لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے صوتی آلودگی پھیلانا کسی ایک مذہب کا خاصہ نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے یہ معاملہ بھی ہندوستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہو گیا ہے۔
چند برس قبل، جب میں دہلی میں اپنی رہائش کےلئے فلیٹ خریدنے کی تگ ودو کر رہی تھی اور اس سلسلے میں کئی اسٹیٹ ایجنٹوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، تو معلوم ہوا کہ شہر میں جو مکانات عبادت گاہوں سے متصل ہیں، ان کی قیمتیں دیگر املاک سے نسبتاً کم ہوتی ہیں۔
دہلی جیسے گنجان آباد شہر میں، جہاں املاک کا حساب گزوں میں ہوتا ہے، یہ میرے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ گو کہ اسٹیٹ ایجنٹ یہ راز اپنے سینوں میں ہی رکھتے ہیں، مگر میری صحافتی رگ اس معاملے کے تہہ تک جانے کےلئے پھڑک اٹھی۔
سکھ ہونے کی وجہ سے میری فیملی کی پہلی پسند سکھ عبادت گاہ گوردوارے کے پاس مکان لینے کی خواہش تھی۔ معلوم ہوا کہ گوردواے کے قریب مکان کی قیمت کے کم ہونے کا سبب یہ ہے کہ گرنتھی صاحب آدھی رات کے بعد سے ہی اٹھ کر مائیک کے سامنے ٹیپ ریکارڑر رکھتے ہیں اور بھاری بھرکم لاؤڈ اسپیکروں سے پوری آبادی کو گربانی کا پاٹھ صبح ہونے تک سناتے ہیں۔ مگر خود ٹیپ ریکارڈر اور مائیک کا سوئچ آن کرنے کے بعد سو جاتے ہیں۔
لاؤڈ اسپیکر تو باہر کی دنیا کو پاٹھ سنا تا ہے، اور و ہ خود اندر اس سے محفوظ لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ان کی اس حرکت کی وجہ سے اس گوردواے کے آس پاس املاک کی قیمتیں کریش کر گئی تھیں۔ کوئی بھی بر ضا و رغبت وہاں رہنے کےلیے تیار نہیں تھا۔
یہ صرف ایک گرودراے کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ میرے ایک سینئر کولیگ، جو مسلمان ہیں، دیر رات گئے اخبار کے ایڈیشن سے فارغ ہونے کے بعد رمضان کے دنوں میں جنوبی دہلی میں واقع اپنے گھر وارد ہوتے تھے، تو سحری سے قبل چند گھنٹے سونے کےلیے لیٹ ہی جاتے تھے، کہ پاس کی مسجد سے کوئی مولوی صاحب روزہ داروں کو جگانے کےلئے لاؤڈ اسپیکرپر حمد ونعت کا سلسلہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع کرتے تھے۔
میرے سینئر کولیگ کا مکان تقریباً ہندو اور مسلمان لوکلٹی کی بارڈر پر تھا۔ ان کے ہندو مکان مالک نے بھی شکایت کی تھی کہ پاس کی مسلمان لوکلٹی کے رات بھر کے شور شرابہ کی وجہ سے ان کے بچے سو نہیں پاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اسکول جانے کےلیےعلی الصبح نہیں جاگ پاتے ہیں۔خود ان کا بھی یہی حال تھا۔
انہوں نے جب مولوی صاحب سے رابطہ کیا اور ان کو بتایا کہ وہ سحری شروع ہونے سے چند منٹ قبل روزہ داروں کو جگایا کریں، اور آدھی رات سے وقتا فوقتا اعلانات اور حمد و نعت لاؤڈ اسپیکر پر پڑھنے کا سلسلہ بند کریں، تو ان کاجواب تھاکہ؛ ہم تو صرف رمضان میں ہی رات کو لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں، ہندو تو پورا سال لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے ناک میں دم کردیتا ہے۔
یعنی مسابقت میں وہ اب ہندوؤں سے بھر پور بدلہ لے رہے تھے۔ میرے کولیگ،جو خود بھی روزہ سے رہتے تھے، نے ان کو عفو درگذر وغیر ہ کی تعلیم دینی شروع ہی کی تھی کہ مولوی صاحب کا پارہ چڑھ گیا اور وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر گھر لوٹے۔
دہلی میں اپنے ابتدائی سالوں کے دوران میں پرانے راجندر نگر نامی علاقے میں رہتی تھی۔ اس علاقے میں سول سروسز کی تیاری کرنے والوں کے لیے کچھ بہترین کوچنگ سینٹرز ہیں۔ دہلی کے سب سے بڑے اسپتالوں میں سے ایک سر گنگا رام اسپتال بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ علاقے کے تقریباً ہر گھر نے اپنے گھر کا ایک حصہ ان طلبا یا نرسوں کو کرا یہ پر دے رکھا ہے جو وہاں پڑھنے یا کام کرنے آتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ کس طرح یہ طالب علم اور ہسپتال کی نرسیں مندر یا گرودوارے کے قریب مکان کرایہ پر نہ لینے کو ترجیح دیتے تھے۔ رات گئے تک جاگنے والے طلباء اور رات کی ڈیوٹی کے بعد واپس آنے والی نرسوں کے لیے صبح سویرے مندر کی گھنٹیاں اور لاؤڈ اسپیکر پر زور سے بھجن بجنے کی آواز اور گرودواروں سے گروبانی کا پاٹھ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ ہوتی تھیں۔
یہ طلباء اور نرسیں مندر یا گرودوارہ کے خلاف نہیں تھیں، بلکہ ان اداروں کی طرف سے عبادات کے وقت استعمال کیے جانے والے لاؤڈ اسپیکر کی آوازوں کی وجہ سے دقت محسوس کرتے تھے۔
لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے صوتی آلودگی پھیلانا کسی ایک مذہب کا خاصہ نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے یہ معاملہ بھی ہندوستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہو گیا ہے۔ جنونی ہندو فرقہ پرست اس وقت مساجد میں اذان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب ان کو کون بتائے کہ اپنے دامن کے اندر بھی تو جھانک کر دیکھو۔ یہ اذان تو بس چند منٹ ہی ہوتی ہے۔
ہر شام جب آفس یا مزدوری کرنے کے بعد تھکے ہارے لوگ گھروں کو آکر بس تھکن مٹانا ہی چاہتے ہیں کہ علاقے کے مندر کا لاؤڈ اسپیکر جاگ جاتا ہے اور رات گئے تک آرتی براہ راست گھروں میں نشر ہوتی رہتی ہے۔ رام نومی یا دیگر جلوسوں میں کس طرح ڈی جے اونچی آوازوں میں بجائے جاتے ہیں اور اگر اس جلوس کو کسی مسلم علاقے سے گزرنا ہے، تو وہاں ڈی جے کی آواز کچھ زیادہ ہی اونچی کی جاتی ہے۔ دسہرہ سے قبل تو ہر لوکلٹی میں رامائن کے ڈرامہ پوری رات بھر اسٹیج ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں ہر مہینے کوئی نہ کوئی مذہبی تقریب ہو رہی ہوتی ہےاور یہ تہوار کسی شادی سے کم نہیں ہوتے ہیں ۔ جنوری میں مکر سنکرانتی یا لوہڑی سے شروع ہو کر بسنت پنچمی، ہولی، رام نومی، بیساکھی، گنیش چترتھی، درگا پوجا، دیوالی اور متعدد دیگر دیوی دیوتاؤں کی سالگرہ منانے تک، ہندوستانی تہوار کلینڈر میں ہر مہینے تہوار ہوتے ہیں۔
ہر گروہ تقریبات منانے میں دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے۔ تقریب کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ کس نے کتنا ٹریفک جام کیا اور کس قدر لوگوں کو تکلیف پہنچائی۔ کیونکہ جام ہونے اور گھر دیر سے پہنچے کی صورت میں ہی عام آدمی یہ پوچھتا پھرتا ہے کہ آج کون سا دن تھا۔
حیرت تو مجھے اس بات پر ہے کہ اس صوتی آلودگی کو بھی مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزماحول تیار کرنے کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔
ذاتی طور پر میں کسی بھی مذہبی ادارے کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے مکمل خلاف ہوں۔ مذہب اور خدا سے تعلق میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں کسی بھی مندر یا گرودوارہ کے لاؤڈ اسپیکر سے بیدار ہونا پسند نہیں کرتی ہوں۔
اس تنازعہ کے شروع ہونے کے چند دن بعد ہی کشمیر میں رہنے والے ایک دوست سے اس پر گفتگو کر رہی تھی۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہیں اور ان کے گھر کے قریب چار مساجد ہیں۔ اس نے مذاق میں بتایا کہ اذان کے وقت ایسا لگتا ہے کہ تمام مؤذن آپس میں مقابلہ کررہے ہیں ۔
پھر یہ چاروں مساجد پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے الگ الگ اذانیں دیتے ہیں۔ یعنی اگر سلسلہ ظہر کی اذان کا ہے، تو عصر تک جاری رہےگا، اور اگر عصر کی نماز کا بلاوا ہے، تو مغرب تک اذانوں کا سلسلہ جاری رہےگا۔ فجر کے وقت تو لگتا ہے مسابقت کا دور چل رہا ہے۔
میرے دوست کا کہنا تھا کہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ شہر جس کی آباد ی تقریباً ساٹھ لاکھ ہے، بس ایک ہی وقت پورے شہر میں ایک ہی اذان دی جاتی ہے اور پھر مساجد نماز و خطبہ کےلیے اندورنی لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ مذہبی مقامات کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا معاملہ بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ لیکن پریشان کن بات تو یہ ہے حکومت کی شہہ پر چند عناصر اس کی آڑ میں ایک مذہبی اقلیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ باضابطہ ایک قانون بناکر سبھی مذہبی اداروں پر لازم قرار دیں کہ تقریبات، پاٹھ، خطبوں و واعظ وغیرہ کےلیے بس اندرونی لاؤڈ اسپیکر ہی استعمال کیا کریں۔
ممبئی میں مقیم ڈاکٹر مہیش بیڈیکر، جو صوتی آلودگی کے سرگرم کارکن بھی ہیں، کہتے ہیں،یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ لیکن کوئی سیاسی جماعت اس معاملے کو حل کرنے کی خواہش نہیں رکھتی۔ صحت کے خدشات کو دیکھنے کے بجائے سیاسی جماعتیں اس معاملے پر صرف سیاست کر رہی ہیں جبکہ عوام اس کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہے۔
مشہور مزاحیہ شاعر ساغر خیامی نے کیا خوب کہا تھا؛
نفرتوں کی جنگ میں دیکھوتوکیا کیاکھوگیا
سبزیا ں ہندو ہوئیں، بکرا مسلماں ہوگیا
اگر وہ آج زندہ ہوتے، تو دیکھتے کہ کیسے لاؤڈ اسپیکر بھی مسلمان ہوگیا ہے۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر