کچھ عرصہ سے ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو یہ خیال ستا رہا ہے کہ دلیپ کمار عرف یوسف خان سے شروع ہو کر شاہ رخ خان تک اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ، سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے کئی برسوں سے بالی ووڈ ان کے نشانے پر ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے میں نے بالی ووڈ فلمیں دیکھنا تقریباً چھوڑ دی ہیں۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنے کی خاطر بالی ووڈ نے، آرٹ کو قربان کرکے سستے مکالموں، اور ہیروین کو کم کپٹرے پہنا کر اور چند ہیجان انگیز جنسی سین دکھاکر شائقین کو لبھانے کا فارمولہ اپنایا ہوا ہے۔
اس سے بھی زیادہ آج کل مصنوعی حب الوطنی یا الٹرا نیشنلزم کا بھوت بالی ووڈ میں سر چڑھ کر بول رہا ہے اور پاکستان کو نشانہ بنا کر اور اقلیتوں کو ٹارگیٹ کرنے کا فارمولہ ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس اس طرح کا کوئی آئیڈیا اور اسکرپٹ ہے، جس سے عوام کے جذبات بر انگیختہ کرائے جائیں، تو بالی ووڈ کے پروڈیوسر اس اسکرپٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔
کہاں گئے وہ دن جب مزدور، دو بیگھ زمین، مدر انڈیا اور بوٹ پالش جیسی فلمیں نہ صرف سوسائٹی کا عکس ہوتی تھیں، بلکہ تفریح کے ساتھ ساتھ ان میں ایک پیغا م بھی چھپا ہوتا تھا۔ تین گھنٹے سنیما ہال کی مصنوعی دنیامیں گزارنے کے بعد شائق عملی زندگی کے لیے کوئی پیغام یا سبق لےکر ہی نکلتا تھا۔
مایوسیوں کے اندھیرے میں حال ہی میں ریلیز ہوئی، تمل زبان کی فلم جئے بھیم نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے ہندوستان کے علاقائی سنیما میں جان بچی ہے اور وہ بغیر کسی خوف کے ابھی بھی سوسائٹی کے مسائل کو اجاگر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
کسی بڑے بینر اور نامور اداکاروں کے بغیر اس تمل فلم نے بہ خوبی ایک بہت اہم سماجی مسئلہ کو اجاگر کیا ہے جسے بالی ووڈ مکمل طور پر نظر انداز کرتا آ رہا ہے۔پچھلے ہفتے میں نے جئے بھیم کو دو بار دیکھا،کیونکہ طویل عرصے میں ایک واحد فلم ہے جو معاشرے کو آئینہ دکھانے میں کامیاب رہی ہے۔
فلم کے عنوان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فلم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی پر بنی ہوگی، جنہوں نے اچھوتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کی تاکہ انھیں ہندوستانی آئین کے سامنے برابر کا شہری اور حصہ دار بنایا جاسکے۔
لیکن فلم میں کوئی امبیڈکر نہیں ہے، تاہم وہ اس فلم کے کرداروں کے ذریعے زندہ ہیں، جنہیں اشرافیہ، تعلیم یافتہ، سرکاری نظام کے ہاتھوں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں کو پولیس کی بربریت کا صرف اس وجہ سے سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اونچی ذات سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
یہ فلم دراصل تمل ناڈو کی ارولا برادری کا احاطہ کرتی ہے، جنہیں اچھوت کہا جاتا ہے۔ چھوت چھات کو غیر قانونی قرار دینے کے 50 سال سے زیادہ عرصے کے بعدبھی اس برادری کے افراد کو اب بھی گاؤں کے اندر رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ان کو گاؤں سے باہر علیحدہ بستی میں ہی رہنا پڑتا ہے۔
فلم نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ جب کہ اچھوتوں کو اونچی ذات کے علاقوں تک رسائی نہیں ہے، وہ زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور کھیتوں میں چوہے پکڑتے ہیں جوفصلوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔ یہ چوہے ان کے لیے ایک نعمت ہیں، کیونکہ وہ صرف چوہے کے گوشت سے ہی پیٹ پالتے ہیں۔
فلم انسان کی حیوانی جبلت کے کئی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ کہیں اگر جرم ہوتو الزام اسی طبقے کے افراد کے سر تھوپا جاتا ہے۔ کیونکہ اعلیٰ ذات کے افراد کا خیا ل ہے کہ نچلی ذات والے جنم سے ہی چور ہوتے ہیں۔ یہ فلم نہ صرف سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی تگ و دو کی داستان نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی کمرشیل سنیما پر بھی کچھ سوالات اٹھا تی ہے، جس کے ناظرین نہ صرف ہندوستان میں ہیں، بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہیں۔
یہ چشم کشا فلم اس حقیقی ہندوستان کے روبرو کراتی ہے، جہاں عالی شان گھر، عیش و عشرت کے سامان اور درختوں کے گرد رقص کرنا صرف خواب میں ہی ممکن ہے۔ سماج کو درپیش سنجیدہ مسائل پر کمرشیل سنیما نے تو گویا اپنے زبان پر تالا لگایا ہوا ہے اور وہ بس اپنے آپ کو الٹرا قوم پرست دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
یہ جنوبی ہند کا سنیما ہے جس نے کسی قدر سنیما کی لاج رکھی ہے۔ پہلے کرنن اور پھر پریرم پیرومل جیسی فلموں کے بعد، اس ماہ کے شروع میں ریلیز ہونے والی جئے بھیم، چیخ چیخ کر یاد دلا رہے ہیں، کہ حقیقی اور تصویری ہندوستان میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ذات پات کے نظام کی چکی ابھی بھی کروڑوں لوگ پس رہے ہیں۔
سن 1947میں جنوبی ایشیا کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے کے باوجود ہندوستان کا سنیما جس میں بالی ووڈ کا کلیدی کردار تھا، سیکولر رہا۔ اس کی بڑی وجہ اس سیکٹر میں اداکاروں، اسکرپٹ لکھنے والوں، گانے لکھنے والے شاعروں اور تکنیکی مدد فراہم کرنے والے افراد کی بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
اب کچھ عرصہ سے ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو یہ خیال ستا رہا ہے دلیپ کمار عرف یوسف خان سے شروع ہو کر شاہ رخ خان تک اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ، سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے کئی برسوں سے بالی ووڈ ان کے نشانے پر تھا۔
دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے والوں کو مسلسل پریشان اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس برادری کے ارکان پر قتل، سازش، منشیات کی اسمگلنگ اور غدارانہ رویے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اور جنہوں نے سماج سے متعلق حقیقی مسائل پر بات کرنے کی کوشش کی ہے، انہیں ہندوتوا کے غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انتہا پسند نہ صرف سنیما کے سیکولر کردار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس صنعت کو ممبئی سے اتر پردیش میں منتقل کرنے کی بھی تجویز پیش کر رہے ہیں تاکہ اس پر گہری نظر رکھی جائے۔ فلم صنعت کو سیکولر اور ہندو توا کے خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔
جہاں کنگنا رناوت اور اکشے کمار جیسے اداکاروں کو انڈسٹری کے ہندو چہروں کے طور پر اب پہچانا جاتا ہے، جاوید اختر اور سوارا بھاسکر جیسے اداکار جو حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں انہیں سیکولر خانے میں رکھا گیا ہے اور ان کو ہندو ٹرولز کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چھن چھن کر یہ خبریں بھی آرہی ہیں، کہ پرڈیوسروں کو بتایا گیا ہے کہ اس قبیل کے آرٹسٹوں کو کام دینے سے ان پر شکنجہ کس سکتا ہے اور ان کو ٹیکس، منشیات وغیرہ کے جنجا ل میں پھنسا کر ان کی زندگی دوبھر کرکے ان کے کاروبار کو لپیٹ دیا جائےگا۔
یاد کیجیےیہ وہی بالی ووڈ ہے جس کے اداکار 2014 سے قبل ٹوئٹر پر مہنگائی اور انڈسٹری میں محصول بڑھانے جیسے مسائل پر بات کرتے تھے۔ انہوں نے لگتا ہے کہ اب اپنے آپ کو ایک کٹہرے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ کسانوں کی طرح بالی ووڈ بھی جرأت کا مظاہر ہ کرکے جنوبی ہند کی فلم انڈسٹری سے کچھ سیکھے اور ایک تاریخ رقم کرے۔
یہ بتانا اشد ضروری ہے کہ فلمیں صرف تفریح اور ڈرامے سے متعلق نہیں ہوتی ہیں، بلکہ صحافت کی طرح ان کے کندھوں پر ایک بڑی سماجی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)