اتر پردیش کے باغپت ضلع میں 2 ستمبر کو 20-22 لوگوں کی بھیڑ نے ونے پور کے رہنے والے داؤد علی تیاگی پر حملہ کر دیا تھا۔ کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ تیاگی کے قتل سے پہلے اس علاقے میں ایک بیٹھک ہوئی تھی، جس میں علاقے کے مسلمانوں کو ڈرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ پولیس نے بھی بیٹھک اور سازش کی بات قبول کی ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے باغپت ضلع کے ونے پور میں 2 ستمبر کوبھیڑنے ایک 50 سالہ مسلمان داؤد علی تیاگی پر حملہ کر دیا تھا۔ دیر رات، تقریباً 20 لوگوں نے مبینہ طور پر لاٹھیوں اور دھار دار چیزوں سے تیاگی پر حملہ کیا، جس سے انہیں مہلک چوٹیں آئیں اور بعد میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ اس معاملے میں اب تک چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔
تاہم، تیاگی کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ اچانک نہیں ہوا تھا اور یہ حقیقت میں ایک ٹارگٹیڈ کرائم تھا، جس کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا تھا۔ بہرحال، پولیس کا دعویٰ کچھ اور ہے۔
پیشے سے کسان تیاگی اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ ونے پور میں رہتے تھے، جبکہ ان کے تین بیٹے دہلی میں رہ کرپڑھائی کرتے ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ان کے ایک بیٹے شاہ رخ نے بتایا، میرے والد گھر کے برآمدے میں رشتہ داروں سے بات کر رہے تھے۔ رات تقریباً 10 بجے سات آٹھ بائیک پر سوار 20-22 لوگ آئے۔
شاہ رخ نے مزید کہا، ان پر دھاردار ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے میرے والد کے سر پر حملہ کیا اور ان کے ہاتھ پر بھی تین الگ الگ جگہ پر چوٹیں آئیں۔ انہوں نے میرے چچا زاد بھائی پر بھی فائرنگ کی۔ وہ ’جئے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
حملے کے بعد تیاگی کو علاج کے لیے میرٹھ کے فیملی ہیلتھ اسپتال لے جایا گیا۔ تاہم صبح سویرےانہوں نے دم توڑ دیا۔
دی وائر کے ذریعے کھنگالی گئی کیس کی ایف آئی آر 3 ستمبر کو کھیکڑا پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی تھی۔ جس میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 147 (فسادات کے لیے سزا)؛ 148 (فسادات، مہلک ہتھیار رکھننا)؛ 149 (غیر قانونی بیٹھک کا ہر رکن یکساں مقصد کے لیے جرم کاقصوروار)؛ اور 302 (قتل) کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر شاہ رخ کے بیان سے میل کھاتی ہے، حالانکہ اس میں مبینہ طور پر ہجوم کی طرف سے لگائے گئے ‘جئے شری رام’ کے نعروں کا ذکر نہیں ہے۔
بہر حال ، اس کے بعد 5 ستمبر کو کھیکڑا پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ انہوں نے تیاگی کے قتل کے سلسلے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور دو بائیک اور دو لاٹھیاں بھی ضبط کی ہیں۔
جہاں تک واقعہ کے پیچھےکے مقصدکی بات ہے تو چاروں ملزمین سے پوچھ گچھ کے بعد پولیس نے کہا کہ بھگوٹ اور ونے پور کے لوگوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی، اور گرفتار کیے گئے لوگوں نے ونے پور کے کسی بھی شخص پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
‘معاملہ سرد خانے میں پڑا ہے’
تیاگی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ قتل کے ایک ماہ بعد بھی جانچ ‘ٹھنڈے بستے ‘ میں پڑی ہے کیونکہ زیادہ تر ملزمین آزاد گھوم رہے ہیں، جس سے خاندان کے افراد خوف اور عدم تحفظ میں جی رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ،تیاگی کے اہل خانہ کو سرکاری نوکری دینے کا وعدہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔
شاہ رخ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حال ہی میں خاندان کو ڈرانے کی کوشش کی گئی تھی جس کی وجہ سے ان کا ڈر پھر بڑھ گیا ہے۔
شاہ رخ نے بتایا، ‘تین دن پہلے، میرا بھائی اور میرے چچا کھیت پر گئے تھے – مجرموں کے کھیت ہمارے کھیتوں سے جڑے ہوئے ہیں؛ وہ دوسرے گاؤں میں آتے ہیں، لیکن بہت ہی زیادہ قریب ہیں۔ اس دن میرے بھائی کو گھیر لیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ، ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ پھر سے کچھ ہو سکتا ہے۔
شاہ رخ نے کہا کہ چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن ایک مہینہ گزر گیا ہے اور معاملہ سرد خانے میں چلا گیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا،لوگوں (گواہوں) کی طرف سے پیش کیے گئے (مجرموں کے) ناموں کا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین سے تعلق ہے۔ ایک دو بار پولیس ان کے گھر گئی، حالانکہ کچھ خاص نہیں ہوا۔
منصوبہ بند حملہ
تیاگی کے اہل خانہ اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ تیاگی کے قتل سے پہلے بھگوٹ میں ایک میٹنگ ہوئی تھی، جہاں علاقے کے مسلمانوں کو ڈرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
کارکن دیویندر دھاما نے دی وائر کو بتایا، کچھ لوگ سستی شہرت چاہتے تھے، اس لیے حملہ کیا گیا۔ واقعہ سے پہلے بھگوٹ میں ایک میٹنگ ہوئی تھی… (اور) ایک اور میٹنگ (بعد میں) 60-65 ممبران کے ساتھ ہوئی تھی۔ مقصدتھا، علاقے کے مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا – قتل یا لوٹ مار نہیں بلکہ ڈر پھیلانا۔
دھاما نے کہا، وہ گاؤں میں داخل ہوئے اور تیاگی وہ پہلے شخص تھے، جس پر انہوں نے حملہ کیا، اور پھران پر حملہ کرنے والے منتشر ہوگئے۔ اس سے پہلے گاؤں کی مسجد کے پاس ہنومان چالیسا پڑھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
علاقے کے عینی شاہدین کے حوالے سے بی بی سی کی ایک گراؤنڈ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ بیٹھک ایک مندر میں ہوئی تھی، جہاں کئی نوجوانوں سے حملے میں شرکت کی اپیل کی گئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرفتار کیے گئے ملزمین میں سے ایک نے حملے کے اکسانے کے مقصد سےسوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کیے تھے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے پولیس نے ان تمام دعووں کی تردید کی، جن میں بیٹھک کے سیاسی مفہوم نکالے جا رہے تھے۔
کھیکڑا پولیس اسٹیشن کے سرکل آفیسر ونے چودھری نے کہا، چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم باقی کی تلاش کر رہے ہیں۔ ایک میٹنگ ہوئی تھی اورایک سازش تھی۔ تاہم یہ سیاسی نہیں تھا۔
شاہ رخ اور ان کے خاندان کو پولیس تحفظ فراہم کرنے کے باوجود وہ خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ونے پور کی گجر اور مسلم کی مخلوط آبادی ہے اور شاہ رخ کے مطابق آس پاس کے گاؤں گجروں کی اکثریت والے ہیں۔
شاہ رخ نے کہا،علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے ہم گاؤں سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے انتظامیہ پر اندھا اعتماد کیا تھا، لیکن سرکاری نوکری دینے کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم اپنے والد کی معمولی آمدنی پر زندگی گزار رہے تھے، کیونکہ ہم سب ابھی اپنی پڑھائی مکمل کر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کھیتوں کو جوتنے کے لیے کدال کیسےپکڑیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں