بہار میں حالیہ سیاسی پیش رفت 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ملک کی سیاست کو بدلنے کا مادہ رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو بی جے پی کے پاس سات پارٹیوں کے اس مہا گٹھ بندھن کو لے کر فکر مند ہونے کی ہر وجہ ہے۔
بہار میں حالیہ سیاسی پیش رفت 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ملک کی سیاست کو بدلنے کامادہ رکھتی ہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور ریاست میں بنی نئی حکومت میں راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بائیں بازو نتیش کی حمایت کے بعدایک ساتھ آ گئے ہیں۔ اعدادوشمار واضح طور پر نئے مہا گٹھ بندھن کے حق میں ہے۔ جنتا دل (یونائیٹڈ) کے پاس 45 سیٹیں ہیں، جبکہ آر جے ڈی اور کانگریس کے پاس 79 اور 19 سیٹیں ہیں، جو انہیں 122 سیٹوں کے اکثریتی اعدادوشمارسے کہیں آگے لے گئی ہیں۔ اگلا اسمبلی انتخاب 2025 میں ہوناہے، جس کا مطلب ہے کہ نئے مہا گٹھ بندھن کے پاس اقتدارکےتین سال ہوں گے۔
نتیش کا بی جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن توڑنے کے بعد مہاگٹھ بندھن میں لوٹنا بی جے پی کے لیے بری خبر ہے، جو اب بہار میں ایک اکیلے کھلاڑی کے طور پر رہ گئی ہے۔ پارٹی نے ہمیشہ نتیش کے کندھوں پر سوار ہو کر انہیں کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کو لے کر وہ 2020 کے بہار اسمبلی انتخاب میں اس وقت تنقید کا نشانہ بھی بنی تھی، جب لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی)، جو اصل میں جے ڈی (یو) – بی جے پی اتحاد کا حصہ تھی، نے اکثر نشستوں پر اپنے امیداوار دیےاور نتیش کی جے ڈی (یو) کو نقصان پہنچایا۔ ایل جے پی کے رہنما چراغ پاسوان ہیں، لیکن یہ مانا جاتا رہا ہے کہ وہ نتیش کو کمزور کرنے کے لیے بی جے پی کے ایجنڈے میں مدد کر رہے تھے۔
نتیش اسی وقت سے اس دھوکے کا درد لیے بیٹھے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ان کے قریبی ساتھی اور مشیر آر سی پی سنگھ، جنہوں نے بی جے پی میں شامل ہونے کا اشارہ دیا تھا، کاجے ڈی (یو) سے استعفیٰ آخری وار تھا۔ نتیش نے جے ڈی (یو) میں بھی شیوسینا جیسی تقسیم دیکھی، جو دہلی میں بی جے پی کے اشارے پر ہو رہی تھی۔اس ہوشیار لیڈر نے شاید اسے ایک وجودی بحران سمجھا اور بی جے پی کو چھوڑ کر اسی مہا گٹھ ندھن میں واپس آنے کا فیصلہ کیا، جس نے 2015 میں اچھا انتخابی مظاہرہ کیا تھا۔
نتیش کا یہ قدم قومی نقطہ نظر سے دلچسپ ہے کیونکہ بہار میں ذات پات ایک اہم پہلو ہے اور یہ ریاست اتر پردیش کی طرح ہندوتوا کی زد میں نہیں ہے۔ بہار میں 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں مہاگٹھ بندھن آسانی سے بی جے پی کوہراسکتی ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کو ملا فائدہ 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں بہار میں زیادہ کام نہیں آئے گا۔
شرط صرف یہ ہے کہ نتیش کمار اور تیجسوی یادو اس وقت تک اتحاد اور انتظامی ہم آہنگی کو برقرار رکھیں۔ اگر بی جے پی کو شکست دینے کی تمنا ہے تو یہ مہاگٹھ بندھن اگلے دو سال تک ایک مستحکم گٹھ بندھن ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ نتیجہ اخذ کرنا منطقی ہے کہ تیجسوی اس بار، کم از کم 2024 کے لوک سبھا انتخاب تک،اس نظام کو خراب نہیں کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ نتیش اور تیجسوی دونوں نے اس بار سمجھ بنا لی ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں بہار کی سیاست کیسے چلنی چاہیے۔
غورطلب ہے کہ تیجسوی نے نتیش کمار کے گورننس ریکارڈ کی دل کھول کرتعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتیش کے مخالفین بھی اس بات سے انکار نہیں کرتے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نتیش 2024 میں مودی کو چیلنج کرنے کے لیے مشترکہ اپوزیشن امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں، تیجسوی نے کہا کہ یہ فیصلہ نتیش جی کو کرنا ہے، لیکن جلد ہی۔ انہوں نے مزید کہا، اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ وہ ملک کے سب سے تجربہ کار وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کے پاس حکومت کا اچھاریکارڈ ہے۔
تیجسوی نے دو اور سوچے سمجھے بیانات دیے۔ پہلا یہ کہ بہار 2024 میں نریندر مودی کے خلاف ایک قومی متبادل کا راستہ دکھائے گا اور دوسرا یہ کہ پورے ہندی بیلٹ میں بی جے پی کے پاس کوئی بڑا اتحادی نہیں بچا ہے۔ ان تمام بیانات کو ملا کر دیکھیں تو ہمیں 2024 کے انتخابات کے لیے ایک معنی خیز پیغام ملتا ہے۔ خالص ریاضیایات کی زبان میں سمجھیں تو سات پارٹیوں کے گٹھ بندھن، جس کے بارے میں نتیش نے کہا کہ مل کر کام کریں گے، کا کل ووٹ شیئر 2019 کے لوک سبھا کے اعداد و شمار کے 50فیصد سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایسےمیں یہ ایک ناقابل شکست اتحاد کی طرح لگتا ہے۔
لہٰذا، بی جے پی کے پاس بہار میں سات جماعتوں کے اس مہا گٹھ بندھن کو لے کر فکر مند ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
یقینی طور پر بی جے پی اس نئے اتحاد کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گی۔ تفتیشی ایجنسیاں پہلے سے ہی پرانی فائلوں کی دھول صاف کر رہی ہوں گی جو ایسے موقع کے لیے رکھی گئی ہوں گی۔ نتیش کمار پر کسی بڑے گھوٹالے کا الزام لگانا ان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ بی جے پی بھی ان کی حکومت کا حصہ رہی ہے۔
اس کے علاوہ، بہار کے لوگ مرکز کی طرف سے استعمال کیے جانے والے جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کر سکتے ہیں۔ آخر بہار مہاراشٹر نہیں ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اب اپوزیشن کی سیاست یقیناً گمبھیر اور دلچسپ ہو جائے گی۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر