ادبستان

برباد ہوا، آباد ہوا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سائنسدانوں نے ہمیں محبت کے ہارمون کی خبر دی ہے۔ اس ہارمون کا نام ‘آکسی ٹوسین’ہے۔ جسے ہم ماں کی ممتا سمجھتے رہے اب پتہ چلا کہ یہ تو وہ ہارمون ہے جو ماؤں کے اندر زچگی اور بچوں کو دودھ پلانے کےعمل کے دوران خارج ہوتا ہے۔ ایک اور تحقیق بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق محبت کا یہ ہارمون اگر کسی کو سونگھایا جائے تو اس کے اندر جھوٹ بولنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے؛ ہت تیرے کی۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

ایک کے بعد دوسری عورت گھر لے آنا، گاؤں بھر میں پہلے پہل تو یہی سمجھا گیا تھا کہ اولاد کی خاطر تھا۔ یوں یہ فعل قابل قبول ہوگیا تھا۔ ہر کہیں سے جواز آتا ، بے چارہ کیا کرتا اولاد جو نہیں ہو رہی تھی۔ ایسا بالعموم گاؤں کی بڑی بوڑھیاں کہتیں ۔ گویا اولاد نہ ہونے میں سارا قصور ہماری سابقہ ممانیوں کا تھا۔

چٹھل ہونے کے بعد ایسی عورتوں کی زندگی اور تلخ ہو جاتی تھی  انہیں بنجر اور بے آباد زمیں کی طرح سمجھا جانے لگتا۔ مرد وں کے لیے سارے راستے کھلے رہتے ۔ سو، ماموں کے لیے بھی کھلے رہے۔

ماموں سب رکاوٹوں کو پھاند کر وہ آخری والی عورت لے آئے، جس سے انہوں نے نباہ کرنا تھا ۔ اس عورت سے انہوں نے ایسا نباہ کیا کہ حق ادا کر دیا ۔  جو میں نے اِدھر اُدھر سے سنا وہ یہی تھا کہ اس آخری والی عورت سے انہیں’ظالم عشق’ ہوا تھا۔

ظالم عشق… گویا عشق اور محبت کے جذبے بھی ظالم اور مظلوم ہوسکتے تھے ۔ یہ جذبے ظالم اور مظلوم ہوتے ہیں یا نہیں میں نہیں جانتا ۔ جانتا ہوں تو بس اتنا کہ جسے یہ جذبے عطا ہو جائیں وہ دوسروں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ نیویارک کے البرٹ آئن اسٹائن میڈیکل کالج میں جب محبت میں گرفتار طالبعلموں کے دماغوں کا اسکین کرنے کے بعد تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ محبت کرنے سے دماغ کا وہی نظام متحرک ہوتا ہے جو کوکین لینے پر ہوتا ہے۔

لیجیے ہم جسے دِل کا معاملہ سمجھتے رہے سائنسدانوں نے اسے دماغ کی شرارت کہہ دیا اور وہ جو جذبہ ہو کر محترم تھا کوکین کے نشے جیسا ٹھہرا ۔ یہ جو محبت کرنے والوں اور عاشقوں کے حصے میں مسرت اور فرحت جیسی دولت آتی ہے، امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں سائنسدانوں نے اس کا بھی تجزیہ کیا ہے اور نتیجہ اخذ کیا ہے کہ محبت اور عشق کے عمل میں دماغ کے وہی حصے تسکین پاتے ہیں جو کسی درد کی گولی کا ہدف ہواکرتے ہیں۔

یہاں بھی اعصابی طور پر درد کو روکنے والے عصبی خلیے ہی حرکت میں آتے ہیں۔ جب سے اس نوع کی معلومات انٹر نیٹ کی وساطت سے عام ہوئی ہیں ہمارا محبت اور عشق سے ایمان اٹھنے لگا ہے حالاں کہ ہمارے اپنے مرزا نوشہ بہت پہلے بتا گئے تھے ؛کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔

سائنسدانوں نے ہمیں محبت کے ہارمون کی خبر دی ہے۔ اس ہارمون کا نام ‘آکسی ٹوسین’ہے۔ جسے ہم ماں کی ممتا سمجھتے رہے اب پتہ چلا کہ یہ تو وہ ہارمون ہے جو ماؤں کے اندر زچگی اور بچوں کو دودھ پلانے کےعمل کے دوران خارج ہوتا ہے۔ ایک اور تحقیق بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق محبت کا یہ ہارمون اگر کسی کو سونگھایا جائے تو اس کے اندر جھوٹ بولنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے؛ ہت تیرے کی۔

محبت اور عشق جیسے جذبے بھی خالص نہ رہے ۔ ظاہر ہے جھوٹ بولنے کی بڑھی ہوئی صلاحیت کا استعمال اپنے محبوب اور معشوق پر ہی کیا جاتا ہوگا ۔ اسرائیل کی بن گوریان یونیورسٹی کے شاؤل شالوی نے جب یہ جاننا چاہا کہ لوگ محبت اور عشق میں کس حد تک جا سکتے ہیں تو سماجی اخلاقیات کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا تھا ۔

اس کی تحقیق کا یہ نتیجہ سامنے آیاتھا کہ عاشقوں کے نزدیک اچھے اور مسلمہ اخلاقی معیارات لائق اعتنا نہ رہتے تھے ۔ ماموں جان بھی، جب تک آخری والی عورت حاصل نہ کر چکے، سماجی اخلاقی معیاروں کے آگے سوالیہ نشان لگاتے رہے تھے۔

خیر ، یہ عشق ہو یا محبت اگر یہ پر جوش خوشی اور ناقابل بیاں مسرت عطا کرنے کا وسیلہ نہ ہوتے تو کوئی ان کا گرفتار ہی کیوں ہوتا ۔ سائنس جس طرح کے چاہے تجزیے کرے انسان ان جذبوں سے جڑتا ہے، جڑا رہنا چاہتا ہے اور یہیں سے قوت کشید کرکے زندگی کو رہنے کے قابل بناتا ہے۔

گابرئیل گارسیا مارکیز نے کہیں لکھا تھا کہ محبت کرنے کی اہلیت سے محرومی سے بڑھ کر کوئی اور اِنسانی اِبتلا نہیں ہو سکتی۔ جب ماموں کی زندگی میں ٹھہراؤ آگیاتو وہ اس ابتلا سے نکل گئے جو ان کی زندگی تلخ بنائے ہوئے تھے۔یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب سے تلخ یادوں کے اوراق پھاڑ کر جلا ڈالے تھے۔

اس آخری بیوی سے بھی ان کی اولاد ہوئی؛ جو ان کی بیوی کی طرح فرماں بردار اور ان سے محبت کرنے والی ہے۔ اگرچہ اب وہ چلنے پھرنے سے معذور ہیں اور وہیل چیئر پر آگئے ہیں مگران کی شخصیت کا رعب ابھی تک ویسا ہی ہے جیسا جوانی میں تھا۔ اب بھی انہیں وہی سماجی مرتبہ حاصل ہے، گاؤں میں جس کا حصول کسی بھی شخص کی حسرت ہو سکتی تھی۔

وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے

نانی جان جو معذور ہو چکی تھیں وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ماموں اور نئی ممانی کے ہاں اولادیں ہوئیں اور اُن کی زندگی ایک ڈھب پر آگئی تھی مگر ہم جو ان سے دور ہو گئے تھے لگتا تھا ان کے حافظے سے بھی محو ہوتے جا رہے تھے۔  ایسا محض ایک طرف سے نہیں ہوا ، دونوں طرف سے ہو رہا تھا؛ ماموں کی طرف سے اور امی جان کی طرف سے بھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ امی جان مطلقہ اور تینوں بچوں کو تب ہی اپنے گھر لے آئی تھیں جب وہ گھر بدر ہوئے تھے ۔  وہ سمجھتی تھیں کہ بچوں پر اور اس عورت پر بہت ظلم ہوا تھا ۔ وہ اپنے بھائی کی بہ جائے اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھیں ۔اب ہماری سابقہ ممانی اور اس کے بچے ایک مضبوط پناہ میں تھے۔

جب اس کی شادی ہمارے ماموں سے ہوئی تھی تو کچھ شرائط نکاح نامے میں لکھوائی گئی تھیں؛ اس پناہ میں آکر اس عورت نےانہی کا سہارا لیا اور بات کورٹ کچہری لے گئیں۔ عورت کا حوصلہ بڑھ گیا تھا، اتنا کہ وہ امی جان کے سامنے اُن کے بھائی کو کوستی اور بد دعائیں دیتی رہتی تھیں ۔ مجھے یہ بات ازحد تکلیف دیتی مگرامی جان نے ایک چپ سادھ رکھی تھی ۔ انہوں نے اپنے بھائی کے بچوں ساتھ اس درجے کا حسن سلوک کیا کہ ہم ان کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔

ہمارے سامنے کھانا رکھنے سے پہلے انہیں دِیا جاتا۔ جو ہمارے لیے پسند کرتیں وہ بھی حقدار ٹھہرتے اور اگر ہم کہیں شکایت کرتے تو کہتیں کہ’خدا کسی دشمن کے بچوں کو بھی ایسے وقت سے نہ گزارے جو ان پر بیت رہا ہے۔ یہ بچے باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہیں۔’یہ سب کچھ یوں ہو رہا تھا کہ بہن بھائی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور ہمارا اپنے گاؤں چکی جانا بالکل چھوٹ گیا تھا۔

ماموں نے اپنی بہن کوکئی پیغام بھجوائے کہ وہ اُن کی مطلقہ کی پشت پناہی چھوڑ دیں ۔ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ اگر امی جان پیچھے ہٹ گئیں تو وہ صورت حال سے نمٹ سکتے تھے ۔ امی جان ایسا کرنے کو تیار نہ ہوئیں ۔ کہتیں ؛ جو حق اللہ رسول نے اس عورت کو دِے رکھا ہے وہ اُسے  حاصل کرنے سے کیسے روک دیں۔ ہمارے گھر میں کوئی اس بابت بات کرتا نہ کرتا ایک تناؤ کی سی کیفیت رہتی۔ یہ تنا ؤ کئی برس تک رہا۔  یوں لگتا تھا جیسے ہم اس کے دست گیرو پاگیر ہو کر رہ گئے تھے۔ نہ اِدھر سے کوئی چکی جارہا تھا نہ اُدھر سے کوئی آیا ۔

حتی کہ امی جان کی دوبہنیں جو ادھرگاؤں میں اپنے اپنے گھروں میں رہتی تھیں،ماموں کی ناراضی کے خوف سے ہمارے ہاں نہ آ رہی تھیں۔ امی جان کے اعصاب اس ساری صورت حال سے حد درجہ متاثر ہو رہے تھے مگر وہ ہم پر ظاہر نہ ہونے دیتی تھیں۔ ان کی ماں مر چکی تھی۔ بھائی ناراض تھا۔ بہنیں دور ہو گئی تھیں ؛ گویامیکہ ہی چھوٹ گیا تھا۔ معاملات اتنے الجھے ہوئے تھے کہ ان کے سلجھنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ امی جان کی نمازوں کے سجدے لمبے ہو گئے تھے۔ وہ رورو کر دعائیں کرتیں۔ ان دعاؤں میں یقیناً وہ بھائی بھی تھا جس سے وہ مل نہیں سکتی تھیں۔ اس سب کے باوجود انہوں نے بھائی کی مطلقہ کا ساتھ نہ چھوڑا تھا۔

وہ مقدمہ جو عدالت میں تھا ،اس کا فیصلہ عورت کے حق میں ہو گیا۔ نکاح نامے میں حق مہر نقد کے علاوہ جس حد تک جائیداد لکھوائی گئی تھی وہ اس کی حق دار ٹھہری تھیں اور بچوں کے خرچے کی مد میں ایک معقول رقم کی ڈگری بھی انہیں مل گئی۔  ماموں کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ رہا ہوگا مگر اس عورت کی خوشی دیدنی تھی۔ لگتا تھا کہ امی جان بھی مطمئن ہو گئی تھیں ۔

محبت کے انوکھے فرض اور قرض

اس کے بعد کہانی میں جو موڑ آیا اُس پر امی جان بہت برہم ہوئی تھیں ۔ ہوا یہ کہ ہمارے منجھلے چچا، جن کی اولادیں جوان ہو چکی تھیں ، ان کی بیوی فوت ہوگئی۔  ادھر مرنے والی کا چالیسواں ہوا ، اُدھر ہماری سابقہ ممانی سے چچا جان نے نکاح کر لیا ۔ امی جان سے پوچھنا یا ان کو بتانا کیا، یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ اس واقعے کو ہضم کرنے کے لیے امی جان کو بہت ضبط کرنا پڑا۔ وہ کہتیں جانے کب سے دونوں کے درمیان معاملہ چل رہا تھا ۔ انہیں اس پر بھی غصہ تھا کہ مشکل وقت کٹ چکا تھا، بچے جواں ہوچکے تھے اور پھل پکنے پر آیا تو بہ قول امی جان اُس عورت نے خصم کر لیا تھا ۔

وہ بچے جن کے ماں باپ نے اپنی دنیائیں بسا لی تھیں ، اُن پر اچھا وقت یوں آیا کہ ان میں سے لڑکے اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے اور اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے ۔ امی جان کے لیے بھائی کی بیٹی کا معاملہ ایسا تھا کہ اسے سلجھائے بغیر انہیں چین نہیں آسکتا تھا ۔  وہ میڑک کا امتحان دے رہی تھی کہ امی جان کے حج پر جانے کی درخواست منظور ہو گئی۔ ایک روز انہوں نے ہم سب کو اکٹھا کیا اورفیصلہ سنا دیا کہ اس بچی کی شادی وہ ہمارے چھوٹے بھائی سے سر انجام دے کر حج پر جائیں گی۔

یہ واقعہ ابا جان کی وفات سے کئی برس بعد کا ہے ۔ اس وقت تک ہمارے دوبھائیوں اور ایک بہن کی شادی نہیں ہوئی تھی۔اس لیے بڑے بھائی کو چھوڑ کر اس سے چھوٹے کی شادی اور وہ بھی اس لڑکی سے جس کے میٹرک کے پرچے چل رہے تھے ، سب کو ہکا بکا کرنے کو کافی تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔مگر اماں جان کا اٹل فیصلہ تھا کہ ان کے بھائی کی لڑکی اُن کی ذمے داری تھی اور وہ اس فرض کی ادائی کرکے ہی حج پر جائیں گی ۔ یہ شادی جیسے اماں جان نے چاہا تھا، ویسے ہی ہو گئی اور وہ مطمئن حج پرچلی گئیں۔

لگ بھگ ڈیڑھ پونے دو دہائیوں کے بعد کہیں جاکر ایسا موقع نکل پایا تھا کہ بہن اور بھائی آمنے سامنے ہوں ۔ دونوں نے رو رو کر جی ہلکا کیا اور امی جان اپنے بھائی پر یوں مہربان ہوئیں کہ ہم ایک بار پھر ہکا بکا رہ گئے تھے۔

ماموں کا قد اونچا لمبا اور جسم گتھا ہوا تھا ۔ کھڑے ہوتے تو سب سے نمایاں لگتے ۔ گاؤں سے شہر فوری آنے جانے کے لیے انہوں نے موٹر سائیکل رکھا ہوا تھا مگر اس پر بیٹھتے تو ان کے بھاری وجود کے نیچے آکر یوں لگتا تھا جیسے وہ کوئی کھلونا چلا رہے ہوں ۔ یہ کھلونا گاؤں سے آتے ہوئے ٹوٹ گرا اور وہ اپنے قدموں پراُٹھنے کے قابل نہ رہے تھے۔

امی جان کو اپنے بھائی کے حادثے کی خبر ملی اور کسی نے یہ بھی بتایا کہ وہ پنڈی گھیب کے سول ہسپتال میں پڑے ہیں تو اُن سے رہا نہیں گیا ۔ سب گلے شکوے بھلا کر ہسپتال پہنچ گئیں ۔ یہ بہن بھائی کی ملاقات ایسی تھی کہ سسکیاں دور تک سنی جا سکتی تھیں۔

امی جان وہاں ان کے علاج سے مطمئن نہ تھیں۔ ایمبولنس کا اہتمام کیا گیا اور انہیں اسلام آباد لے آیا گیا ۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی کو ایسی چوٹ لگی تھی کہ اٹھ نہ پاتے تھے ۔ وجود اتنا بھاری تھا کہ کوئی انہیں سہارا دینا چاہتا تو بھی اٹھا نہ سکتا تھا۔ خیر علاج ہوتا رہا حتی کہ سہارے سے ہی سہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گئے تھے ۔

امی جان اپنے بھائی کے ساتھ ہسپتال سے سیدھا گاؤں چکی چلی گئی تھیں ۔ ہم خوش تھے کہ بہن بھائی میں صلح ہو گئی تھی۔ وہ وہاں کئی دن رہیں۔ واپس آئیں تو ہمیں یہ بتا کر حیرت زدہ کر دیا تھا کہ انہوں نے وراثت میں ملنے والی ساری زمین اپنے بھائی کو ہبہ کر دِی تھی ۔ ہمارے خاندان میں عجب روایت چل نکلی تھی کہ بہنیں وراثت میں شرعی طور پر حقدار ہونے کے باوجود اپنا حق بھائیوں کو منتقل کر دیتیں ۔

ایسا صرف ہمارے خاندان میں نہیں ہورہا تھااس سارے علاقے میں رواج کی حیثیت سے اتنا راسخ ہو گیا تھا کہ عورتوں کے نام پر جائیداد کا ہونا جیسے گناہ تھا ۔ میری ساس نے بھی ایسا ہی کیا تھا ۔ وہ ایک روزاپنے بھائی کے ساتھ کچہری گئی تھیں اور بھائی کے کہنے پر جہاں جہاں کہا گیا انگوٹھا لگا کر بیان دِے آئی تھیں کہ ماں باپ کے رخصت ہونے کے بعد وہی تو ان کے میکے کی نشانی تھے۔