ہندوستان میں ایم پی اور ایم ایل اے بننے کے لیے کسی قسم کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایم پی اور ایم ایل اے اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری پیش کریں تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ اسی طرح کے خدشات اور شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔
ہندوستانی آئین کا کوئی بھی آرٹیکل یا شق، اور نہ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ کی کوئی دفعہ، ایم پی اور ایم ایل اے کے انتخاب کے لیے کسی بھی قسم کی تعلیمی اہلیت کی شرط کے بارے میں بات کرتا ہے۔ یعنی ہندوستان میں ایم پی اور ایم ایل اے بننے کے لیے کسی بھی قسم کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ایم پی اور ایم ایل اے اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری پیش کرتے ہیں تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔
فرضی ڈگری پیش کرنے کا مطلب ہے کہ امیدوار نے غلط معلومات دے کررائے دہندگان کو گمراہ کیا ہے۔ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 191 کے مطابق یہ قابل سزا جرم ہے۔ رکنیت کی منسوخی کا بھی امکان ہے۔
گجرات ہائی کورٹ نے 2016 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کے ذریعے دیے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے جس میں سی آئی سی نے گجرات یونیورسٹی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری شیئر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اروند کیجریوال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد گاؤں اور دیہی علاقوں میں وزیر اعظم کے حامی بھی ہنس رہے ہیں اور دبی زبان میں پوچھ رہے ہیں کہ آخر یہ کیسا فیصلہ ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری اصلی ہے یا فرضی، اس کو لے کرلوگوں کے ذہنوں میں شک کیوں پیدا ہو رہا ہے ؟
اروند کیجریوال اپنی بات رکھتے ہوئےعوام کو یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ ایک وزیر اعظم کے لیے تعلیم یافتہ ہونا کیوں ضروری ہے؟ ایم پی اور ایم ایل اے کی تعلیمی استعداد کے بارے میں ہندوستان کے آئین سے اخذ کردہ مفاہیم کیا ہیں؟ تعلیم سے بڑھ کر وہ کون سے معیارات ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے لیڈروں کو پرکھنا چاہیے؟
کہاں سے شروع ہوا تھا ڈگری کا تنازعہ
عام آدمی پارٹی کے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر پر حلف نامہ میں فرضی ڈگری داخل کرنے کا الزام تھا۔ اسی وقت بی جے پی حکومت میں وزیر کے طور پر کام کرنے والی اسمرتی ایرانی پر بھی فرضی ڈگری رکھنے کا الزام لگا تھا۔ لیکن جتیندر سنگھ تومر کے معاملے میں دہلی پولیس نے جس تیزی کا مظاہرہ کیا، اس کے مقابلے اسمرتی ایرانی کے معاملے میں اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
جتیندرسنگھ تومر کو گرفتار کر لیا گیا۔ سال 2015 میں جعلی ڈگری کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بعد ازاں دہلی ہائی کورٹ نے بھی اسی سال دہلی قانون ساز اسمبلی میں ان کی رکنیت بھی منسوخ کر دی۔ جب یہ معاملہ سامنے آیا اور اروند کیجریوال کی حکومت کو گھیرا جانے لگا تو وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق تنازعہ بھی طول پکڑنے لگا۔
عام آدمی پارٹی کے رہنما اپنی ڈگریاں دکھا رہے تھے اور چیلنج کر رہے تھے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنی ڈگریاں دکھائیں۔ یہیں پر معاملہ اس حد تک گرم ہو گیا کہ اب ملک کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری جعلی تو نہیں ہے؟
سال 2014 میں الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اپنے حلف نامہ میں نریندر مودی نے پہلی بار قبول کیا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ 2014 سے پہلے لڑے گئے گجرات اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی نے اپنے حلف نامے میں شادی شدہ ہونے کی بات کا کبھی اعتراف نہیں کیا تھا۔ یہی چیز لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔ لوگوں کو لگا کہ جو شخص اپنی شادی کے بارے میں غلط معلومات دے سکتا ہے وہ اپنے بارے میں بھی غلط جانکاری دے سکتا ہے۔ یہیں سے یہ شک بھی جنم لینے لگا کہ کیا نریندر مودی کی دی گئی دیگر معلومات درست ہیں؟
سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے حلف نامہ کے مطابق، نریندر مودی نے فاصلاتی نظام تعلیم کے پروگرام کے تحت سال 1978 میں دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور سال 1983 میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ نریندر مودی کے اس دعوے کو لے کر وزیر اعظم کے دفتر، الیکشن کمیشن، دہلی یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی میں کئی آر ٹی آئی دائر کی گئی ہیں۔ وزیراعظم دفتر سے پوچھنے پر جواب آیا کہ الیکشن کمیشن سے پوچھیے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب آیا کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ لیجیے۔ گجرات یونیورسٹی نے جواب دیا کہ 2005 کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اس معلومات کو عام نہیں کیا جا سکتا۔
دہلی کے رہنے والے ہنس راج جین نے بھی دہلی یونیورسٹی میں آر ٹی آئی دائر کی اور نریندر مودی کی ڈگری کے بارے میں دریافت کیا۔ انہیں بھی کسی قسم کا تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ اس کے ساتھ ہی عام آدمی پارٹی کے لیڈر جتیندر سنگھ تومر کے خلاف بھی جعلی ڈگری تنازعہ کا معاملہ چل رہا تھا۔ عام آدمی پارٹی پر شدید حملے ہو رہے تھے۔
اسی وقت سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے کیجریوال سے ان کی الیکشن آئی ڈی کے بارے میں بھی جانکاری مانگی تھی۔ اپریل 2016 میں اروند کیجریوال نے چیف انفارمیشن کمشنر یعنی سی آئی سی شری دھر آچاریلو کو انتہائی سخت الفاظ میں ایک خط لکھا اور نریندر مودی سے متعلق معلومات کو عام کرنے کو کہا۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے اس خط کو آر ٹی آئی درخواست کے طور پر دیکھا اور گجرات یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق معلومات شیئر کرنے کا حکم دیا۔
اسی کے بعد بی جے پی لیڈر امت شاہ اور ارون جیٹلی نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کو عام کیا اور کہا کہ اروند کیجریوال نے ملک کی بدنامی کی ہے۔ انہیں معافی مانگنی چاہیے۔
اس کے جواب میں عام آدمی پارٹی کے اس وقت کے لیڈر آشوتوش نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ امت شاہ اور ارون جیٹلی بھگوان نہیں ہیں کہ ان کی بات مان لی جائے۔ پبلک کی گئی ڈگری میں بہت سی خامیاں ہیں۔ یہ ڈگری فرضی ہے۔
گجرات یونیورسٹی نے نریندر مودی کو ڈگریاں دینے کے سی آئی سی کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے گجرات ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ یونیورسٹی نے کہا تھا کہ کمیشن کا حکم ناقص ہے، اسے منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔ سات سال بعد اب اس معاملے پر فیصلہ آیا ہے۔
گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ
گجرات ہائی کورٹ کی سنگل بنچ کےجسٹس بیرین ویشنو نے سی آئی سی کے 2016 میں دیے گئے حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اروند کیجریوال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے جسے چار ہفتوں کے اندر گجرات اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے پاس جمع کرانا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے دور میں اداروں کی آزادی کو لے کر بے شمار سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔
اس فیصلے کے بعد عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم کی جو ڈگری کو امت شاہ کے ذریعے عام کی گئی ہے۔ وہ جعلی ہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ وزیر اعظم کے ماسٹر آف آرٹ یعنی ایم اے کی ڈگری میں یونیورسٹی کاا سپیلنگ غلط ہے۔ یونیورسٹی میں ‘وکٹری وی’ آتا ہے جبکہ اس میں ‘بیٹ والا بی’ استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ یونیورسٹی کے بجائے یونی برسٹی ہوگئی ہے۔
لیکن فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے صحافی ابھیشیک نے ٹوئٹ کیااور بتایا کہ وہاں ‘یونی برسٹی’ نہیں لکھا جاتا۔ یہ املا کی غلطی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس قسم کا فانٹ استعمال کیاگیا ہو، جہاں لوئر کیس ‘وی’ لوئر کیس ‘بی’ کی طرح لگتا ہے۔
دوسری جانب سنجے سنگھ نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ جس فانٹ میں ماسٹر آف آرٹس لکھا گیا ہے اس کی شروعات 1992 میں ہوئی تھی۔ جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایم اے کی ڈگری 1983 میں حاصل کی تھی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
فیصلے سے آگے
گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ مضحکہ خیز ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ضابطہ کہتا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی ڈگری جعلی پائی گئی تو رکنیت مسترد کی جا سکتی ہے۔ یہ بہت بڑا فراڈ ہے۔ نہ وہ ایم پی بچ پائے گا اور نہ ہی وہ الیکشن لڑ سکے گا۔
گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اروند کیجریوال نے پریس کانفرنس بھی کی۔ ان کی پریس کانفرنس کا لب لباب یہ تھا کہ ملک ترقی نہیں کر پا رہا کیونکہ ملک میں پڑھا لکھا وزیر اعظم نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں پڑھا لکھا وزیراعظم ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ڈرین گیس سے چائے بنائی جا سکتی ہے۔اگر ہوائی جہاز بادلوں کے پیچھے سے جائے تو رڈار اسے نہیں پکڑ سکے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیا کوئی پڑھا لکھا وزیراعظم ایسی بات کرے گا؟ ایسی باتیں سن کر پوری دنیا ہندوستان پر ہنستی ہے۔ اگر ملک کا وزیر اعظم پڑھا لکھا نہیں تو آپ اسے کسی بھی کاغذ پر دستخط کروا لیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری پر مزید شکوک وشبہات بڑھ گئے ہیں۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا وزیراعظم کتنا پڑھا لکھا ہے؟ عوام پوچھ رہی ہے کہ ڈگری ہے تو گجرات یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی ڈگری کیوں نہیں دکھاتی؟ عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں کہ یا تو ڈگری نہیں ہے یا اگر ہے تو کیا جعلی ہے؟
اروند کیجریوال کی جزوی بات درست ہے کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے اس بارے میں مزید شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ آیا وزیر اعظم کی ڈگری اصلی ہے یا نہیں؟ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیسے مان لیں کہ وزیراعظم کی ڈگری جعلی نہیں ہے؟ لیکن وزیر اعظم کی تعلیم اوران کے مضحکہ خیز بیانات کے ذریعےوہ ملک کی ترقی کی وکالت کر رہے ہیں اور وزیر اعظم کے عہدے کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کی جو شرط لگا رہے ہیں، اس میں چالاکی زیادہ ہے۔
کیابننا چاہیے کوئی قانون؟
حقیقت یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں اس بات پر کافی بحث ہوئی تھی کہ کیا عوامی نمائندے یعنی ایم پی اور ایم ایل اے کے انتخاب میں تعلیمی اہلیت کی شرط رکھی جائے؟ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ ایسی کوئی ایسی شرط نہ رکھی جائے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو محروم ہونا پڑے۔
سب جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک غریب ملک ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہندوستان کی ایک بڑی آبادی اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے۔ یعنی اگر ہم ڈگریوں کا اہتمام کر دیں تو اب بھی ایک بڑی آبادی جمہوریت سے باہر ہو جائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ تعلیم بہت ضروری ہے۔ لیکن الیکشن لڑنے کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس سے ایک بڑی آبادی کو جمہوریت سے باہر رکھا جائے۔ یہ ناانصافی ہوگی۔
اگر آپ اب بھی جمہوریت میں سب کی شرکت کا مطلب نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اسے اس طرح سمجھیں کہ اگر تعلیمی اہلیت جیسی کوئی شرط لگا دی جائے تو اس میں غریب، پسماندہ افراد، خواتین جیسی بڑی آبادی شرکت نہیں کر سکے گی۔ ہندوستانی جمہوریت صرف کاغذات پر اشرافیہ کی جمہوریت ہی رہ جائے گی۔
اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی شخص گھر کی چہار دیواری میں رہ کر ایم پی یا ایم ایل اے نہیں بنتا۔ بلکہ وہ عوام کے درمیان الیکشن لڑتا ہے۔ وہ عوام میں جاتا ہے اور اپنی بات رکھتا ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ عوام کو اسے آزمانے کا پورا موقع ہوتا ہے کہ اس کو جانچنے کے لیے ایک ایماندار پیمانہ بنائیں۔
موجودہ انتخابی نظام کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ الیکشن لڑنے کے لیے قانون کی کسی بھی شق میں تعلیمی اہلیت کا کوئی اہتمام نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا، سی بی آئی، ای ڈی جیسے اداروں کے ذریعے نظام کو اتنا توڑ مروڑ کر رکھ دیا گیا ہے کہ عوام کی جانچ کا پیمانہ ہی بے ایمان ہوتا جا رہا ہے۔ اب اگر میڈیا کے ذریعے 24 گھنٹے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کی وکالت کی جائے گی تو عوام کے پرکھنے کا پیمانہ اچھابن سکتا ہے؟
اور یاد رکھیں کہ ان تمام اداروں میں ناخواندہ لوگ نہیں پہنچتے بلکہ وہاں صرف پڑھے لکھے لوگ پہنچتے ہیں۔ اروند کیجریوال سے پوچھا جائے کہ وہ ان پڑھے لکھے لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جہاں تک نریندر مودی کے احمقانہ بیانات کا تعلق ہے تو اس میں تعلیم کی کمی یا ناخواندہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی بہت سی احمقانہ، غیر منطقی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ تلاش کرنے جائیں تو آپ کو بہت سے لوگوں کے ایسے بیانات دیکھنے کو ملیں گے جو آئی اے ایس اور جج کے عہدے پر رہے ہیں۔
نریندر مودی احمقانہ بیان اس لیے دینے کے قابل ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ سوال کرنے والی تنظیمیں ان سے کھل کر سوال نہیں کریں گی۔ جو لوگ سوال کرنا چاہتے ہیں انہیں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے اپنے اردگرد ایسا ماحول بنایا ہے جو ایک آمر کا رویہ ہے۔ اگر انہیں اس بات کا ڈرہوتا کہ ان کے قول و فعل کی جائز چھان بین عوام کے سامنے پیش کر دی جائے گی تو وہ کوئی بھی احمقانہ اور لغو بات کہنے سے پہلے اپنے بیان پر چار بار سوچتے۔ اگر نظام ٹھیک چلتا ہے تو آئینی عہدے پر بیٹھے کسی شخص کو آئینی حدود سے تجاوز کر کے کوئی بات کرنے یا کوئی کام کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔
اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم کو سینکڑوں فائلوں پر دستخط کرنے ہوتے ہیں، اگر وہ پڑھے لکھے نہیں ہوں گے تو ان سے غلط فائل پر دستخط کرائے جائیں گے۔ چونکہ اروند کیجریوال بھی ہندوستانی سیاست کو اپنے آمرانہ چشمے سے دیکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے یہ قبول کر لیا ہے کہ ایک شخص ملک چلاتا ہے۔
اس میں میڈیا اداروں کا بھی قصور ہے جو اس طرح بحث کرتے ہیں کہ عام لوگ نظام کے کام کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے۔ منتخب نمائندے کا کام عوام کے دکھ درد کو سمجھنا ہے۔ پارلیامنٹ اور ودھان سبھا میں آواز بلند کرنا ہے۔ باقی تمام کام کرنے کے لیے آئی اے ایس افسران، سکریٹریٹ کے اہلکار وغیرہ موجود ہیں۔
فرض کیجیے کہ صنعتی شعبے یا ماحولیاتی شعبے سے متعلق کسی بھی اہم دستاویز پر دستخط کیے جانے ہیں تو وزیر اعظم یا کسی بھی رہنما کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس شعبے میں کام کرنے والے عہدیداروں کے ایک گروپ سے بات چیت کے بعد ہی فیصلہ کریں جو اس شعبے سے واقف ہوں۔ یہ قاعدہ ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ آمرانہ رویہ اپنا رہا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم پر نوٹ بندی کے فیصلے کا الزام ہےکہ انہوں نے آر بی آئی کی بات بھی نہیں سنی۔
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ وزیراعظم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو آمر بننے کا حق مل گیا ہے۔ بلکہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بیٹھا شخص بڑی ذمہ داری کے ساتھ جانے مانے ماہرین سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔
اب یہ نظام بھی درہم برہم ہوچکاہے۔ اگر آئی اے ایس افسران کو آئین کی اقدار سے زیادہ اپنے عہدے، ساکھ، نوکری میں لابنگ کی فکر ہے تو وہ ایسے بہت سے کام کریں گے جو آئین کے مطابق انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اڈانی گھوٹالے میں تمام انگلیاں وزیر اعظم کی طرف اٹھ رہی ہیں تو جو افسران وزیر اعظم کو مشورہ دینے کا کام کرتے ہیں انہیں بھی اس میں ملوث سمجھا جانا چاہیے۔ وہ کیسے الگ ہو سکتے ہیں؟
باقی آپ سب، وزیراعظم کی ڈگری اصلی ہے یا جعلی؟ اگر آپ اس موضوع پر سوچ رہے ہیں تو یہ بھی سوچیں کہ آپ ایسے لیڈروں کو کیوں چن کر بھیجتے ہیں، جن کے ہوتے ہوئے ہندوستان کے ہر خطہ میں تعلیمی نظام ناقص ہے اور جعلی ڈگریاں لینے اور دینے کا کاروبار زور و شور سے جاری ہے؟
Categories: فکر و نظر