سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق، مئی میں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 7.1 فیصد رہی۔ اعداد و شمار بنیادی طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ مناسب نوکری نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہوکر کام کرنے کی عمر کے 90 کروڑ ہندوستانیوں میں سے نصف،بالخصوص خواتین نےنوکریوں کی تلاش ہی چھوڑ دی ہے۔
یہ ایک افسوسناک اور المناک صورتحال ہے کہ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون یعنی مہاتما گاندھی نیشنل رورل امپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا)، ایک ایسی سرکاری اسکیم جو غریب بالغوں کے لیے سال بھر میں 100 دنوں کی اجرت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے، کے ملازمین کو ریگولرائز کرنے اورتنخواہ میں اضافے کی مانگ کو لے کرمتعدد ریاستوں کو ہڑتال پر جانا پڑا ہے۔
راجستھان حکومت نے تمام ضلع کلکٹروں کو منریگا کے کانٹریکٹ ملازمین کی ہڑتال کی مدت کے لیے اعزازیہ کی ادائیگی کو رد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ اسکیم روزگار میں گراوٹ، بجٹ میں کٹوتی، تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر اور مزدوروں کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کا شکار ہے۔ منریگا کی حالت درحقیقت ملک کی بے روزگاری کی صورتحال کا اشاریہ ہے۔
حال ہی میں ممبئی واقع آزاد ادارہ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) نے انکشاف کیا ہے کہ مئی میں ہندوستان کی بے روزگاری کی شرح 7.1 فیصد تھی۔ بے روزگاری کی شرح کام کرنے کی عمر کی آبادی کے تناسب کی نشاندہی کرتی ہے جو کام کے ذریعےمزدوری حاصل کرنے کے لیے ملازمت کرنا چاہتی ہے، لیکن روزگارحاصل کرنے سے قاصر ہے۔
اپریل میں شہری بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 9.22 فیصد ہو گئی، جو مارچ میں 8.28 فیصد تھی۔ دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح اپریل میں 7.18 فیصد تھی جو مارچ میں 7.29 فیصد تھی۔
سی ایم آئی ای کے مطابق، ہریانہ ریاست34.5فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے بعد راجستھان میں 28.8 فیصد، بہار میں بے روزگاری کی شرح 21.1 فیصد ہے۔ دیگر ریاستیں اور علاقے جو دوہرے ہندسے کی بے روزگاری کی شرح درج کرتے ہیں، ان میں گوا (15.5فیصد)، جموں و کشمیر (14.2فیصد)، تریپورہ (14.6فیصد)، اور جھارکھنڈ (14.2فیصد) شامل ہیں۔
مئی 2020 میں بے روزگاری اپنے عروج پر 23.7فیصد (شہری 26فیصد اور دیہی 22فیصد) تھی، جس کی بنیادی وجہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن کے منفی اثرات تھے۔ اب ٹھیک دو سال بعدبے روزگاری ایک بار پھر وہیں ہے جہاں جنوری-فروری 2020 میں تھی یعنی 7.2 فیصد پر۔
اعداد و شمار بنیادی طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ مناسب نوکری نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہوکر کام کرنے کی عمر کے 90 کروڑ ہندوستانیوں میں سے نصف، بالخصوص خواتین نےنوکریوں کی تلاش ہی چھوڑ دی ہے۔
سال 2017 سے 2022 تک مزدوروں کی شرکت کی مجموعی شرح 46فیصد سے کم ہو کر 40فیصد ہو گئی ہے۔
سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کو لازمی طور پردیکھنا اور سمجھنا چاہیے کیونکہ حکومت اپنے اعداد و شمار باقاعدگی سے جاری نہیں کرتی ہے۔
تاہم، قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کے پیریوڈک لیبر فورس سروے میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر-دسمبر 2021 میں شہری علاقوں میں بے روزگاری گھٹ کر 8.7 فیصدہو گئی، جو پچھلے سال 10.3 فیصد تھی۔
اقتصادی امور کےماہرین کا کہنا ہے کہ سست گھریلو مانگ اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے درمیان معاشی بحالی کی سست رفتار نے روزگار کے مواقع کو متاثر کیا ہے۔خاص طور پر ملک میں لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے اثرات کی وجہ سے اکتوبر-دسمبر 2020 میں بے روزگاری بہت زیادہ تھی۔
کئی اسٹریٹجک مداخلتوں کے باوجود نوکری چاہنے والوں کی سالانہ نمو کو بڑھانے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔
سی ایم آئی ای کے اندازے کے مطابق، روزگار–آبادی کی شرح 38 فیصد سے کم ہے۔ یہ فیصد ہر سال لیبر فورس میں داخل ہونے والی کام کرنے کی عمر کی آبادی کے لیے اچھے معیار کی ملازمتوں کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
منریگا کے بنیادی مقاصد اب تک نامکمل ہیں
نریندر مودی کی حکومت نے 26 مئی کو آٹھ سال مکمل کر لیے۔ کسی بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کو ظاہر کرنے کے لیے آٹھ سال کا وقت کافی ہونا چاہیے۔ ان تمام معاشی اشاریوں کے بیچ جو بنیادی سطح پر لوگوں متاثر کرتا ہے، وہ ہے روزگار۔
تقریباً سات سال پہلے، وزیر اعظم مودی نے منریگا کو ’60 سال کی ناکامی کی یادگار’ کہا تھا۔ لیکن، اقتصادی سروے 2021-22 سے پتہ چلتا ہے کہ اس اسکیم کی مانگ زیادہ ہے۔ بہت سی ریاستوں نے اس اسکیم کو کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران اپنے آبائی گاؤں لوٹنے والے تارکین وطن کارکنوں کے لیے ‘زندگی بچانے والا’ قرار دیا ہے۔
ہر نئے بجٹ کے ساتھ منریگا کے لیے کل مختص رقم کو کم کیا گیا ہے۔ منریگا اسکیم کے لیے ناکافی بجٹ نے ریاستوں کے لیے دیہی علاقوں میں ان لوگوں کو خاطر خواہ کام فراہم کرنا مشکل بنا دیا ہے جو روزگار کی گارنٹی کی اسکیم پر انحصار کرتے ہیں۔
اسکیم کی زیادہ مانگ کے باوجود مالی سال 2022-23 کے لیے بھی اس اہم دیہی روزگار پروگرام کو پچھلے مالی سال (98000 کروڑ روپے) کے مقابلے تقریباً 25000 کروڑ روپے کی کم رقم مختص کی گئی ہے۔
مزدوروں کے حقوق کے گروپ ‘پیپلز ایکشن فار امپلائمنٹ گارنٹی’ کے ذریعہ تیار کردہ منریگا ٹریکر سے پتہ چلتا ہے کہ 17 کروڑ رجسٹرڈ جاب کارڈز میں سے صرف 9.7 کروڑ کارڈ 1 اپریل سے 30 ستمبر 2021 کے درمیان فعال تھے۔ ایک جاب کارڈ کواس وقت فعال سمجھا جاتا ہے جب اسے پچھلے تین سالوں میں کم از کم ایک بار بھی رجسٹر کیا گیا ہو۔
اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تقریباً 1.5 کروڑ خاندان جنہوں نے جاب کارڈ کے لیے درخواست دی تھی، انہیں کارڈ بھی جاری نہیں کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 6فیصد گھرانوں کو منریگا کے تحت 80 دن سے زیادہ کا کام ملا، حالانکہ قانون ہر دیہی خاندان کے لیے کم از کم 100 دن کے روزگار کی ضمانت دیتا ہے۔
ان غریب دیہی خاندانوں کے پاس کام کا تقریباً کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اسٹریٹجک اقدامات کے ذریعے اس سے نمٹنے کی کوشش کرے ، حکومت درحقیقت یہ تسلیم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے کہ وہ بے روزگاری کے بحران کا سامنا کررہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دیہی تبدیلی کے ایک آلے کے طور پرمنریگا کی حقیقی صلاحیت ابھی پوری طرح سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوئی ہے۔
وزارت محنت اور روزگار نے سی ایم آئی ای کی رپورٹ کو’حقائق کے نقطہ نظر سے غلط’ قرار دیا ہے۔ مرکزی وزیر محنت بھوپیندر یادو نے اکتوبر-دسمبر 2021 کی مدت کے لیے سہ ماہی روزگار سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے سی ایم آئی ای کے نتائج کی مخالفت کی، جس میں صرف منتخب منظم شعبوں میں ہی روزگار کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ملک میں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو اچھے کام کی تلاش میں ہیں تو دوسری طرف بنیادی عوامی خدمات کے لیے اساتذہ، نرسوں اور دیگر عملے کی شدید کمی ہے۔ کووڈ سے متعلقہ رکاوٹیں، غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کی کمی اور دیگر جغرافیائی سیاسی غیریقینی صورتحال کو بنیادی طور پر منفی اقتصادی رجحان کے لیے ذمہ دار بتایا جا رہا ہے، جس نے روزگار کو متاثر کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وبائی مرض نے چھوٹے ہندوستانی اسٹارٹ اپس اور چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (ایم ایس ایم ای) کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے 2020 اور 2021 میں بڑے پیمانے پر چھٹنی ہوئی اور کاروبار بند ہو گئے۔ لیکن اس سے پہلے 2016 میں نوٹ بندی اور 2017 میں اشیا اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کی جلدبازی میں میں نفاذ سے غیر رسمی شعبے میں ترقی رک گئی تھی، صنعتی پیداوار میں کمی آگئی تھی اور نوکریاں غائب ہوگئی تھیں۔
اگرچہ حکومت نے اسٹارٹ اپس یا پیٹنٹ کی درخواست کے عمل کو رجسٹر کرنے کے لیےانتظامی طریقہ کار کو آسان کر دیا ہے، پھر بھی حکومت یا ہندوستانی کارپوریٹس کے ساتھ کاروبار کرنا اور بروقت ادائیگی وصول کرنا اسٹارٹ اپس اورایم ایس ایم ای کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ جی ایس ٹی کی متعدد شرحیں اور ٹیکس کا بوجھل عمل چھوٹے کاروباروں کے لیے بڑے مسائل ہیں۔
وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے حال ہی میں جاری اپنی رپورٹ میں تجویز پیش کی ہے کہ حکومت کو شہری بے روزگاروں کے لیے روزگار کی ضمانت کا پروگرام شروع کرنا چاہیے اور آمدنی کے فرق کو ختم کرنے کے لیے ایک یونیورسل بیسک انکم (یو بی آئی) اسکیم متعارف کرانی چاہیے۔
کیرالہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، اڑیسہ اور حال ہی میں راجستھان کی ریاستی حکومتوں نے شہری بے روزگاروں کے لیے ریاستی بنیاد پر خصوصی اسکیمیں متعارف کروائی ہیں، تاکہ وہ اچانک پیدا ہونے والے اقتصادی چیلنجز کا سامنا کرنے کےلائق بن سکیں۔ یہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے ابھی دیکھنا باقی ہے۔
(ویشالی بسو شرما اسٹریٹجک اور اقتصادی امور کی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے تقریباً ایک دہائی تک قومی سلامتی کونسل کے سکریٹریٹ کے ساتھ کام کیا ہے۔)
Categories: فکر و نظر