خبریں

سہارنپور تشدد: ملزمین کو موصول ہوئے گھر توڑے جانے کے نوٹس، متاثرین نے کہا – انتقامی کارروائی

بی جے پی لیڈروں کی جانب سے پیغمبر اسلام پر تبصرہ کرنے کے بعد منعقد مظاہرے  کے دوران سہارنپور میں پیش آنے والے تشدد کے واقعات میں ملزم بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کو گھر توڑے جانے سے متعلق  نوٹس مل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹس  کا 10 جون  یعنی تشدد کے دن ہی جاری  ہونا ان پر سوال کھڑے کرتا ہے۔

سہارنپور میں بلڈوزر کے ذریعے توڑے گئے  مکان کا کچھ حصہ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

سہارنپور میں بلڈوزر کے ذریعے توڑے گئے  مکان کا کچھ حصہ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: پیغمبر محمد کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل رہنما نوپور شرما کے توہین آمیز ریمارکس کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران 10 جون کو اتر پردیش کے سہارنپور میں پیش آئے تشدد کے واقعات کے کئی ملزمین کے اہل خانہ کو اس ہفتے تازہ وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

سہارنپور میں تشدد کے بعد 80 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ابھی تک پولیس کی حراست میں ہیں کیونکہ تفتیش جاری ہے۔ اس سے قبل شہر میں ملزمین کے دو گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

نوٹس سہارنپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی اے) کے ایک جونیئر انجینئر اور ایک اسسٹنٹ انجینئرکی جانب سے  جاری کیے گئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمین کی جائیدادیں اتر پردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 14 کے اہتماموں کی خلاف ورزی کرتی  ہیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ جائیدادیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں لہٰذا اہل خانہ کو 24 جون کو ایس ڈی اے کے سامنے پیش ہونا ہوگا ، وجہ بتانا ہوگا  اور اپنا موقف بیان کرنا ہوگاکہ ان کی جائیدادوں کو زبردستی کیوں نہیں گرایا جانا  چاہیے۔

نوٹس پر ایس ڈی اے کے سکریٹری کے دستخط ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر وہ (خاندان) ایس ڈی اے کے سامنے پیش نہیں ہوتے ہیں تو ایس ڈی اے قانون کے تحت ان کی جائیدادیں  کو توڑ دے گا۔

دی وائر نے ایسے چھ معاملات کی نشاندہی کی ہے جن میں نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مزید معاملے سامنے آرہے ہیں اور ایسی صورتحال میں فی الحال صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔

ملزمین کے اہل خانہ کو ملا ایک نوٹس۔ ملزم کا نام اور پتہ حذف کر  دیا گیا ہے۔

ملزمین کے اہل خانہ کو ملا ایک نوٹس۔ ملزم کا نام اور پتہ حذف کر  دیا گیا ہے۔

جن لوگوں کو نوٹس دیے گئے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ملزمین ہیں جن کا نام سہارنپور پولیس نے تشدد کے معاملے میں درج ایف آئی آر میں درج کیا ہے۔

معاملے میں درج ایف آئی آر میں 31 افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور 200-300 نامعلوم افراد کو ملزم بنایا گیا ہے، جن پر غیر قانونی  طورپر اکٹھا ہونے، قتل کی کوشش اور فسادات سمیت دیگر الزامات ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دی وائر کے ذریعے جانچ کیے گئے نوٹس 10 جون کے ہیں، اسی دن احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا اور تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا۔ متاثرین اور وکلاء کا الزام ہے کہ یہ نوٹس ملزمان اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے لیے بیک ڈیٹ سے جاری کیے گئے ہیں۔

کیا نوٹس پہلے سے تیار رکھے گئے تھے؟

ملزمین کے اہل خانہ ان کی جائیدادوں پر بلڈوزر سے کارروائی کے خلاف اپنا ردعمل درج کرانے کے لیے وکلاء کی ایک ٹیم کے ساتھ  رابطے میں ہیں۔

وکلاء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر کو بتایا، نوٹس 10 جون کو تیار کیے گئے تھے، اسی دن شہر میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ہم نوٹس کی صحیح تعداد نہیں بتا سکتے کیونکہ لوگ لگاتار آ رہے ہیں اور ہمیں نوٹس ملنے کے بارے میں  بتا رہے ہیں کہ انہیں کب نوٹس ملے ہیں۔ تاہم 10-15 لوگوں کو نوٹس موصول ہوئے ہیں۔

وکلاء نے بتایا کہ،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ میونسپل کارپوریشن سے متعلق ایکٹ 1991 میں بنایا گیا تھا۔ تاہم، لوگ ان گھروں میں سہارنپور ڈسٹرکٹ اتھارٹی کے بننے سے پہلے سے رہ رہے ہیں۔  پھر اتھارٹی کے  پاس لوگوں کےگھروں  کو تباہ کرنے کا اختیار کیسے ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ،اگر ایف آئی آر اسی دن درج کی گئی ہے تو اسی دن شو کاز نوٹس کیسے دیا گیا؟ تشدد والے دن  ہی نوٹس کیسے جاری کیے جا  سکتے ہیں؟ کیا ایس ڈی اے کو پہلے سے ہی اس (تشدد) کا علم تھا؟

10 جون کو سہارنپور میں مظاہرین کے ساتھ پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

10 جون کو سہارنپور میں مظاہرین کے ساتھ پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ملزم کے اہل خانہ کا جواب

محمد فرحان* کو 10 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خاندان کی جائیداد سے متعلق وجہ بتاؤ نوٹس ان کے گھر والوں کو ملاہے جس میں ان کے گھر کے گراؤنڈ فلور کے 50 فٹ  کےرقبے پر اعتراض  کیا گیاہے۔

فرحان کی والدہ نے ایس ڈی اے کو لکھے گئے خط میں اس قدم پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایس ڈی اے کا نوٹس بغض اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

جونیئر انجینئر کو21 جون کو لکھے گئے اپنے خط میں وہ کہتی ہیں کہ مکان ملزم کے نام نہیں ہے، بلکہ ان کے نام ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں جس 50 فٹ کے رقبے کا ذکر کیا گیا ہے، اس پر ایس ڈی اے کے قانون یا یوپی اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کی دفعات نافذ نہیں ہوتی ہیں۔

مزید، انہوں نے اتھارٹی پر الزام لگایا کہ وہ خصوصی طور پر مظاہرے کے سلسلے میں 10 جون کو گرفتار کیے گئے لوگوں کو  نشانہ بنا رہی ہے۔ انجینئر پر جائیداد کی ملکیت کی تفصیلات کی تصدیق نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے لکھا، ایسا لگتا ہے کہ جونیئر انجینئر جانتے تھے کہ ایف آئی آر میں کن کا نام درج ہوگا۔

وکلاءنے کہا کہ جن خاندانوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں وہ طویل عرصے سے اپنے گھروں میں مقیم ہیں اس لیے ان کی املاک کو اچانک نشانہ بنانا سوالات کو جنم دیتا ہے۔

محمد انیس* کے بھائی محمد اذان* کو بھی اس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ہم کرایہ پر رہتے ہیں۔ جس گھرکے بارے میں نوٹس بھیجا گیا ہے، اس میں ہمارے چچا  میں رہتے ہیں۔ نوٹس 21 جون کو موصول ہوا۔ کیا کوئی ہمارے سامنے یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ (محمد اذان) احتجاج کا حصہ تھا؟ یہ صرف ہمیں تنگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ خاندان اب قانونی مدد لے رہا ہے۔

ایک اور ملزم شمیم کی والدہ نے تصدیق کی کہ ان کےاہل خانہ کو نوٹس ملا ہے۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ہمیں نوٹس ملا ہے۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟ ہمارے وکلاء کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے۔ اس طرح  کا نوٹس ہمیں پہلے کبھی نہیں دیا گیا۔

غور طلب ہے کہ مظاہرے کے بعد پیش آئے تشدد کے بعد اتر پردیش میں ملزمین کے گھروں کو گرانے کی مہم چلائی جا رہی ہے، جس کے تحت 12 جون کو الہ آباد میں جے این یو کی اسٹوڈنٹ اور سی اے اے مخالف کارکن آفرین فاطمہ کے گھر کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ یہ کارروائی پولیس نے ان کے والد جاوید محمد کو  10 جون کے الہ آباد تشدد کا کلیدی  ملزم نامزد کرنے کے بعد کی گئی تھی۔

اسی طرح 11 جون کو سہارنپور میں بھی بلڈوزر کارروائی کی گئی تھی۔ اس معاملے میں دو مقامی باشندوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد ان کے مکانات کو غیر قانونی تعمیرات بتا کر مسمار کر دیا گیا تھا۔ کانپور میں بھی دو ملزمین کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلائے گئے تھے۔

بتادیں کہ 13 جون کو جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ یوگی حکومت کو ان کارروائیوں سے روکا جائے۔

پچھلی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت سے کہا تھا کہ وہ ‘قانون کے مطابق کارروائی کو چھوڑ کر’باقی کوئی بھی توڑ پھوڑ کی مہم نہ کریں اور اور حکومت کو عدالت کے سامنے یہ بتانے کے لیے تین دن کا وقت دیا تھا کہ حالیہ مہم ‘قانون کے تحت’ اور میونسپل قوانین پر عمل کرتے ہوئے انجام دی گئی تھی۔

دی وائر نے سہارنپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے رابطہ کیا، ان کا کوئی ردعمل  نہیں ملا۔ جواب موصول ہونے پر اسے اس رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

(*بعض افراد کے نام ان کی پہچان مخفی رکھنے کے لیے تبدیل کیا گیا ہے۔)

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)