گزشتہ دنوں تمل ناڈو میں بہار کے مزدوروں پر مبینہ حملے کی افواہیں پھیلانےکے الزام میں خود کو صحافی کہنے والے یو ٹیوبرمنیش کشیپ کو بہار پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اب ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی منیش کشیپ کو ‘اشرافیہ’ کمیونٹی کے ایک مظلوم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ حکمران مہا گٹھ بندھن کا مقابلہ کرسکے۔
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جس نے گزشتہ چند ماہ بہار کے حکمراں گٹھ بندھن کے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو ٹالنےمیں صرف کیے ہیں، کو لگتا ہے کہ منیش کشیپ کی صورت میں ان کو اس مسئلے کا حل مل گیا ہے۔ کشیپ پر تمل ناڈو نے قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت الزام عائد کیا ہے۔
کشیپ بہار کے ‘سٹیزن جرنلسٹ’ ہیں، جنہوں نے گزشتہ مارچ کے پہلے ہفتے میں فرضی خبروں کے ویڈیو بنائے اور اپ لوڈ کیے تھے، جن میں دکھایا گیا تھا کہ بہار کے مزدوروں پر تمل ناڈو میں حملہ کیا جا رہا ہے۔
بتادیں کہ 13 مارچ 2023 کو ان کی گرفتاری کے بعد سے بی جے پی انہیں ذات پات کی سیاست کے ‘شہید’ کے طور پر پیش کر رہی ہے اور الزام لگا رہی ہے کہ منیش کواس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ بھومیہارہیں۔
بھومیہاروں نے ہمیشہ لالو یادو کے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی مخالفت کی ہے، جو ‘نچلی’ ذاتوں اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ آر جے ڈی اس وقت بہار میں حکمران مہا گٹھ بندھن کا حصہ ہے۔
گزشتہ 23 مارچ کو بہار میں برہمن اور بھومیہار گروپوں نے کشیپ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے بند کی کال دی تھی۔
اس سے پہلے 15 مارچ کو کشیپ کے یوٹیوب چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بہار میں بی جے پی سے اپوزیشن لیڈر وجئے کمار سنہا نے کہا تھا، ‘بڑے بھائی (بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جے ڈی یو) اور چھوٹے بھائی (لالو یادو کے بیٹے اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو) ) نے حلف اٹھایا تھا کہ وہ ذات پات اور کرپشن سے پاک معاشرہ بنائیں گے۔ وہ بدعنوان لوگوں کی گود میں بیٹھ کر بہار کو متاثر کرنے کے لیے ذات پات کے زہر کی لہر کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ منیش کشیپ کو بھومیہار ہونے کی وجہ سے ٹارچر کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ برادری (بھومیہار) آپ کے جنگل راج کے زوال کی وجہ بنی تھی۔
کشیپ حکمت عملی
سیاست اور میڈیا پر لکھنے والے ایک آزاد صحافی اور محقق نیل مادھو کے مطابق، منیش کشیپ کیس نے بی جے پی کو ایسے وقت میں مہا گٹھ بندھن سے دو دوہاتھ کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے جب بہار میں پارٹی بیک فٹ پر ہے۔
مادھو نے کہا، روایتی طور پر بھومیہاروں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے اور اگرچہ وہ ریاست کی آبادی کا صرف 4 فیصد ہیں، لیکن وہ بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور یہاں تک کہ دوسری برادریوں کو بھی اس بات کے لیے راضی کر سکتے ہیں کہ انہیں کہاں ووٹ دینا ہے؟
تاہم، پچھلے سال جب نتیش کمار کی جے ڈی (یو) نے بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اےکو چھوڑ دیا اور آر جے ڈی کی قیادت والے مہا گٹھ بندھن میں شمولیت اختیار کی، تب تیجسوی یادو نے اعلان کیا تھاکہ گٹھ بندھن کی پالیسی میں اب ہرذات اور طبقہ شامل ہے، جن میں بھومیہار بھی ہیں۔
مادھو کے مطابق، اس نے بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا، کیونکہ بھگوا پارٹی کے پاس کئی سالوں سے ریاست میں کوئی سینئر بھومیہار لیڈر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مہا گٹھ بندھن نے زور شور سے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ شروع کر دیا، جس کا مقابلہ کرنا بی جے پی کے لیے مشکل ہو گیا۔
مادھوسمجھتے ہیں کہ ان حالات میں منیش کشیپ کی گرفتاری کو اشرافیہ کمیونٹی کے لیے آر جے ڈی کی من مانی کی مثال کے طور پر استعمال کرنا بی جے پی کے لیے ایک بہترین حکمت عملی ہے۔ تیجسوی یادو کے اعلان کے بعد جو بھومیہار مہا گٹھ بندھن میں دلچسپی رکھتے تھے، وہ اب بی جے پی میں واپس آ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ جوسمجھتے تھے کہ ذات پر مبنی مردم شماری ‘اعلیٰ’ ذاتوں کے لیے بری خبر ہو گی، ان کے اس یقین کی تصدیق ہو جائے گی۔
مادھو کا کہنا ہے کہ اونچی ذات کے اندر عدم تحفظ کو بڑھانے کے لیے بی جے پی کو ‘اونچی ذات کے شہیدوں’ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں،’منیش کشیپ ایک ‘بہترین شہید’ بنتے ہیں – وہ ایک عام آدمی ہے جو برے سیاست دانوں سے لڑتا ہے۔ کشیپ کے معاملے کو بہار سے باہر برہمنوں سمیت اعلیٰ ذاتوں پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ ظاہر کر کے کہ ریاست میں جنگل راج اب بھی موجود ہے، جیسا کہ آر جے ڈی حکومتوں کو اکثر ان کے مخالفین یہ کہہ کرمخاطب کرتے تھے۔
کشیپ کے ذاتی مفادات بھی بی جے پی کی پالیسیوں سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں، جس سے بھگوا پارٹی کے لیے انہیں ‘اشرافیہ ‘ کمیونٹی کے مظلوم کے طور پر پیش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
جب کشیپ نے تمل ناڈو میں بہاری مزدوروں پر حملہ سے متعلق ایک فرضی ویڈیو جاری کیا تو انہوں نے اس کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں بھی ایک ٹوئٹ کیا تھا۔
انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا تھا، ‘تیجسوی یادو جی، اپنی عینک اتار کر یہ ویڈیو دیکھیں، مزدوروں کے چہروں پر زخم ہیں اور ریکارڈنگ کرنے والے میڈیا کا موبائل نمبر بھی موجود ہے۔ ایک بار بات کرنے کی کوشش کریں، کیا پتہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں اور مزدور سچ میں تمل ناڈو میں پریشان ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ (آپ) ذات پر مبنی مردم شماری کی بات کرتے ہیں نہ ، تو ایک بار ان لوگوں سے ان کی ذات کے بارے میں پوچھ لیں، آپ کے دل کو تھوڑا سکون ملے گا۔
یوٹیوبر کشیپ بی جے پی کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے بھی میل کھاتے ہیں- ایک سٹیزن جرنلسٹ کے طور پر وہ جو ویڈیوز بناتے ہیں ان میں سے بہت سے اقلیت مخالف ہیں اور بی جے پی کی طرح ہی وہ آر جے ڈی کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اکثر لالو یادو کی پارٹی پر بدعنوان خاندان کی قیادت کرنے کا الزام لگایا اور شکایت کی کہ بہار میں ان پڑھ لوگوں کی حکومت ہے۔
مجرمانہ پس منظر
تاہم،ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کشیپ کو ذات پات کی سیاست کے شکار کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس یوٹیوبر کے مجرمانہ پس منظر اور تشدد کی تاریخ کو بھول گئی ہے۔
کشیپ کے خلاف کم از کم 9 مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ فرضی نیوز ویڈیو کے معاملے میں تین، ایک معاملہ 2019 میں کشمیری شال فروشوں پر حملہ کرنے سے متعلق ہے اور باقی کا تعلق دھوکہ دہی، جعلسازی، غلط طریقے سے قید کرنے ، فسادات، حملہ، مجرمانہ سازش، دھمکیاں دینے اور شدید چوٹ پہنچانے سے ہے۔
حال ہی میں فرضی ویڈیو کیس میں ان پر تمل ناڈو پولیس نے این ایس اے کے تحت بھی الزام لگایا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 9 مارچ 1991 کو پیدا ہونے والے کشیپ کا اصل نام تری پراری کمار تیواری ہے، جو چمپارن بہار کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی تھی۔
بدعنوانی سے لڑنے اور مقامی مسائل کو اٹھانے والے ‘سٹیزن جرنلسٹ’ کے طور پر اپنے آپ کو ‘سن آف بہار’ کے طور پر پیش کرنے سے پہلےکشیپ ہندو پتر سنگٹھن سے وابستہ تھے۔
اس تنظیم پرمسلم مخالف تشدد کا الزام ہے اور اس کے خلاف پٹنہ اور حاجی پور میں کئی مقدمات درج ہیں۔ ہندو پتر سنگٹھن ان 18 تنظیموں میں سے ایک تھی جن کی تفصیلات مئی 2019 میں بہار پولیس کی اسپیشل برانچ نے مانگی تھیں۔
سال 2019 میں کشیپ پر پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد پٹنہ کے لہاسا بازار میں کشمیری شال فروشوں پر حملہ کرنے کا الزام تھا۔
کشیپ کے قریبی ساتھی اور ہندو پترا سنگٹھن کے ایک اہم کارکن ناگیش سمراٹ کو بھی پٹنہ پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا۔ دو سال بعدسمراٹ کا نام شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہرین کے خلاف تشدد کے سلسلے میں سامنے آیا تھا۔ تشدد میں ہندو پترا سنگٹھن کے کارکنوں نے مبینہ طور پر امیرحنظلہ نامی ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔
بہار کے اقتصادی جرائم یونٹ (ای او ڈبلیو) کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سشیل کمار کے مطابق، تمل ناڈو سے متعلق فرضی خبروں کے سیلاب کے سلسلے میں ناگیش سمراٹ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ جب پولیس منیش کشیپ کو عدالت لے گئی، تو جس وین میں کشیپ کو لے جایا گیا تھا اس کا ناگیش سمراٹ نے پیچھا کیا تھا۔
ان کے مطابق، سمراٹ کی ہندوتوا لیڈروں سے قربت کو دیکھتے ہوئے پولیس کا خیال ہے کہ عدالت تک وین کا پیچھا کرنے کا خیال شاید قانون نافذ کرنے والوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھا۔ کمار نے کہا کہ ویڈیو وائرل ہونے پر کشیپ سمراٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔
اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی
جب کشیپ نے اپنا تعارف ایک سٹیزن جرنلسٹ کے طور پر کرایا، تو خود کو مستحکم کرنے میں ان کو چار سال لگے۔ تاہم، اب ان کے اور ان کے چینل ‘سچ تک نیوز’ کے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کل ایک کروڑ فالوورز ہیں۔
ان کے چھ یوٹیوب چینلوں پر مشترکہ فالوورز کی تعداد 7 ملین کے قریب ہے اور فیس بک پر اس کے 4 ملین سے زیادہ فالوورز ہیں۔ یہ ان کے نام کے درجنوں فین پیج سے الگ ہے۔
پٹنہ میں کشمیری تارکین وطن پر مبینہ حملے سے پہلے، کشیپ ایک وائرل میم ویڈیو کے لیے مشہور ہوئے جس کا عنوان تھا’گان* پر گولی مار دیں گے’۔
ویڈیو میں،کشیپ ایکسائڈ بیٹری ورکشاپ کے ملازمین کو بائیک کی خراب بیٹری کے لیےگالی گلوچ کرتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں۔ ایک اور وائرل ویڈیو بین مذہبی شادیوں کے خلاف ہے، جس میں کشیپ بار بار اونچی اور غصے والی آواز میں اعلان کر رہے ہیں، ‘نہیں ہونا چاہیے’۔
تاہم، انہوں نے خواتین کے خلاف جرائم پر کئی ویڈیوز بنائے ہیں، جن میں تقریباً ہمیشہ ایک مسلمان مجرم اور ایک ہندو مظلوم شامل ہوتا ہے، جیسا کہ تھمب نیل پر ناموں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
سال 2020 میں، کشیپ نے بہار کی چن پٹیا اسمبلی سیٹ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ جب وہ الیکشن ہار گئے تو انہوں نے اپنے ویڈیومیں مقامی مسائل پر فوکس کرنا شروع کر دیا۔
ان کے ویڈیوز میں طرح طرح کے مزاحیہ اور ڈرامائی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک وائرل ویڈیو میں، وہ ڈرامائی طور پر کار سے ایک آٹو ڈرائیور کا پیچھا کرتے ہیں اور اسے روکتے ہیں اور اس پر لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا الزام لگاتے ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں، وہ بہار میں کھچا کھچ بھری بس کا پیچھا کرتے ہیں اور پھر ڈرائیور پر چیختے ہیں ۔ ایک اور ویڈیو میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اداکار شاہ رخ خان کو ممبئی میں ویب سیریز کی شوٹنگ سے روک دیا۔
کشیپ سٹیزن جرنلسٹ کے اس شدت پسند برانڈ کی نمائندگی کرتے ہیں ، جو کہانی کا حصہ بن جاتا ہے۔ کبھی کبھی وہ کہانی بھی بن جاتے ہیں۔ ان کی بہت ساری وائرل ویڈیوز کے عنوانات کچھ ایسے ہوتے ہیں، ‘منیش فلاں پر کیوں غصہ ہوئے؟’
دی وائر نے کشیپ کے چینل پر کئی ویڈیوز، انٹرویوز، ٹوئٹ اور پوسٹ کوکھنگالا اور پایاکہ وہ اقلیتوں کے خلاف بدسلوکی کرتے ہیں۔ بالی وڈ کے بعد یہ ان کا دوسرا پسندیدہ ہدف ہے۔
ان کے تصدیق شدہ ‘سچ تک نیوز اکاؤنٹ’ پر پرانے ٹوئٹ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں توہین آمیز اور پرتشدد زبان سے بھرے ہوئے ہیں۔ ٹوئٹ میں مسلمانوں کو ‘پنکچر والا’ اور اسلام کو ‘سر درد’ بتایا گیا ہے۔ کچھ میں اقلیتی برادریوں اور اسد الدین اویسی جیسے سیاست دانوں کے خلاف کھلی دھمکیاں ہیں۔
بالی وڈ کے خلاف احتجاج
کشیپ نے سشانت سنگھ راجپوت خودکشی کیس پر بھی کئی ویڈیوز بنائے تھے اور کیس کے حوالے سے سازشی نظریات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔
وہ ‘جسٹس فار ایس ایس آر’ سوشل میڈیا مہم کے ساتھ قریب سے وابستہ تھے اور مہم کو چلانے والے شخص نیلوتپل مرنال کے ساتھ کئی ویڈیوز میں نظر آئے تھے۔
جس طرح تمل ناڈو میں بہاری مزدوروں کے ان کے فرضی ویڈیو نے قومی تناؤ پیدا کیا، اسی طرح سشانت سنگھ راجپوت کیس پر ان کی ویڈیو نے ممبئی میں زبردست ہلچل مچا دی تھی۔
ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں،’ابتدائی تحقیقات سے ایسا لگتا ہے کہ ریا چکرورتی نے غلط طریقے سے سشانت سنگھ راجپوت کو اپنے بس میں کر رکھا تھا اور وہ غیر قانونی طور پر ان کے تمام پیسے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کر رہی تھی… وہ اس ملک کی سب سے بڑی چور ہے۔
ایک ویڈیو میں وہ ریا چکرورتی کے مہیش بھٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ‘اگر وہ ان کے لیے ایک باپ کی طرح ہیں تو مجھے ایسے باپ کو گولی مارنےکا دل کرتا ہے۔’
کشیپ نے شاہ رخ خان کی فلم کے خلاف ‘بائیکاٹ پٹھان’ مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ ان کا ایک مسئلہ –جو کہ صحیح ہے — شاہ رخ خان اور بالی وڈ کے دیگر ستاروں کے ساتھ یہ ہے کہ وہ تمباکو مصنوعات کو فروغ دیتے ہیں۔ لیکن وہ اس مسئلے کو فحش انداز میں پیش کرتے ہیں ، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ‘شاہ رخ کے منہ پر گٹکھا تھوک دیں گے اور اس سے اسے چٹوائیں گے اور کہلوائیں گے کہ اس کا ذائقہ اچھا ہے یا نہیں’۔
انہوں نے شاہ رخ کے بیٹے آرین کی گرفتاری کے بعد ممبئی میں ان گھر کے باہر ایک ویڈیو بھی ریکارڈ کیا تھا، جس میں وہ کہتے ہیں، ‘یہی وہ منت ہے، جہاں شاہ رخ خان رہتے ہیں اور اس گھر میں ان کے بیٹے آرین خان بھی رہتے تھے۔ ابھی وہ جیل میں ہے۔ ہم نے انہیں استار بنایا ہے۔ دیکھیے ، لوگ یہاں تصویریں لینے آتے ہیں اور انہیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ جنت میں ہوں۔ اب مجھے بتاؤ، ایک ایسا شخص جس کا بیٹا منشیات لیتا ہے اور ایک بیٹا جس کا باپ آپ کو ٹی وی پر کہتا ہے کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر زانی ہو گا اور نشے کی لت میں مبتلا ہو گا… ہم نے کس کو سپرا سٹار بنایا ہے؟
اس کے بعد وہ شاہ رخ خان کو ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے گھر کے باہر کی سڑک صاف نہیں ہے۔
تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ منیش کشیپ کی ‘شہادت’ بی جے پی کے حق میں کام کرے گی یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: فکر و نظر