حال ہی میں مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات نے کئی پرائم ٹائم ٹی وی اینکروں اور بڑے چینلوں کے مدیران کو اس بات پر تبادلہ خیال کے لیے بلایا کہ کیا نیوز چینلوں پر فرقہ واریت اور پولرائزیشن کو فروغ دینے والے مباحث کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وزیر موصوف واضح طور پر غلط جگہ پر علاج کا نسخہ آزما رہے ہیں جبکہ اصل بیماری ان کی ناک کے نیچے ہی ہے۔
کچھ دن پہلےمرکزی وزیر اطلاعات و نشریات نے ایک درجن سے زیادہ پرائم ٹائم ٹی وی اینکروں کے ساتھ ساتھ بااثر نیوز چینلوں کےسینئر مدیران کو اس بات پر تبادلہ خیال کے لیے بلایا کہ کیا مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے والے اور حددرجہ پولرائزکرنے والے مباحث کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس درخواست نے بہت سے سینئر ٹی وی اینکروں کو حیران کر دیا، جن کا خیال تھا کہ پولرائزیشن کی بحث وہی ہے جو اقتدار ہمیشہ سے چاہتی ہے، اور درحقیقت اسی پر پھل پھول رہی ہے، چاہے بات اسمبلی انتخابات سے پہلے کی ہو یا بعد کی۔
اتر پردیش میں ایک فیصلہ کن جیت کے بعد دائیں بازو کے ایکو سسٹم کو اقتدار کی سرپرستی ملی ۔ فلم کشمیر فائلز ، کرناٹک میں حجاب کا واقعہ، شمالی ہندوستان میں کئی مقامات پر مسلم مظاہرین کو بلڈوزر سے نشانہ بنانے اور بالآخر گیان واپی مسجد کے بارے میں احتیاط سے تیار کی گئی مہم نے یوپی انتخابات کے بعد کئی مہینوں تک نیوز چینلوں کو مصروف رکھا۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ ٹی وی چینلوں کےمدیروزیر موصوف کی ہندو مسلم کشیدگی سے متعلق مواد کو کم کرنے کی درخواست پر پوری طرح سے حیران تھے۔
انہوں نے کچھ مدیران سے یہاں تک پوچھا کہ کیا پولرائزنگ کی بحث ان کے ناظرین کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہیں اور کیا وہ ان کے بزنس ماڈل کا حصہ بن گئے ہیں۔ مثالی طور پر تو وزیرموصوف کو یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ سے بھی یہ پوچھنا چاہیے کہ یوپی انتخابات کے لیے ان نیوز چینلوں میں اشتہارات کی کتنی رقم لگائی گئی تھی۔
تو، ٹی وی بحث کے مواد کے بارے میں سرکاری رویے میں اس اچانک تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ ظاہر ہے، اس کا تعلق نوپور شرما کے واقعہ سے پیدا ہونے والے تنازعہ سے ہے، اور کیسے اس واقعہ نے ملک کی اقلیتوں اور آئینی آزادی کے تئیں حکمراں جماعت کے رویے کے بارے میں ایک بین الاقوامی رائےبنا دی ہے۔
اس نئے احساس کی ایک گھریلو سیاسی جہت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک وقت کے بعد اکثریتی سیاست کم رٹرن دینے لگتی ہے۔پارٹی کے معطل قائدین نوپور شرما اور نوین جندل کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے ، اس سے آن لائن اور آف لائن دونوں طرح کے دائیں بازو کے ‘جنگجو’ بی جے پی کی قیادت سے مایوس ہیں۔
اس سلسلے میں ہندوتواایکو سسٹم میں واضح طور پر کچھ اختلاف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پارٹی قیادت ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپنے وسیع تر پریوار کے کیڈروں کو ‘کولنگ آف’ مدت دینا چاہتی ہو۔ ہو سکتا ہے اس کی شروعات آر ایس ایس کے سربراہ کے ‘ہر مسجد کے نیچے شیولنگ کی تلاش بند کرنے’ کی اپیل کے ساتھ ہوئی ہو۔
کیا یہ قدرے عجیب نہیں ہے کہ گیان واپی کے بارے میں ٹی وی اسکرینوں پر ہونے والی بحثیں اچانک کم ہو گئی ہیں۔ ایک وقت پر یہ ایشو 24/7 چینلوں پر حاوی تھا۔ پچھلے آٹھ سالوں میں سنگھ پریوار نے کسی بھی ایشو پر پولرائز کرنے کی مہم چلانے کے فن میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ فرینڈلی میڈیا کی مدد سے اس طرح کی مہم کا تیزی سے اس کی انتہا پرپہنچنا اسی مہارت کی ایک شکل ہے۔
ماحول بنانے کی اس کوشش میں ہندوتوا کارکنوں کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔ نوپور شرما کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ آسانی سے کسی فرقہ وارانہ مہم کی یہ صلاحیت بعض اوقات انتہائی منفی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن اس ایکو سسٹم کے وسیع تر کیڈر کے چھوٹے مراکز کو کنٹرول کرنا ناممکن سا ہے اورایسے میں ہی یہ پولرائزنگ مہم وزیر اعظم کو بھاری پڑ جاتی ہیں۔
نریندر مودی اس ایکو سسٹم کے کارناموں کی شاذ و نادر ہی مذمت کرتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو وہ اپنی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کی پرواہ کرتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار شیو وشواناتھن تشدد کو ‘ایوری ڈےنیش’ یعنی ‘روزمرہ کی زندگی میں شامل’ ہو جانے کی بات کہتے ہیں، جہاں بربریت ایک مستقل واقعہ بن جاتی ہے۔ لیکن اس بربریت کو ایک بکھرے ہوئے ایکو سسٹم میں کنٹرول نہیں کیا جا سکتا جہاں تشدد پر حکومت کی بھی کچھ اجارہ داری ہے۔ قانون واضح طور پر ہندو دائیں بازو کے شدت پسندکارکنوں کے لیے نرمی کا معاملہ کرتا نظر آتا ہے۔
اگر اطلاعات و نشریات کے وزیر اب ٹی وی میڈیا سے فرقہ وارانہ پولرائزنگ مباحثوں کو کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں تو وہ واضح طور پر غلط سرے کو پکڑ رہے ہیں۔ اس طرح کی کوششیں سنگھ پریوار کے ایکو سسٹم سے شروع ہونی چاہیے، جو کئی سالوں سے اپنے عروج پر ہے، خاص طور پر 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے بعد سے۔
آن لائن نفرت کی یہ نوعیت اور اس کا جلد ہی آف لائن تشدد میں بدل جانا بھی ‘روزمرہ کی بربریت’ کا حصہ ہے۔ سنگھ کو کھلے طور پر ہندو اکثریت کو ‘مظلوم’ بتانے کے جھوٹے دعووں کو کم کرنے کی ضرورت ہے، جن کو کئی ٹی وی چینلوں کے ذریعے مسلسل بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ دائیں بازو کاایکو سسٹم جانتا ہے کہ آج اس کے پاس اکثریت کے جذبات کو بھڑکانے اور ہندوؤں کے بیچ ان کے ‘مظلوم ‘ ہونے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے تمام ذرائع موجود ہیں۔ یہ ہندی بولنے والی شمالی اور وسطی ریاستوں کا سچ ہے، جہاں اکثریت کے مظلوم ہونے کے خیال نےجڑ پکڑ لیا ہے۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے چند سال قبل وگیان بھون میں اپنے خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ ہندو سماج کے مسائل ان کے اندر موجود ہیں اور اس کا الزام ہمیشہ اقلیتی مذہبی گروہ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ حقیقت کا ایک نادر اعتراف تھا۔
لیکن زمین پر کوئی ٹھوس تبدیلی نہیں آئی۔
درحقیقت حالات مزید خراب ہو گئے ہیں کیونکہ اکثریتی ایجنڈوں میں نئی دراڑیں پیدا ہونے کا خطرہ بھی شامل ہے، جن میں سے ایک اقلیتوں میں بنیاد پرستی ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ سنگھ پریوار ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اپنی مستقبل کی حکمت عملی پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ٹی وی پر زہریلی بحثیں محض ایک علامت ہیں، سیاست اور معاشرے کو کھارہی بیماری کہیں اور ہے۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر