی مانگ کرتے ہوئےاو بی سی کی فلاح کے لیے ایک الگ مرکزی وزارت کی تشکیل کی بات کہی ہے۔
سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی)جیسی اپوزیشن پارٹیاں بھی ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں ہی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔
بتا دیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مانگ کے بیچ20 جولائی کو وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ حکومت ہند نے مردم شماری میں ایس سی- ایس ٹی کے علاوہ دیگرذات پر مبنی آبادی کی مردم شماری نہیں کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد ہی ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کی مانگ تیز ہوئی ہے۔
مرکزی حکومت کی اس اطلاع کے بعد بہار اسمبلی میں اپوزیشن کے رہنما تیجسوی یادو نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو خط لکھ کر کہا کہ اگرحکومت ہند اڑیل رویہ اپناتے ہوئے ذات پر مبنی مردم شماری نہیں کراتی ہے تو گزارش ہے کہ بہار سرکار اپنے وسائل سے بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائےتاکہ صوبے میں رہنے والے تمام طبقوں کی اقتصادی اور سماجی حالت کاصحیح پتہ چل سکے اور پھر اس کے مطابق ان کی ترقی کے لیے سرکار کی جانب سےقدم اٹھائے جا سکیں۔
انہوں نے کہا، ‘این ڈی اے سرکار نے ذات پر مبنی مردم شماری نہیں کرانے کی تحریری اطلاع دی ہے۔ بہار اسمبلی سے ہم دو بار اتفاق رائے سے اس سلسلے میں تجویز پاس کر چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے مل کر اس بارے میں ان کی قیادت میں کل پارٹی کمیٹی کی وزیر اعظم سے ملنے کی گزارش کی ہے۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے جے ڈی یو کے قومی جنرل سکریٹری کےسی تیاگی نے دی وائر کو بتایا،‘آخری بار ملک میں1931میں ذات پر مبنی مردم شماری ہوئی تھی۔اس وقت سامراجی اور نوآبادیاتی حکومت تھی۔ لوگ اپنی کاسٹ چھپاتے تھے۔ 1990 میں جب منڈل کمیشن کاقیام عمل میں آیا تو اس نے ملک میں او بی سی کی آبادی52 فیصدی بتائی۔ حالانکہ کمیشن نے اس کے لیے1931کی مردم شماری کو ہی بنیاد مانا، جبکہ ہمارا اندازہ ہے کہ ملک میں او بی سی کی آبادی55 فیصدی سے زیادہ ہے۔’
وہ کہتے ہیں،‘ذات پر مبنی مردم شماری کی مانگ کوئی نئی نہیں ہے۔ ہر بار ایسی مانگ اٹھتی ہے اورمرکز اس سے کنی کاٹ لیتی ہے۔ دراصل کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ زمینی حقیقت سب کے سامنے آئے۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کو لےکرمرکزی حکومت کے ہاتھ کھڑے کرنے کی وجہ پوچھنے پر سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس)میں پروفیسر ابھے کمار دوبے کہتے ہیں،‘بی جے پی کی رائے پہلے کچھ اور تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2018 میں ایک بیٹھک ہوئی تھی، جس کی صدارت راجناتھ سنگھ نے کی تھی اور اس کے بعد انہوں نے ایک بیان دیا تھا کہ اس بار (2021)مردم شماری کے اندر او بی سی کی مردم شماری ہوگی، لیکن اس کے بعد سرکار کو سانپ سونگھ گیا اور اس نے اس طرح کی کوئی بھی چرچہ بند کر دی اور جب ان سے اس بارے میں پوچھا بھی جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس میٹنگ کے کوئی بھی منٹس نہیں رکھے گئے۔’
وہ کہتے ہیں،‘اصل میں آر ایس ایس کی رائے یہ ہے کہ کاسٹ کو درج نہیں کیا جانا چاہیے۔مرکزی حکومت کو کاسٹ کو درج کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی، لیکن مجھے لگتا ہے کہ بعد میں آر ایس ایس کے دباؤ میں انہوں نے اپنی رائے بدل دی۔’
دوبے کا کہنا ہے، ‘بی جے پی نے 2018 میں او بی سی مردم شماری کے لیےحامی کیوں بھری تھی، مجھے اس وقت اس پر حیرانی ہوئی تھی، کیونکہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی تسلیم شدہ پالیسی نہیں ہے۔ اس کے بعد بھیاجی جوشی نے کہا تھا کہ ہم مردم شماری میں کٹیگری درج کرنے کے حق میں ہیں، لیکن کاسٹ کوکٹیگری کے طورپر درج کرنے کے حق میں نہیں۔ اس کے بعد سے بی جے پی نے اس سوال پر خاموشی اختیار کر لی۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کو لےکر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر کاسٹ کی الگ سے گنتی کی ضرورت ہی کیوں ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے سینئرصحافی ارملیش کہتے ہیں،‘پسماندہ ذات کے لوگوں کی ترقی کے لیے ان کی صحیح گنتی کا پتہ چلنا بہت ضروری ہے۔ او بی سی طبقہ چاہتا ہے کہ ایس سی-ایس ٹی کی طرزپر ان کی بھی الگ سے مردم شماری ہو تاکہ اس سے آئین کے ذریعے افرمیٹو ایکشن (مثبت کارروائی)یقینی کی جا سکے۔ اس سے ریزرویشن اور دیگر سماجی منصوبوں کافائدہ ان تک پہنچنے لگےگا۔’
ارملیش کہتے ہیں،‘دراصل 1990 میں ہی او بی سی کے لیےریزرویشن کا اعلان کر دیا گیا تھا، لیکن سال 1993 میں انہیں ریزرویشن ملا۔ 1990کے بعد حالات بدل گئےاوراو بی سی بھی مثبت کارروائی کے تحت آ گیا، لیکن سپریم کورٹ سے منظوری اور سرکار کے فیصلے کے بعد جو لوگ او بی سی کو ریزرویشن دینے کو تیار ہو گئے، ان کو آج تک نہیں معلوم کہ جنہیں ریزرویشن دیا جا رہا ہے، ان کی آبادی کتنی ہے۔’
وہ مزید کہتے ہیں،‘اس کے ساتھ ہی او بی سی کو جو 27 فیصدی ریزرویشن دیا گیا ہے، اس کا بھی تجزیہ ہونا چاہیے کہ وہ کتنا صحیح ہے۔ دوسرا کس صوبے میں کتنے او بی سی ہیں،یہ تو پتہ ہونا ہی چاہیے۔ الگ الگ صوبوں میں ریزرویشن الگ الگ طریقے سے لاگو ہے، جسے جاننے کے لیے اس صوبے کی او بی سی آبادی کو جاننا ضروری ہے۔ جب تک یہ پتہ نہیں ہوگا کہ جن کو سہولت دینی ہے یا دی جا رہی ہے، ان کی آبادی کتنی ہے، تب تک ان کی ترقی کیسے ہوگی۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کو لےکرقومی پارٹیوں کے مقابلےعلاقائی پارٹیاں زیادہ بولڈ ہیں۔ ایسی ہی ایک پارٹی ہے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)۔
پارٹی کے سینئررہنما اور راجیہ سبھا سانسد منوج کمار جھا نے دی وائر کو بتایا،‘آر جے ڈی2018 سے لگاتار ذات پر مبنی مردم شماری کا معاملہ اٹھاتی آ رہی ہے۔ ہم نے اس معاملے کو بہار اسمبلی میں بھی اٹھایا ہے۔ 2011 میں مردم شماری کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری کااعدادوشمار اکٹھا کیا گیا تھا، لیکن اسے کبھی جاری نہیں کیا گیا۔ بعد میں بتایا گیا کہ یہ ڈیٹا کرپٹ ہو گیا تھا۔ اصل میں ڈیٹا کرپٹ نہیں ہوا تھا۔ انسان زیادہ کرپٹ ہو گیا تھا۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے سے سماج کے پچھڑے طبقے کو اس سے پہنچنے والے فائدہ کے بارے میں بتاتے ہوئے جھا نے کہا، ‘ذات پرمبنی مردم شماری سے جو اعدادوشمار جمع کیے جا ئیں گے، اس سے بہت مدد ملے گی۔ اس سے پتہ چل سکےگا کہ کس شہر میں کون سی کاسٹ حاشیے پر ہے اور پھر ان کی ترقی کے لیے اسی طرح سے پالیسیاں بنائی جائیں گی۔ جب تک یہ اعدادوشمار نہیں ملیں گے ،ترقی کی بات کرنا بے معنی ہوگی۔’
وہ کہتے ہیں،‘ایک بار حصہ داری طے ہو جاتی ہے تو شراکت داری اپنے آپ طے ہو جاتی ہے۔المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں اداروں کی فطرت ایسی ہے، جو نہیں چاہتے کہ یہ اعدادوشمار سامنے آئے۔ سیاست کی فطرت او بی سی کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ جب تک سماج کے آخری پائیدان پرکھڑے شخص کی پہچان نہیں ہوگی، تب تک کچھ نہیں ہوگا۔’
مقتدرہ پارٹیوں کی جانب سےذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کو لے کر ایک پیٹرن دیکھنے کو ملتا ہے، جب بھی وہ پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس کی پیروی کرتی دکھتی ہے، لیکن اقتدار میں آتے ہی اس سے دور بھاگتی ہے۔
اس سے اتفاق رکھتے ہوئے ارملیش کہتے ہیں،‘یہ صحیح ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدارمیں آتی ہے، وہ اس سے بچتی ہے۔ کانگریس نے 2008 سے 2010 کے بیچ لگاتار کہا کہ وہ او بی سی کی مردم شماری کرائیں گے۔ اس وقت پرنب مکھرجی نے پارلیامنٹ میں بھی یہ کہا تھا۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ بھی ایسا کہہ چکے ہیں کہ 2011 کی مردم شماری میں او بی سی کی گنتی کرائی جائےگی، لیکن وہ بعد میں مکر گئے۔ انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے بجائے سماجی،اقتصادی اورذات پر مبنی سروے(ایس ای سی سی)کرایا، جو بہت فالتو سروے تھا۔’
ارملیش کہتے ہیں،‘ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت بی جے پی کے او بی سی اور دلت ایم پی بھی کرتے رہے، لیکن بی جے پی چپی سادھے رہی، کیونکہ بی جے پی کو آر ایس ایس چلاتا ہے اور آر ایس ایس کو اس ملک کے برہمنوں کا ایک چھوٹا گروپ چلاتا ہے، جو عام طور پر مہاراشٹر کے لوگ ہیں۔ آر ایس ایس کٹر ہندوتوادی، برہمنوادی طاقت ہے، اسی کے اثر میں شروع سے ہی کانگریس کے برہمنوادی رہنما بھی رہے ہیں۔’
وہ کہتے ہیں،‘کانگریس اور بی جے پی دونوں پارٹیاں اس معاملے پر ہاں کرکے بھی نا کرتی ہیں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں، کیونکہ ہندوستان کا جو پاور اسٹرکچر ہے، اس میں اونچی ذات کا غلبہ ہے۔ سماج میں سب سے زیادہ آبادی او بی سی اور دلتوں کی ہے، لیکن فیصلہ پاور اسٹرکچر(سیاسی اسٹرکچر، نوکر شاہی اسٹرکچر، میڈیا اسٹرکچر، کارپوریٹ اسٹرکچر)سے وابستہ لوگ ہی لیتے ہیں۔’
ارملیش یہ بھی کہتے ہیں،‘ہندوستان کا میڈیا بھی اس کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ یہاں کے میڈیا میں بھی اونچی ذات کاغلبہ ہے۔ میڈیا میں90 فیصدی سے زیادہ لوگ اونچی ذات کے ہوں گے۔مدیران میں اونچی ذات کے لوگ لگ بھگ 100 فیصدی ہیں۔ میڈیا بھی اس معاملے کو ذات پات کے ڈھنگ سے دیکھتا ہے۔’
وہ کہتے ہیں،‘ذات پر مبنی مردم شماری کا مطلب کاسٹسٹ مردم شماری، ایسا نہیں ہے۔ میڈیا روزانہ اپنی خبروں میں لکھتا ہے کہ غازی آباد میں اتنے راجپوت، تیاگی، برہمن، یادو ہیں تو آپ کہاں سے لکھتے ہیں۔ لکھنے میں ذات پات نہیں آ رہا ہے اور جب گنتی کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ذات پات ہو جائےگا۔ میرا کہنا ہے کہ اگر ذات پر مبنی مردم شماری ہوتی ہے تو اس سے میڈیا کو بھی فائدہ ہوگا۔ اب تک وہ جو 70 سال سے ہر انتخاب میں جھوٹ بولتا آیا ہے، اس ضلع میں اتنی برادری اتنی ہے، مردم شماری کے بعد اس کا صحیح ڈیٹا مل جائےگا۔’
او بی سی کی مردم شماری کے بعد آنے والی دقتوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ابھے کمار دوبے کہتے ہیں،‘ذات پر مبنی مردم شماری کی مانگ جو لوگ اٹھا رہے ہیں، وہ او بی سی کاسٹ کے پیروکار ہیں۔ میری نظر میں ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک بار جب او بی سی کی تعدادمصدقہ طور پر سامنے آ جائےگی، اس کے بعد وہ ایس سی- ایس ٹی کو ان کی آبادی کے تناسب میں ملے ریزرویشن کی طرح ہی مانگ کریں گے کہ انہیں بھی ان کی آبادی کے تناسب میں ریزرویشن ملنا چاہیے۔ ابھی او بی سی کے لیے صرف 27 فیصدی ریزرویشن ہے اور سپریم کورٹ نے 50 فیصدی سے زیادہ کے ریزرویشن پر روک لگا رکھی ہے۔’
ذات پر مبنی مردم شماری سے ہونے والے نقصان کےامکانات کے بارے میں وہ کہتے ہیں،‘ذات پر مبنی مردم شماری سے او بی سی صف بندی میں او بی سی سیاست زورپکڑےگی۔ میرا ماننا ہے کہ اس سے او بی سی سیاست یا سوشل جسٹس کی سیاست کو نقصان بھی ہو سکتا ہے اور وہ نقصان ابھی ہی ہونا شروع ہو گیا ہے۔’
وہ مزیدکہتے ہیں،‘جب بے حد پسماندہ کاسٹ یادلت یہ دیکھتے ہیں کہ ریزرویشن کے فائدے انہیں نہیں مل رہے ہیں اور تعداد میں مضبوط کاسٹ جن کے پاس پہلے سے ہی تمام وسائل ہیں۔ وہ سارے ریزرویشن کے فائدے، اقتدار سے نزدیکی اور سیاسی صف بندی کی وجہ سے حاصل کر لیتے ہیں تو ان میں ناراضگی بڑھی اور یہ بے حد پسماندہ اور دلت صف بند ہوکر بی جے پی کے ساتھ چلی گئیں۔ اس سے اتر پردیش اور بہار میں جتنی بھی سوشل جسٹس کی سیاست تھی، وہ ہار گئی۔ بی جے پی نے ہر جگہ قبضہ کر لیا اور ہندوتوا میں اونچی ذات کے ساتھ وہ ذات جڑ گئے۔ اس سے سوشل جسٹس کی سیاست کو نقصان ہوا۔’
ان کا ماننا ہے، ‘مردم شماری کے ذریعے ہر ذات کی آبادی صاف ہوکر الگ الگ سامنے آ جائےگی تو تمام چھوٹے چھوٹے کاسٹ اپنی تعدادکے حساب سے ریزرویشن کی مانگ کریں گے اور ریزرویشن27 فیصدی ہی رہےگا۔ اس کے بعد یہ کاسٹ تعداد کے حساب سے ریزرویشن کی مانگ کریں گے،تعدادکے حساب سے ٹکٹوں کی مانگ کریں گے۔ اس سے پورا سیاسی ڈھانچہ اور سیاست میں مانگوں کی دعویداریوں کا ڈھانچہ بدل سکتا ہے۔’
دوبے کےمطابق، ‘اس کے بعد سوشل جسٹس کی سیاست جیسی اب تک ہوتی آئی تھی اب نہیں ہوگی۔ اس میں بہت مسئلے پیدا ہوں گے۔ ٹھیک اسی طرح پسماندہ کمیونٹی مسلمانوں میں بھی ہیں، ریزرویشن انہیں بھی ملا ہوا ہے۔ مسلمانوں میں ایسے کئی کاسٹ ہیں، جنہیں ریزرویشن ملا ہوا ہے۔ پھر ان کی بھی گنتی ہوگی، وہاں مسلم سیاست کا بھی ڈھانچہ بدلےگا۔’
ان کے مطابق ‘یہ ماننا کہ صرف او بی سی کو اس کے سیاسی فائدے ہوں گے اور انہیں سیاست کرنے میں آسانی ہوگی، صف بندی کرنے میں آسانی ہوگی،صحیح نہیں ہے۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اثر کیا ہوگا، اس کا اثر سیاست کے لیے نقصاندہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔’
دوبے کہتے ہیں،‘مجھے لگتا ہے کہ آپ ذاتوں کی مردم شماری کیجیےیا مت کیجیے اس سے پسماندہ کمیونٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ پہلے اس بات کی گارنٹی کیجیے کہ پسماندہ کمیونٹی کے دلتوں کے آدی واسیوں کے مفادکے لیے جوپالیسیاں بنی ہیں، جو خصوصی سہولیات دینے کے اہتمام کیے گئے ہیں، پہلے انہیں ٹھیک سے لاگو کیا جائے۔ انہیں لاگو کرنے کے لیے الگ سے ایک کمیشن بننا چاہیے جو اس بات کی دیکھ بھال کرے کہ پالیسیاں لاگو کیوں نہیں ہو رہی ہیں اور انہیں لاگو کرنے کے لیے کیا طریقہ اپنایا جائے۔ اگر یہ کیا جائےگا تو ان لوگوں کا زیادہ مفادہوگا۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرنے والوں کے اس سے ذات پر مبنی جدوجہد بڑھنے کے امکانات کے سوال پر ارملیش کہتے ہیں،‘میڈیا کہتا ہے کہ اس سے ذات پات بڑھے گا۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہوگا۔ آپ کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے، لیکن پھر بھی آپ ڈیٹا بتا رہے ہیں، وہ ڈیٹا کہاں سے آ رہا ہے۔ ایس سی- ایس ٹی کی مردم شماری ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے، کیا ذات پات بڑھا؟ دراصل اقتدار میں بیٹھے لوگ ذات پات کو بڑھاتے ہیں، ذات پات کبھی نیچے کے طبقے نہیں بڑھاتے۔’
وہ کہتے ہیں،‘اگر سرکار کو لگتا ہے کہ اس سے ذات پات بڑھےگا تو ‘ورن ووستھا’ میں ذات کو ختم کرنے کا قانون لائیے۔ سرکار کے پاس مکمل اکثریت ہے، اسے پارلیامنٹ میں پاس کرا دیجیے۔ آپ نے 370 ختم کیا، تین طلاق ختم کیا۔ آپ ایک قانون لائیے اور اس قانون کی پہلی لائن ہو کہ ہندوستان میں صدیوں سے چلی آرہی’ورن ووستھا’ کو ہندوستان کی پارلیامنٹ ختم کرتی ہے اور آج کے بعد ہندوستان میں’ورن’ نہیں رہےگا اور جو بھی ورن کا استعمال کرےگا، وہ غلط ہے۔ مثبت کارروائی کے لیے ایک الگ انتظام کر دیجیے کہ جو قبل کے انتظامات میں نچلے طبقے کے لوگ ہیں، انہیں اگلے 50 سال تک ریزرویشن ملتا رہےگا۔’
ذات پر مبنی مردم شماری کے فائدے گناتے ہوئے وہ کہتے ہیں،‘اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ پہلا یہ کہ اس سے ہمارے پاس او بی سی کا ڈیٹاآ جائےگا۔ دوسرا او بی سی کے ریزرویشن کے لیے سرکار کے پاس مصدقہ ڈیٹا ہوگا اور تیسرا اس سے مختلف کمیونٹی کے لیے سماجی فلاحی منصوبے اچھے سے بن پائیں گے۔ جس سے پورے سماج کو فائدہ ہوگا۔’