مہاتما گاندھی کی تعلیم کے بارے میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے دعوے کے برعکس انہوں نے لاء کی ڈگری کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اور لاطینی زبان میں ڈپلومہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے لندن کے انر ٹیمپل کے بار میں داخلے کے لیے درخواست بھی دی تھی۔
کیا مہاتما گاندھی ڈگری ہولڈر وکیل تھے؟ اگر آپ جموں و کشمیر کے ڈپٹی گورنر منوج سنہا کی باتوں پر یقین کریں تو اس کا جواب بڑا سا ‘نہیں’ ہے۔ آئی ٹی ایم یونیورسٹی، گوالیار میں ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ باپو کی تعلیمی اہلیت کے بارے میں جو عام تصور ہے ،وہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تصدیق شدہ معلومات کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ ہائی اسکول کے ڈپلومہ کے علاوہ باپو کے پاس کوئی بھی تعلیمی اہلیت نہیں تھی۔
اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ موہن داس کرم چند گاندھی ایک فرضی وکیل تھے۔ انہوں نے بغیر کسی ڈگری کے ہندوستان اور جنوبی افریقہ میں قانون کی پریکٹس کی اور یہاں تک کہ لندن کے انرٹیمپل کے ساتھ ملی بھگت کرکے بار میں داخلہ بھی لے لیا۔ باپو اپنے آپ کو ‘ بنا کیس کا بیرسٹر’ (بیرسٹرودآؤٹ بریف) کہا کرتے تھے۔ اب سنہا نے انہیں بغیر ڈگری کاوکیل ( بیرسٹرودآؤٹ ڈگری) کہا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے بارے میں باپو کی رائے یہ تھی کہ،
تعلیم کا مطلب حروف کا علم نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب کردار سازی ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنے فرض کا علم۔]مائی چائلڈ ہڈ ود گاندھی جی ، ص: 73]
ابتدائی تعلیم اور آگے کے قدم
بچپن میں موہن کا پوربندر کے ایک کنڈرگارٹن میں داخلہ کرایا گیا تھا۔ جب ان کے والد کرم چند بپا نے راجکوٹ کے ٹھاکر کے دربار میں دیوان کی نوکری شروع کی تو ان کا خاندان بھی وہیں منتقل ہو گیا اور موہن (انہیں مونیو کہہ کر پکارا جاتا تھا) کا داخلہ وہاں کے کنڈرگارٹن میں کرایا گیا۔ بعد ازاں 1880 میں انہیں الفریڈ اسکول میں داخل کرایا گیا،جہاں انہوں نے اپنی پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔
موہن کوئی ذہین طالبعلم نہیں تھے۔ وہ ایک اوسط طالبعلم تھے، وہ پڑھائی لکھائی میں پیچھے تھے، وہ کھیل اور جسمانی تعلیم کو پسند نہیں کرتے تھے اور کالج میں وہ دونوں سے حتی الامکان بچنا چاہتے تھے۔
وہ انڈین میٹرک کے امتحان میں بیٹھے۔ یہ امتحان ممبئی میں ہوا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے وہاں کا سفر کیا۔ وہ امتحان میں بیٹھے اور پاس ہو گئے۔ اس بات کے ثبوت موجود ہیں۔ موہن کا نام الفریڈ ہائی اسکول کے رجسٹر میں ہے اور وہاں ان کو ملے نمبروں کا ریکارڈ ہے۔
موہن نے اس کےبعد شیامل داس آرٹس کالج، بھاؤنگر میں داخلہ لیا۔ وہاں پڑھائی ان کے لیےپریشانی کا باعث ہو گئی اور ان کواہلیہ کستور کی یادپژمردہ کرتی رہی۔ اور اس طرح پہلے ٹرم کے اختتام پر وہ ڈراپ آؤٹ ہوکر واپس گھر لوٹ گئے۔
اس وقت تک کرم چند بپا کا انتقال ہو چکا تھا اور موہن کے دونوں بڑے بھائی اسکول ڈراپ ٓؤٹ ہوکر چھوٹی موٹی سرکاری نوکری کر رہے تھے۔ ان کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ خاندان آرام سے زندگی بسر کر سکے۔ ایسے میں موہن ہی خاندان کی واحد امید تھے۔ کاٹھیاواڑ کے کسی راج دربار میں،بالخصوص پوربندر یا راجکوٹ میں جہاں ان کے باپ دادا نے کام کیا تھا، دیوان کی نوکری حاصل کرنے کے لیےان کا اہل ہونا ضروری تھا۔
اس دور میں ان شاہی ریاستوں کا انتظام برٹش ریزیڈنٹ کے ہاتھوں میں تھا۔ وہی فیصلہ کرتے تھے کہ سینئر انتظامی عہدوں پر کس کی تقرری کی جائے گی۔ کرم چند بپا کے ایک دوست ماوجی بھائی دیسائی نے خاندان کے بزرگوں کو مشورہ دیا کہ اگر موہن کو یہ نوکری حاصل کرنی ہے تو ان کو برطانوی تعلیم، خصوصاً قانون کی تعلیم دلوانی چاہیے۔
موہن ڈاکٹر بننا چاہتے تھے، لیکن ان کی ماں ایک عقیدت مند ویشنو تھیں اور اپنے بیٹے کو خون، گوشت اور لاشوں کے ساتھ کام کرنے کو قبول نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے انہوں نے ان کو طب کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس پر ماوجی بھائی نے لندن میں قانونی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔
ایک اور رکاوٹ آئی؛ ویشنوؤں کے درمیان سمندر پار کرنا ممنوع تھا۔ موہن کی ماں پتلی بائی بھی پریشان تھیں،کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ جو لڑکے ولایت جاتے ہیں وہ بگڑ جاتے ہیں، وہ گوشت کھاتے ہیں، شراب پیتے ہیں اور ولایتی عورتوں کے دام میں آ جاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کامونیو اس قسم کے لالچ کا شکار ہو۔ ماوجی بھائی نے ایک جین راہب کی مداخلت سے یہ مسئلہ حل کیا۔ راہب نے پتلی بائی کو سمجھایا اور یہ طے پایا کہ موہن حلف اٹھائے گا کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا، شراب نہیں پیے گا یا کسی ولایتی عورت کی محبت میں گرفتار نہیں ہو گا۔ موہن نے راہب کی موجودگی میں یہ حلف لیا۔
لندن پھر بھی دور تھا…
خاندان کی مالی حالت اچھی نہیں تھی؛ خاندان کے پاس موہن کی ولایتی تعلیم کے لیے پیسے نہیں تھے۔ انہوں نے قرض لیا، پھر بھی رقم کم پڑ گئی۔ آخر کار، کستور نے اپنے مالدار باپ د سے ملے زیورات ان کے حوالے کر دیے، تاکہ موہن لندن میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
موہن بمبئی کے لیے روانہ ہوئےاور وہاں رہتے ہوئے انہیں اطلاع ملی کہ ان کی ذات موڑھ بنیا کے بزرگوں نے ولایت جانے کو مذہب کے خلاف قرار دیتے ہوئےان کو بیرون ملک جانے سے منع کر دیا ہے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر موہن نے اس حکم کی نافرمانی کی تو وہ خاندان کو برادری سے بے دخل کر دے گا اور ان پر بھاری جرمانہ عائد کر دے گا۔ موہن نے حکم نہیں مانا اور 4 ستمبر 1888 کو ایس ایس کلائیڈ نامی جہاز سے لندن روانہ ہو گئے۔
موہن ولایت جانے کے امکان سے کافی خوفزدہ تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دیہاتی آدمی ہیں اور اس لیے انہوں نے جینٹلمین ہونے کے تمام معیارات پر پورا اترنے کی کوشش کی۔ انہوں نےایک سوٹ بھی سلوایا،لیکن اس میں غلطی ہو گئی جس نے انہیں تمسخر کاا نشانہ بنا دیا۔
لندن پہنچ کر انہیں ڈاکٹر پران جیون جگجیون داس مہتا کی رہنمائی ملی، جنہوں نے لندن کےیونیورسٹی کالج کے لاء اسکول میں داخلہ دلانے میں ان کی مدد کی۔ شروع میں موہن ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرے، لیکن پھر کرائے پر ایک کمرہ لے لیا۔ شروع میں، موہن نے اپنی پڑھائی پر شریف آدمی بننے کی کوششوں کو ترجیح دی۔ لیکن پھر ڈاکٹر مہتہ کی ڈانٹ کے بعد وہ حقیقی دنیا میں واپس آئے اور اپنی پڑھائی کو بہت سنجیدگی سے لینے لگے۔
انہوں نے 1890 میں برطانوی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کی والدہ پتلی بائی کا انتقال ان کےقانون کے آخری امتحان سے چند ہفتے قبل راجکوٹ میں ہو گیا۔ گھر والوں نے یہ خبر موہن کو نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کو شبہ تھا کہ یہ خبر ملنے کے بعد موہن امتحان میں بیٹھے بغیر ہی ہندوستان کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
موہن نےایل ایل بی کا امتحان یونیورسٹی کالج، لندن سےپاس کیا۔ قانون کی ڈگری کے ساتھ ساتھ، موہن داس نے فرانسیسی اور لاطینی زبان میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بار آف دی انر ٹمپل میں داخلے کے لیے درخواست دی۔ تمام اہلیت کو مکمل کرنے کے بعد، جون 1891 میں موہن داس گاندھی کو بار میں داخلہ دیا گیا، وہ ایک ڈگری ہولڈر رجسٹرڈ بیرسٹر بن گئے۔
اس کے بعد وہ ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے۔
باپو کے لفظوں میں وہ زندگی بھر طالبعلم رہے۔ انہوں نے زندگی کے مکتب میں بہترین تعلیم حاصل کی۔ 30 جنوری 1948 کو اپنی زندگی کے آخری دن موہن داس گاندھی بنگالی پڑھ رہے تھے۔
جموں و کشمیر کے ‘دانشور’ لیفٹیننٹ گورنر جو بھی کہیں، باپو بنا ڈگری کے وکیل نہیں تھے۔ یہاں میں انڈین میٹرکولیشن انر ٹمپل، لندن میں بار میں داخلے کے وقت دیے گئے ان کےسرٹیفکیٹس کو دوبارہ شیئر کر رہا ہوں۔ لوگوں کو یہ سرٹیفکیٹ پڑھنے کی سفارش کروں گا۔ ان میں بار میں داخلے کے لیے اہلیت کی فہرست دی گئی ہے۔ موہن داس نے ان تمام اہلیتوں کو پورا کیا۔
یہ ان لوگوں کو واقف حال کرنے کے لیے ہے ، جو ہمیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ موہن داس گاندھی کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ ڈگریاں ان کے لیے بے معنی تھیں، لیکن انہوں نے پڑھ کر اور ایمانداری سےان کو حاصل کیا تھا۔ واحد ڈگری جو موہن داس گاندھی نے کبھی حاصل نہیں کی وہ تھی ‘انٹائر لاء اسٹڈیز’ کی۔
میں باپو کےان الفاظ پر اپنی بات ختم کرتا ہوں؛
‘جو تعلیم ہمیں اچھے اور برے میں فرق کرنا، ایک کو اپنانا اور دوسرے کو ترک کرنا نہیں سکھاتی، وہ صحیح تعلیم نہیں ہے۔ [ہریجن، فروری، 1939]
مجھے امید ہے کہ یہ بات جموں و کشمیر کے عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر تک پہنچے گی اور انہیں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے میں مدد ملے گی۔
(تشار گاندھی مہاتما گاندھی کے پڑپوتے، سماجی کارکن اور مہاتما گاندھی فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر