گو کہ افغانستان میں طالبان کی فوجی فتح کے بعد اقلیتوں کے ساتھ ابھی تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، مگر ان کے بیس سال قبل کے رویے اور نظام حکومت نے اقلیت کیا اکثریت سبھی کو تذبذب میں مبتلا کر کے ر کھ دیا ہے۔ اسی لیے جس بھی افغانی کے پاس وسائل ہیں، وہ جہاں بھی ممکن ہو سکتا ہے، ہجرت کر کے وہاں جا رہا ہے۔
اگر سوندر سنگھ نے سکھوں والی پگڑی نہ پہنی ہوتی، تو اس کے پشتو لب و لہجے، دراز قد، گورے چٹے کسرتی بدن اور پٹھانی شلوار قمیص سے وہ بالکل کوئی کابل والا پٹھان ہی لگتا تھا۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی جب کابل سے سکھوں کا ایک گروہ مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے تین بڑے نسخے لے کر دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر وارد ہوا تو میں بھی وہاں پہنچ گئی تھی۔ میری بغل میں کوئی سکھ نما پٹھان کسی کے ساتھ فون پر پشتو میں بات کر رہا تھا۔ تجسس کے مارے جب میں نے ان سے تعارف کی درخواست کی تو معلوم ہوا کہ سوندر سنگھ افغانی سکھ ہے اور کابل میں اس کی مصالحوں کی دکان تھی۔
گو کہ افغانستان میں طالبان کی فوجی فتح کے بعد اقلیتوں کے ساتھ ابھی تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، مگر ان کے بیس سال قبل کے رویے اور نظام حکومت نے اقلیت کیا اکثریت سبھی کو تذبذب میں مبتلا کر کے ر کھ دیا ہے۔ اسی لیے جس بھی افغانی کے پاس وسائل ہیں، وہ جہاں بھی ممکن ہو سکتا ہے، ہجرت کر کے وہاں جا رہا ہے۔
تعارف و ست سری کال کرنے کے بعد سوندر سنگھ نے بتایا کہ وہ ہوائی اڈے پر اپنے بھائی اور اس کے اہل خانہ کے استقبال کے لیے آیا ہے۔مگر جب اس کے رشتہ دار وارد ہوئے تو ان کو بند گاڑی میں قرنطینہ کے لیے گردوارہ رکاب گنج کی ڈورمیٹری میں روانہ کیا گیا۔ ہندوستانی پارلیامنٹ کے پاس اس وسیع و عریض گردوارے میں افغانستان سے نقل مکانی کرنے والے سکھوں کے لیے عارضی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔
افغانستان سے آئے گرنتھ صاحب کے نسخوں کو مہاویر نگر کے گردوارے روانہ کیا گیا۔ پچھلے کئی برسوں سے افغانستان سے آئے سکھوں نے اسی علاقے میں سکونت اختیار کی ہے۔ رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت نہ ملنے پر سوندر تذبذب میں ہی تھا کہ میں نے اس کو اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کی پیش کش کی، جو اس نے قبول کی۔ راستے میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ 12 اگست کو یعنی کابل پر طالبان کے قبضہ کے تین روز قبل ہی دہلی آیا تھا اور تین ستمبر کو واپسی کا ٹکٹ لیا ہوا تھا۔ سوندر سنگھ راستے میں بتا رہا تھا؛
جب طالبان ایک ایک کر کے صوبوں کو اپنے قبضے میں لے رہے تھے، تو میں نے جولائی ہی میں اپنی بیوی اور دو بیٹوں کو دہلی بھیجا تھا۔ میں 12 اگست کو ان کی خیر و عافیت دریافت کرنے اور خرچہ وغیرہ دینے کے لیے دہلی آیا تھا۔ میرا پلان تھا کہ تین ستمبر کو میں واپسی کی راہ لوں گا۔ لیکن اتنی جلدی طالبان کابل پہنچ کر اس پر قبضہ کر لیں گے اور حکومت راہ فرار اختیار کرے گی، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
جلال آباد میں پیدا ہونے والے سوندر پہلے اپنے شہر میں ہی بزنس کرتے تھے۔ پچھلے کئی برسوں سے جب اس کے بیشتر رشتے دار ہندوستان نقل مکانی کر گئے تو اس نے کابل جا کر اپنے کاروبار کو ازسر نو شروع کیا۔ وہ بتا رہا تھا کہ جب جلال آباد اور اس کے اطراف میں حالات خراب ہوتے گئے تو وہ اپنی برادری کے قریب رہنے کے لیے کابل چلا گیا اور وہاں ایک گھر خرید کر اپنے کاروبار کو دوبارہ شروع کیا۔
تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم مہاویر نگرگرودوارہ پہنچے، جہاں گرنتھ صاحب کے نسخے رکھے جانے تھے۔ پھولو ں سے سجی ایک پالکی میں ان تاریخی نسخوں کو سوار کیا گیا تھا۔ سڑک پر ہرا قالین بچھایا گیا تھا اور عقیدت مندوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاورکر کے ان کا استقبا ل کیا۔ یہ گرودوارہ اس علاقے میں واقع ہے، جہاں اکثریت افغان سکھوں کی ہے، ان میں کچھ 30 سال قبل نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے تھے۔
یہ ان افراد کے لیے جذباتی لمحات تھے۔ یہ وہی صحیفے تھے، جن کو سامنے سر جھکانے کے بعد انہوں نے کئی برس قبل ہجرت کی تھی۔ جذبات سے بھرے تجندر سنگھ نے بتایا کہ پچھلے سال کابل کے پروان گوردوارے میں پناہ لینے کے دوران اور پھر وہاں سے ہندوستان ہجرت کرنے سے قبل وہ اسی صحیفے کے سامنے سجدہ ریز ہو کر واہ گرو سے مدد مانگتے تھے۔ اس کو یقین ہے کہ وہ اور یہ صحیفے ایک دن واپس اپنے وطن افغانستان جائیں گے۔ اس کا کہنا تھا کہ افغانستان سے سکھوں یا سکھ مذہب کو جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تجندر کا مزید کہنا تھا؛
حالات معمول پر آتے ہیں اور افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بنتی ہے، تو ہماری پہلی ترجیح گھر واپسی کی ہو گی۔
افغانستان میں سکھوں کی تاریخ
سکھ 1521سے ہی افغان کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ سکھ مذہب کے بانی بابا نانک جب حج کے بعد مکہ سے واپس پنجاب آرہے تھےتو انہوں نے کابل میں قیام کیا۔ اس وقت وہاں اچھی خاصی تعداد میں ہندو رہتے تھے، جنہوں نے نانک کے ہاتھ پر بیعت کر کے سکھ مت قبول کیا۔ جاد میوان علاقے میں 1950 تک ایک عالیشان گردوارہ اس واقعے کا گواہ تھا مگر اس کو سڑک چوڑی کرنے کے منصوبے کے دوران مسمار کر دیا گیا تھا۔
شور بازار میں جس گردوارہ پر گزشتہ سال دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، وہ ساتویں سکھ گرو گرو ہر رائے کو وقف کیا گیا ہے۔ اس کے قریب ہی بابا سری چند کا گردوارہ ہے، جو بابا نانک کے بڑے بیٹے کے لیے وقف ہے۔ سری چندا داسی فرقے کے بانی تھے اور وہ اپنے والد کے بعد افغانستان گئے تھے۔
فارسی کے مشہور شاعر اور سکھ عالم بھائی نند لال، جو دسویں گرو گروگوبند کے دربار میں بطور شاعر بھی خدمات انجام دیتے تھے، غزنی کے رہنے والے تھے۔ غزنی میں دو گرودوارے ان کے لیے وقف ہیں۔ کئی سکھ عالموں کی تحریریں بتاتی ہیں کہ پانچویں، ساتویں اور دسویں سکھ گرو کے سینکڑوں پیروکار افغانستان میں رہتے تھے اور ہر سال ان کو گھوڑے، ریشمی کپڑے اور دیگر اشیاء وہاں سے بھجتے تھے۔
گرو ہرگوبند کے دو پسندیدہ گھوڑے دلباغ اور گل باغ ان کے افغان پیروکاروں نے ان کو دان کیے تھے۔ جب پانچویں سکھ گرو، گرو ارجن امرتسر کے مضافات میں ترن تارن میں اپنا دارالحکومت تعمیر کر رہے تھے تو کئی افغان سکھ اس کی تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔ ان افغان سکھوں کا ڈیرہ امرتسر کے گولڈن ٹیمپل سے کچھ میل دور گرودوارہ پپلی صاحب پر تھا۔
سوندر سنگھ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پیدا ہونے والے سکھ گروؤں کی یہ کہانیاں سنتے ہوئے ان کی جنریشن بڑی ہو گئی ہے۔ ان کے لیے سکھ مذہب اور افغانستان ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں، جو کبھی جد ا نہیں ہو سکتے۔ ان کے لیے یہ تسلیم کرنا ہی مشکل ہے کہ افغانستان میں اب گرودوارے گرو گرنتھ صاحب کے بغیر ہوں گے۔
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد جب سوندر سنگھ میری گاڑی سے اتر کر ہاتھ ہلاتے ہوئے خدا حافظ کہہ رہا تھا تو اس کے لبوں پر الفاظ تھے؛
بی بی، میرا ماننا ہے کہ سکھ عقیدے اور سکھوں کو افغانستان سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور مجھے یقین ہے کہ واہ گرو اور افغانستان کے عوام اپنے بھائیوں یعنی ہمیں جلد جلد دوبارہ گھر واپس بلائیں گے اور ہم بھی اس جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو میں مدد کر کے اس کو خوشحال اور مستحکم ملک کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
میں دیر تک سوندر سنگھ کو گردوارے کے گیٹ کے پاس ہجوم میں گم ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور منظر بھوپالی کا کلام میرے ذہن میں گونج رہا تھا۔
کبھی تو صاحب دیوار و در بنیں گے ہم
کبھی تو سر پہ ہمارے نئی چھتیں ہوں گی
یہ اشک تیرے مرے رائیگاں نہ جائیں گے
انہیں چراغوں سے روشن محبتیں ہوں گی۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر