فکر و نظر

تعلیمی بجٹ میں لگاتار کمی حکومت کی نجکاری کی منشا کو ظاہر کرتی ہے

ماہرین تعلیم اور پالیسی ساز امیدکر رہے تھے کہ حکومت تعلیمی شعبے میں کچھ اہم اقدامات کرے گی، کیونکہ کورونا کی وجہ سے لاکھوں طلباکو اپنے بیش قیمتی تعلیمی سال کانقصان اٹھانا پڑا ہے، حالانکہ بجٹ نے ان سب کوشدید طور پر مایوس کیا ہے۔

Coronavirus-Assam-School-Education-Girls-PTI-e1632464912613

گزشتہ کچھ سالوں سے وزارت تعلیم کا بجٹ مختص تقریباً یکساں رہا ہے، اس میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے،آسانی سے دستیاب معیاری تعلیم کی ضرورت کو رفتار دینےکے لیےسوچ اور قوت ارادی کی کمی، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مرکزی حکومت اس شعبے میں اپنی ذمہ داریوں کو بتدریج نجی شعبے کی طرف منتقل کرنے پر زور دے رہی ہے۔

سال 2022-23 کا عام بجٹ پچھلے بجٹ سے ذرابھی الگ نہیں ہے، کل مختص 104277.72 کروڑ روپے ہے جو محکمہ اعلیٰ تعلیم،اسکولی تعلیم اور خواندگی کے محکموں کے بیچ منقسم ہے۔

مرکزی حکومت نے وزارت تعلیم کے کل مختص میں معمولی اضافہ کیا ہے۔ پچھلے سال 88000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔

بجٹ میں 16000 کروڑ روپے کا اضافہ اس لیےبھی ہوا ہے کہ وبائی امراض کی وجہ سے اسکول غیرمعینہ مدت کے لیے بند ہیں، اس لیے ان حالات میں ڈیجیٹل تعلیمی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ماہرین تعلیم اور پالیسی ساز امید کر رہے تھے کہ حکومت کچھ اہم اقدامات کرے گی، کیونکہ لاکھوں طلبا وبائی امراض کی وجہ سے اپنی تعلیم کے اہم سال کھو چکے ہیں، بجٹ سے ان سب کو شدید مایوسی ہاتھ لگی ہے۔

وزیرخزانہ نے وبائی امراض کے دوران حاشیے پر پڑے طبقوں کے بچوں کی تعلیم پر پڑنے والے برے اثرات کے پیش نظر بجٹ میں اعلان کیا گیاکہ ‘پی ایم ای ودیا یوجنا’ نافذ کی جائے گی، جس میں 12 سے 200 ٹی وی چینلوں پرمختلف زبانوں میں پروگرام نشر کیے جائیں گے۔

اس میں ‘ایک کلاس ون ٹی وی چینل’ کے تحت پہلی جماعت سے 12ویں تک کےطلبا کو سپلیمنٹری تعلیم فراہم کی جائے گی، جو وبائی امراض کے دوران پچھڑی ان کی تعلیم کے لیےضمنی تعلیم(سپلیمنٹری) کے طور پر کام کرے گی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے اعلان کیا کہ آنے والے مالی سال میں سائنس اور ریاضی میں 750 ورچوئل لیب اور’سمیولیٹیڈ لرننگ انوائرنمنٹ’ کے لیے75 اسکلنگ ای-لیب شروع کیے جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک ڈیجیٹل یونیورسٹی شروع کرنے کا بھی اعلان کیا، جس کے قیام میں ملک کی سرکاری یونیورسٹیاں مدد کریں گی۔

تاہم، ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ حکومت کو نئے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بجائے موجودہ اسکولوں اور کالجوں میں باقاعدگی سے تعلیمی صورتحال کو برقرار رکھنے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔

رائٹ ٹو ایجوکیشن (آر ٹی ای) فورم کے کنوینر متر رنجن کا کہنا ہے کہ،مرکزی بجٹ نہ صرف ہندوستان کی تعلیمی ضروریات کو کم کرکے دیکھتاہے، بلکہ تمام زمینی حقائق کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا،ہمیں پوچھنا چاہیےکہ کیا 80 فیصد طلباکواس بجٹ سے فائدہ ہوگا، جن کی ڈیجیٹل تعلیم کے بنیادی ڈھانچے تک رسائی بہت کم ہے یا بالکل نہیں ہے۔ میرےحساب سےیہ بجٹ ملک کو گمراہ کرنے اور تعلیم کی نجکاری کا راستہ کھولنے کی سمت میں ایک اور پیش رفت ہے۔

تعلیمی شعبےکےاکثر ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت کی قومی تعلیمی پالیسی تعلیم کی نجکاری کو جنرلائزکرنے والی ہے اور اس میں رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔

بتا دیں کہ پارلیامنٹ میں مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کے حالیہ بیان کے مطابق، پچھلے 11 سالوں میں آر ٹی ای کی تعمیل، جب سےاسکیم کی شروعات ہوئی ہے، صرف 25.5 فیصد رہی ہے۔

اس کے علاوہ،  اس وقت تقریباً 11 لاکھ اساتذہ کی تقرریاں مؤخر ہیں ، جن  کا بجٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ‘پی ایم پوشن شکتی نرمان یوجنا’، جس کو پہلے مڈ ڈے میل اسکیم کہا جاتا تھا، کے لیے بجٹ مختص میں گزشتہ برسوں میں مسلسل گراوٹ  دیکھی گئی ہے۔

اس کے لیے 2020-21 میں 12900 کروڑ روپے کا اہتمام کیا گیا تھا، 2021-22 میں یہ رقم 11500 کروڑ کر دی گئی ہے اور اس باربجٹ میں اس مد میں یہ رقم 10233.75 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔ اس سے غریب بچوں میں بنیادی تعلیم کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ غورطلب ہے کہ ایسا اس وقت ہوا ہے جب وزیر اعظم نے اپنی کئی تقریروں میں بچوں میں بہتر غذائیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

رنجن کہتے ہیں،ڈیجیٹل تعلیم پر زور تعلیم کے شعبے میں نجی کھلاڑیوں کو لانے کا ایک اور طریقہ ہے، یہ صرف عدم مساوات کو فروغ دے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجٹ میں ایس سی /ایس ٹی کی لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی اہتمام نہیں ہے۔ پچھلے سال اس سلسلے میں حکومت نے بجٹ میں بڑی کٹوتی کی تھی اور 110 کروڑ روپے سے1 کروڑ روپے پر آ گئے تھے۔ اس بار ایک کروڑ کا بھی اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق،حکومت نے غریب اور کمزور طبقوں کے طلبا کو تعلیم فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر چشم پوشی کی ہے۔

بہرحال، مودی حکومت کی حالیہ قومی تعلیمی پالیسی اور اس سے پہلے کوٹھاری کمیشن کی سفارشات کے پیش نظر اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے 6 فیصد سے کم نہیں ہونا چاہیے، لیکن سابقہ اور موجودہ حکومتیں اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

مودی حکومت نے ہر سال تعلیمی بجٹ میں کمی کرکے اس معاملے میں سب سے خراب مظاہرہ  کیا ہے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں تعلیمی بجٹ 3 فیصد یا اس سے کم رہا ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔