سینئر صحافی کرن تھاپر نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلان کردہ‘تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگاری دن’کے تناظر میں ان کے مضمون کےشائع ہونے کے کچھ دیر بعد ایشین ایج اخبار کے مدیر نے انہیں فون کرکے کہا کہ اخبارکے مالکان نے تقسیم کے دوران جموں کے مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پرہوئے تشددکی تفصیلات پیش کرنے والے حصے پر اعتراض کیا ہے۔
نئی دہلی:دی ایشین ایج اخبار نےسینئر صحافی کرن تھاپر کے اس مضمون کو ‘ہولڈ پر رکھ’دیا ہے جس میں تقسیم کے دوران جموں کے مسلمانوں کے خلاف ہوئے بڑے پیمانے پرتشدد کاذکر کیا گیا تھا۔
تھاپر نے دی وائر کو بتایا کہ یہ مضمون 20 اگست 2021 کو ان کے کالم ‘ایز آئی سی اٹ ‘میں شائع کیا گیا تھا، لیکن اس کے فوراً بعد منیجنگ ایڈیٹرکوشک مٹر نے انہیں بتایا کہ اخبار کے مالکان نے مضمون کو ‘روکنے’کی ہدایت دی ہے۔
صحافی نے کہا کہ مٹر نے ان سےواضح طورپرکہا تھا مالکان کو مضمون کے آخری تین پیراگراف پر اعتراض ہے، جن میں تقسیم کے دوران جموں کے مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ہوئے تشدد کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
یہ باتیں تواریخ کا حصہ ہیں،جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اس خطےکو چھوڑکرنقل مکانی کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔
دراصل کرن تھاپر نے یہ مضمون وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست کو کیے گئے اس اعلان کے تناظر میں لکھا تھا،جس میں مودی نے کہا تھا کہ 14اگست کو لوگوں کی جدوجہد اورقربانی کی یاد میں‘تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگاری دن’کے طور پر منایا جائےگا۔
مودی نے کہا تھا کہ تقسیم کی وجہ سے ہوئےتشدد اور ناسمجھی میں کی گئی نفرت سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کو مجبور ہوئے اور کئی لوگوں نے جانیں گنوا دیں۔
اس کو لےکرملک کے اپوزیشن رہنماؤں نے کہا تھا کہ مودی اس کے ذریعے‘پولرائزیشن’ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور تقسیم کے ہولناک تجربوں کو بھی‘ووٹ بینک’ میں استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہیں پاکستان نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس اعلان کو ‘سیاسی اسٹنٹ’قرار دیا تھاکہ ہندوستان 14 اگست کو ‘تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگاری دن’کے طور پر منائےگا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ صرف تقسیم کی کوشش ہے۔
بہرحال تھاپر نے اپنے مضمون میں کہا تھا کہ مودی اس کے ذریعےملک میں‘مسلم مخالف’ جذبات کو بھڑکانا چاہ رہے ہیں، جبکہ تقسیم کی وجہ سے ہندو، سکھ اور مسلمان سب بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے تھے۔
انہوں نے برطانیہ میں آرمسٹس ڈے،اسرائیل میں ہولوکاسٹ دوس، آسٹریلیااور نیوزی لینڈ میں اینزک ڈے اور امریکہ میں تھینکس گونگ ڈےوغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سب دنوں کا مقصد ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرکے سب لوگوں کو ایک ساتھ کرنا ہے، لیکن وزیر اعظم مودی کا یہ قدم ہندوستان کے لوگوں کو مذہبی بنیاد پر اورتقسیم کرنے کی کوشش ہے۔
یہ بتانے کے لیےتمام کمیونٹی نےتقسیم کی ہولناکیوں کو جھیلا ہے، تھاپر نے اپنے قارئین کو 1947 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جموں کے مسلمانوں کے خلاف ہوئے تشدد کی یاد دلائی، جہاں بہت بڑی تعداد میں مسلمان شہری مارے گئے تھے۔
کرن تھاپر نے ‘ہاررس آف 1947 پارٹیشن:اے سلیکٹو ری ممبرنس؟’کے عنوان سے اس مضمون میں کہا کہ ایک وقت میں جموں مسلم اکثریتی شہر تھا، لیکن فسادات کے بعد یہ ہندو اکثریتی علاقہ بن گیا۔مؤرخ بتاتے ہیں کہ اس دوران یہاں سینکڑوں ہزاروں مارے گئے یانقل مکانی کو مجبور ہوئے ۔
انہوں نے ان حقائق کو تقویت دینے کے لیے کئی حوالے دیے، جس میں سے دی ا سپیکٹیٹر کی رپورٹ بھی شامل ہے جسے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بیان دیا تھا۔اس کے علاوہ ممتاز ماہرین ارجن اپادرئی اور ایرین میک اورہندوستان کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ کی تحریروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان حوالوں کی بنیاد پر تھاپر نے اندازہ لگایا کہ فسادات کے دوران دو سے پانچ لاکھ مسلمانوں کی موت ہوئی تھی اور کئی لوگ نقل مکانی کو مجبور ہوئے تھے۔
سینئر صحافی نے مزید کہا کہ کالم نگارسوامی ناتھن ایئر نے سال 2018 میں ٹائمس آف انڈیا کے ایک مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ پیمانے کےلحاظ سے جموں کے مسلمانوں کا قتل عام‘پانچ دہائیوں بعد پنڈتوں کے خلاف ہوئے تشدد سے کہیں زیادہ تھا۔’
تھاپر نے اپنے مضمون کو ایک سوال پر ختم کیاکہ :‘اب جب مودی تقسیم کی ہولناکیوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں، تو کیا یہ ان میں سے ایک ہے؟’
تھاپر نے دی وائر سے کہا اوپ-ایڈ ایڈیٹر کوشک مٹر نے کہا ہے کہ اخبار کے مالکان نے کہا ہے کہ یہ مضمون ہندو مسلم مسائل کو اٹھاتا ہے اور وہ ان موضوعات کو اٹھانا پسند نہیں کرتے ہیں۔ یہ انہیں پریشانی میں ڈالتا ہے۔
سینئر صحافی نے کہا، ‘دوسرے لفظوں میں کہیں تو وہ سرکار کی جانب سے ان پر ڈالے جانے والے دباؤ سے ڈرے ہوئے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ مٹر نے ان سے کہا ہے کہ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام سےمتعلق مضمون کے آخری تین پیراگراف پرمالکان کو اعتراض ہے۔
کرن تھاپر نے کہا، ‘1947 میں جموں کے مسلمانوں کے خلاف تین چار مہینے تک تشدد ہوتا رہا ۔ اس کا تاریخی لیکھا جوکھا دستیاب ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ مودی اور شاہ کی وجہ سے مالک شدید دباؤ میں ہیں۔’
تھاپر نے پرانے واقعات کو یادکرتے ہوئے کہا کہ سابق مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر،بی جے پی کےسابق جنرل سکریٹری رام مادھو اور بی جے پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا جیسے کئی بی جے پی رہنماؤں نے ان سے کہا تھا کہ انہیں پارٹی اعلیٰ کمان نے ان کے شو میں نہ آنے کی ہدایت دی ہے۔
کئی دہائیوں تک ٹیلی ویژن میں کام کرچکے کرن تھاپر اب دی وائر پر ‘دی انٹرویو’ نام سے ایک ریگولر پروگرام کرتے ہیں۔ وہ دی ایشین ایج کی گزارش پر پچھلے دس مہینے سے اخبار میں کالم لکھ رہے تھے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر