ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اروند کیجریوال کے نوٹ–راگ نے ضروری مسائل اور جواب دہی سے ہم وطنوں کی توجہ ہٹا کر فائدہ اٹھانے میں بی جے پی کی بڑی مدد کی ہے۔ اگر ماہرین صحیح ثابت ہوئے تو کیجریوال کی پارٹی کی حالت بھی ‘مایا ملی نہ رام’ والی ہو سکتی ہے۔
یوں تو ہمارے ملک میں انتخابات میں مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل کے استعمال کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ آزادی کے فوراً بعد 1948 میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی کے پہلے ضمنی انتخاب بھی اس سے بچ نہیں پائے تھے۔ یہ ضمنی انتخاب اس وقت ہوئے تھے، جب ہندوستانی سوشلزم کے فادرکہلانے والےآچاریہ نریندر دیو نے کانگریس کے اپوزیشن کی تشکیل کی نیک نیتی سے اس وقت کی سماج وادی پارٹی کوتو اس سے الگ کیاہی ، اخلاقیات کی بنیاد پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور ضمنی انتخاب میں کانگریس کے خلاف میدان میں اترے۔
اس وقت کانگریس آچاریہ کو نظریاتی ٹکر دینے کے بجائے مذہب کے جال میں پھنسانے کی راہ پر چلی اور اس کے کٹر ہندوتوادی امیدوار بابا راگھو داس نے اتھیسٹ آچاریہ نریندر دیو کے جیتنے سے ایودھیا میں عام طور پر بلندی پر پھہراتے رہنے والے مذہبی جھنڈے کے نیچے ہو جانےکا پروپیگنڈہ کرکے ایک ہزار دو سو ووٹوں سے بازی مار لی۔
کہتے ہیں کہ ان کے اس طرح بازی مار لینے کا ہی نتیجہ تھا کہ ایودھیا میں ہندوتوادیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے کہ انہوں نے 22-23 دسمبر 1949 کی رات بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر ایک ایسا تنازعہ کھڑا کر دیا، جو بعد میں ایک ناسور بن گیااور جب تک سپریم کورٹ اس کو اس کے انجام تک پہنچاتی، ہم ایک ملک کے طور پر اس کی بہت بڑی قیمت ادا کر چکےتھے۔
سب سے بڑی قیمت یہ کہ اس دوران ہندوتواوادیوں نے نہ صرف ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا، بلکہ اس کے آئین کی سیکولرازم جیسی مقدس قدر کو بھی پامال کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کی دھجیاں ابھی بھی اڑا رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہوا؟ پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 1976 میں اندراگاندھی کی وزارت عظمیٰ کے بیالیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کی تمہید میں سیکولرازم کو شامل کرانے والی کانگریس نے ان کے سفاکانہ قتل کے بعد کے کچھ ہی سالوں میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد اس میں بند کیے گئے تالے کھولنے اور عین اسی جگہ رام مندر کی تعمیرکی مانگ کو لے کر ہندوتوادیوں کے آسمان سر پر اٹھالینے سے پیدا ہوئے اندیشوں سے اس قدر تنگ آگئی کہ اسے ان سے ان کا ہندوتوا کارڈ چھین لینے میں ہی بھلائی نظر آنے لگی۔
پھر کیا تھا، 1984 کے لوک سبھا انتخاب میں ہمدردی کی لہر پر سوار ہو کر ریکارڈ اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پہلےایک فروری 1986 کو بابری مسجد کے تالے کھلوانے کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد 9 نومبر 1989 کو رام مندر کا سنگ بنیادبھی رکھا گیا۔
ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کی پارٹی کے ہاتھ میں ہندوتوا کارڈ آجائے گا، جس کی وجہ سے یہ پہلے کی طرح الیکشن در الیکشن کامیابی ملتی رہے گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ 1989 میں، ان کی سرکار توواپس نہیں ہی آئی، اس کے بعد کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی اپنے دم پر اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکی۔
تاہم اس کے لیے اس نے سیکولرازم کو انتخابی میدان سے غائب کرنے اورمقابلے کو ہندوتوا کی دو نرم اور سخت شکلوں (ہارڈ اینڈ سافٹ)میں محدود کرنے کی کوشش کی۔ انتخابی اعداد و شمار گواہی دیتے ہیں کہ، جب بھی اس نے ایسا کرنے کی کوشش میں حقیقی سیکولرازم سے گریز کیا، ہارڈ ہندوتوا کی جیت ہوئی اور سافٹ ہندوتوا نے اس کی پہلے سے زیادہ حالت خراب کر دی۔
دوسرے لفظوں میں کہیں توسافٹ ہندوتوا کی پیروکاری میں ایڑی چوٹی ایک کرکے بھی کانگریس ہندوتوادیوں، جس کی سب بڑی علمبردار بی جے پی ہے ، ان کا ہندوتوا کارڈ نہیں چھین پائی ۔ اب عام آدمی پارٹی وہی کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کر پانے میں کامیاب ہو پائے گی؟
اس کے سپریمو اروند کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کویہ مشورہ دے کر کہ ملک کی کرنسی پر لکشمی اور گنیش کی تصویریں چھاپ کر مسائل کے حل کے لیے ان کا آشیرواد حاصل کر نے کی سمت میں بڑھیں ، صاف اشارہ دیا ہے کہ وہ بی جے پی کے ہارڈ ہندوتوا کو کانگریس کی طرح سافٹ ہندوتوا کے نہیں ، بی جے پی سے بھی زیادہ ہارڈ ہندوتوا کے ہتھیار سے کاٹنا چاہتے ہیں ۔
اس سلسلے میں وہ یہ کہنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کررہے کہ لکشمی اور گنیش کا آشیرواد ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مجرب نسخہ ثابت ہوگا۔ البتہ، وہ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ اس مجرب نسخہ کی موجودگی میں وہ مودی حکومت کے ‘میک ان انڈیا’ کے متوازی ‘میک انڈیا نمبر ون’ مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ لکشمی اور گنیش کے آشیرواد سے ہی کام کیوں نہیں چلا لے رہے؟
بہرحال، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کیجریوال نے اپنی سیاسی سرگرمی کے ابتدائی دنوں میں مشتہر سیکولر، ترقی پسند اور تبدیلی پسند رہنما کی اپنی امیج کے برعکس ہندوتوا کی طرف جانے کا اشارہ دیا ہو اور کہاہو کہ وہ ملک کے آئین سے زیادہ منووادی خیالات کے وکیل ہیں۔
یاد کیجیے، مودی سرکار نے تین سال قبل اپنی دوسری اننگز شروع ہوتے ہی ، جموں و کشمیر کو خصوصی حقوق دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹا کر اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا تھاتو کیجریوال نے کس طرح اس کا استقبال کیا تھا، جب کہ شہریت قانون میں امتیازی ترامیم کے خلاف دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ میں تحریک کے حوالے سےعجیب و غریب رویہ اپنا لیا تھا۔
لاک ڈاؤن میں وہ ورناویوستھا کو فروغ دینے والے گیتا کا پاٹھ کرتےنظر آئے تھے، جبکہ نیوز چینلوں پر وہ اکثر ہنومان چالیسہ سناتے نظر آتے ہیں۔
حد تب ہوگئی جب حال ہی میں انہوں نے گجرات میں اپنی پارٹی کا موازنہ بھگوان کرشن سے کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ بدعنوانی کے کنس کو مارنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
اس وقت دہلی میں وہ بزرگ شہریوں کے لیے رام مندر جانے کی مفت سیر کی اسکیم چلا رہے ہیں اور اقتدار میں آنے کی صورت میں گجرات میں بھی بزرگوں کے لیے ایسی ہی اسکیم چلانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ یہی نہیں، پچھلے سال دیوالی پر ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والی ان کی عظیم الشان پوجا کا پنڈال ایودھیا میں رام مندر کی طرز پر بنایا گیا تھا۔
اس پر ان کے کئی حامیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ بی جے پی کو ہندوتوا کے ہی نہیں بلکہ قوم پرستی کے محاذ پر بھی سخت ٹکر دے رہے ہیں۔ دہلی کے اسکولوں میں حب الوطنی کی کلاسز چلانے کا ان کا منصوبہ اسی لڑائی کا حصہ ہے۔ شراب کی پالیسی سمیت دہلی کے دیگر معاملات میں وہ بھلے ہی بی جے پی کی من مانیوں اور خوش گمانیوں سے ٹکرا تے رہتے ہوں، جیسے ہی اس نے ان کے ایک وزیر کے معاملے میں ہندو دیوی–دیوتاؤں کی توہین کے معاملے پرہڑبونگ مچایا، انہوں نے متعلقہ وزیر سے استعفیٰ دلوا دیا۔ گویاکہ کیس صرف بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے 22 وعدوں کو دہرانے کا تھا۔ لیکن یہ دہرانا کجریوال سے اس لیے برداشت نہیں ہوا کیونکہ اس سے ان کی ہندوتوادی شبیہ خطرے میں پڑ تی تھی۔
ماہرین ان چالوں کی تشریح کئی طرح سےکر رہے ہیں۔ پہلی توجیہہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی اور بی جے پی کی سیاست میں اب صرف طور طریقوں اور تکنیکوں کا فرق رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے پارٹی کے ان ووٹروں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، جو اس امید میں غیر سیاسی بدعنوانی مخالف تحریک سے نکلے’ پڑھے لکھوں ‘ کی جماعت کے قریب آئے تھے کہ وہ اپنے اعلان کے مطابق ‘سیاست سے پیسہ اور پیسے سے سیاست’ کے روایتی سیاسی انداز کا نظریاتی طور پر صالح متبادل بن جائے گی۔
ماہرین کے مطابق، یہ ووٹر باشعور ہیں اور عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم یا فوٹو کاپی بنتے دیکھ کراس سے چپکے نہیں رہنے والے ۔ دوسری طرف، یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ‘عآپ’ نے زیادہ کٹر ہندوتوا کا خول اوڑھا نہیں کہ بی جے پی کے ہندوتوا حامی ووٹر ہپناٹائز ہوکر اس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے!
کون نہیں جانتا کہ بی جے پی نے یہ پروپیگنڈہ کرکے اپنے حامیوں کو متحد رکھنے میں مہارت حاصل کی ہے کہ اس کے حریف اس کے ہندوتوا ایجنڈے کے دباؤ میں ‘ہندو’ بن رہے ہیں اور ان کا ہندوتوا بالکل بھی قابل اعتبار نہیں ہے۔
غورطلب ہے کہ کیجریوال کے نوٹ–راگ کے بعد اگرچہ وہ تھوڑی دیر تک بے چین رہی، لیکن وہ جلد ہی نوٹوں پر شیواجی اور ونائک دامودر ساورکر وغیرہ کی تصویریں چھاپنے کا مطالبہ کرنے والوں کو آگے کرکے انہیں اپنے ٹریپ میں لے لیا۔ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس کے خیمے میں کیجریوال سے زیادہ ہارڈ ہندوتوا میں حصہ داری کا دعویٰ کرنے والوں کا بھی ٹونٹا نہیں ہے۔
دوسری طرف کئی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ کیجریوال کے نوٹ–راگ نے ضروری مسائل اور جواب دہی سے ہم وطنوں کی توجہ ہٹا کر ا فائدہ اٹھانے کے کام میں بی جے پی کو بڑی مدد کی ہے۔ اگر یہ ماہرین صحیح ثابت ہوئے تو کیجریوال کی پارٹی کی حالت ‘مایا ملی نہ رام’ والی ہو سکتی ہے، لیکن اگر غلط ثابت ہوئے تو ملک کو ان کی پارٹی سے کہیں زیادہ بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
کیونکہ پھر ملکی سیاست میں مذہب کے نام پر ووٹروں کو دھوکہ دینا آسان سمجھا جائے گا اور شاید ہی کوئی ان کو یہ کہہ کر ہوشیار کرنے کا خطرہ مول لے گا کہ کرنسی پر دیوی–دیوتاؤں کی تصویریں لگا نے سے ہی ملک خوشحالی آتی ہے اور دنیا کے تمام ممالک ایساہی کرنے لگے اور کون جانتا ہے کہ ورلڈ بینک کا دفتر بھی کسی دیوی دیوتا کے مندر میں ہی ہو۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر