تین نومبر کو لکھے ایک خط میں مغربی اگرتلہ تھانے نے ٹوئٹر کو اس کے پلیٹ فارم سے کم از کم 68 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے اور ان کی نجی جانکاری دینے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کی دفعہ13 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔اپوزیشن نے اس کو لےکرمقتدرہ بی جے پی کو نشانہ بنایا ہے۔
نئی دہلی:مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تریپورہ کے شمالی اضلاع میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف، یہاں تک کہ اس کا صرف ذکر کرنے کے لیے تریپورہ پولیس نے 102 لوگوں پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔یہ قدم بی جے پی مقتدرہ صوبوں کی جانب سےاحتجاج اور مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
تریپورہ پولیس کے ذرائع کے مطابق، ٹوئٹر کے 68،فیس بک کے 32 اور یوٹیوب کے دو اکاؤنٹ ہولڈر کےخلاف معاملے درج کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلےمغربی اگرتلہ تھانے کی جانب سے درج کیے گئے معاملوں کو اب صوبے کی کرائم برانچ کو منتقل کردیا گیا ہے۔
ان حالیہ معاملوں سے پہلے ریاستی پولیس نے دہلی کے دو وکیلوں انصار اندوری اور مکیش پر گزشتہ مہینے کے فرقہ وارانہ تشدد،جس میں ہندوتوا گروپوں کے ذریعےاکثر مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں کو نشانہ بنانے کے الزام لگے تھے، کی ایک آزادانہ فیکٹ فائنڈنگ جانچ میں حصہ لینے کے لیےیو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔
گزشتہ 3 نومبر 2021 کو لکھے ایک خط میں مغربی اگرتلہ تھانے نے ٹوئٹر کو اس کے پلیٹ فارم سے کم از کم 68 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے اور ان کے بارے میں نجی جانکاری فراہم کرنے کی درخواست کی اور بتایا کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کی دفعہ13 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
پولیس نے اپنے نوٹس میں یہ الزام لگاتے ہوئے کہ‘سوشل میڈیا پوسٹس کے باعث تریپورہ میں دو کمیونٹی کے بیچ فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی صلاحیت ہے، جس کے نتیجے میں دنگے ہو سکتے ہیں’ کہا ہے کہ ان اکاؤنٹس ہولڈر نے صوبے میں حال ہی میں ہوئے جھڑپ اور مسلمانوں کی مسجدوں پر مبینہ طور پرحملے سے متعلق گمراہ کن اور قابل اعتراض خبر/بیان پوسٹ کیے ہیں۔’
نوٹس میں کہا گیا ہے،‘ان خبروں/پوسٹ کو شائع کرنے میں ان افراد/اداروں کو کچھ دوسرے واقعات کے فوٹو/ویڈیو،من گڑھنت بیان/تبصرے کا استعمال کرتے ہوئے مذہبی گروہوں/برادریوں کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینے کے لیےمجرمانہ سازش میں ملوث پایا گیا ہے۔’
مذکورہ معاملوں میں نافذیو اے پی اے کی دفعہ13 غیرقانونی سرگرمی کو اکسانے سے متعلق ہے، جس میں سات سال تک کی قید کی سزا ہے۔
حالانکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس کے ذریعے فیس بک کے کون سے 32 اور دو یوٹیوب اکاؤنٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن 68 ٹوئٹر اکاؤنٹ میں سے کئی لوگوں نے صرف فرقہ وارانہ تشدد کی مذمت کی تھی۔ ان 68 میں سے کئی صحافی ہیں جنہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تشدد کے بارے میں جانکاری دی تھی۔واضح طور پران میں سے اکثر مسلمانوں کے ہیں، جبکہ کچھ ہی لوگ دوسری برادریوں سے ہیں۔
دی وائرمتعلقہ اکاؤنٹس کےذریعے ٹوئٹ کیے گئے پوسٹ کو آزادانہ طور پرتصدیق نہیں کر سکا، اور نہ ہی یہ پتہ لگا سکا کہ ریاستی پولیس کے مطابق ان میں کیا‘قابل اعتراض ’یا‘من گڑھنت بیان/تبصرے’ تھے، جو صوبے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا سکتے تھے۔
اس معاملے میں جن اہم ٹوئٹراکاؤنٹس کا نام لیا گیا ہے، ان میں انڈین امریکن مسلم کاؤنسل، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جئے پور کے پروفیسر سلیم انجینئر، برٹش اخبار بائیلائن ٹائمس کے صحافی سی جے ویرلیمین، ظفرالاسلام خان، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر، پنجاب ریاستی کانگریس اقلیتی محکمہ ، شرجیل عثمانی اور صحافی شیام میرا سنگھ، جہانگیر علی اور سرتاج عالم سمیت کئی دوسرے شامل ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے تریپورہ پولیس کے پبلک ریلیشن آفیسر اور تریپورہ پولیس کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل(لا اینڈ آرڈر)سبرت چکرورتی نے کہا کہ اس معاملےکو دھیان میں رکھتے ہوئے یو اے پی اے لاگو کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،‘معاملے میں ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا پوسٹ کانوٹس لیا ہے اور معاملہ درج کیا گیا ہے۔ میں اور کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔’
اپوزیشن نے نشانہ بنایا
اس بیچ اپوزیشن پارٹیوں نے ریاستی پولیس کی اس من مانی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے سی پی آئی(ایم)کےسابق ایم پی جتیندر چودھری نے کہا کہ پولیس کارروائی‘غیرآئینی اور غیراخلاقی’تھی اورہندوستانی آئین کے ذریعہ ملک کے لوگوں کو دیے گئے شہری حقوق کے اصول کے خلاف ہیں۔
یہ کہتے ہوئے کہ یہ کارروائی مقتدرہ بی جے پی کے تریپورہ میں امن و امان قائم نہ رکھ پانے کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے، انہوں نے کہا، ‘یہ سچ ہے کہ سنگھ پریوار کے کارکن تشدد میں شامل تھے۔ صوبے میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔حساس لوگوں کا اس پر ردعمل دینافطری ہے۔یو اے پی اے کےتحت الزام لگانا بالکل مضحکہ خیز ہے۔’
چودھری نے کہا،‘ریاستی پولیس نے جو کیا ہے وہ مجھے برٹش حکومت کی یاد دلاتا ہے۔ اگر ریاستی پولیس ان لوگوں کو چیلنج دینا چاہتی تو آئی پی سی کی الگ الگ دفعات لگاکر ایسا کر سکتی تھی۔ ہم اس طرح کی پولیس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے ایسےالزامات کوفوراً واپس لیے جانے کی مانگ کرتے ہیں۔’
اسی طرح انڈیجینس پروگریسو ریجنل الائنس(ٹی آئی پی آر اے)کے سربراہ پردیوت دیببرما نے دی وائر سے کہا کہ اس کارروائی سے ‘نوآبادیاتی ذہنیت کی بو آتی ہے اور یہ جمہوریت کے مطابق نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا،‘مجھے لگتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی مکمل نہیں ہو سکتی، لیکن یہ کسی کے سیاسی ایجنڈہ کے حساب سے بھی نہیں ہو سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ سرکار کو ذی فہم ہونا چاہیے اور کچھ تبصروں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ریاستی حکومت اگر اس طرح کے اکساوے کا جواب دینے والوں کے خلاف معاملہ درج کر رہی ہے تو اسے اس معاملے میں وشو ہندو پریشد اور دوسرےمتعصب عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے، جو ایک خاص مذہب کے خلاف فرقہ وارانہ نعرے لگانے کے لیے ریلیوں میں آئے۔ قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔’
جیسا کہ دی وائر نے پہلے ہی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مبینہ وی ایچ پی کے ممبروں کی جانب سے توڑ پھوڑ کے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیے گئے اور جو لوگ ایسی ریلیوں کا حصہ تھے، انہیں‘تریپورہ میں ملاگیری نہیں چلے گی، نہیں چلےگی’ اور ‘او محمد تیرا باپ، ہرے کرشنا ہرے رام’ جیسے مسلمان مخالف نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
ترنمول کانگریس کی ریاستی انچارج سشمتا دیو نے کہا کہ فیکٹ پھائنڈنگ کمیٹی اور فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف صوبے کی کارروائی وہی ہے، جسے بی جے پی ‘گجرات ماڈل’ کہتی ہے۔
انہوں نے دی وائر سے کہا،‘یہ بہت ہی آسان ہے۔مختلف ادارےفیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں بھیجتی ہیں، جن میں سیاسی تنظیم بھی شامل ہیں اور یہ ایک جمہوری حق ہے۔متاثرین کہہ رہے ہیں کہ تشدد ہوا ہے، تریپورہ پولیس لگاتار کہہ رہی ہے کہ یہ جھوٹی خبر ہے۔ جس پل کسی مدعے کے بارے میں تضادات ہو تو سبھی کو متاثرہ علاقوں میں جانے کا حق ہے بشرطیکہ آپ امن وامان کو متاثرنہ کریں۔ اگر تریپورہ پولیس کو یقین ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو انہیں لوگوں کو متاثرہ علاقوں میں جانے دینا چاہیے۔’
دیو نے مزید کہا،‘اگر کوئی غلط اطلاع دے رہا ہے تو یو اے پی اے لگایا جا سکتا ہے، لیکن فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں کڑےقانون کےتحت نہیں آ سکتیں۔ میں(متاثرہ علاقوں)کا دورہ بھی نہیں کر سکتی۔اگر میں اگرتلہ سے باہر نکلتی ہوں تو وہ(پولیس)مجھے پیٹنے کو تیار ہیں۔ میں نے سرکار کو لکھا بھی ہے کہ مجھے تحفظ دیا جانا چاہیے کیونکہ میں وہاں جانے کو تیار ہوں۔ یہاں تک کہ کانگریس کی ایک ٹیم بھی وہاں گئی تھی۔ تو انہوں نے کانگریس کے خلاف معاملہ کیوں نہیں درج کرایا؟’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں