گلفشاں فاطمہ کو دہلی پولیس نے تین سال قبل 9 اپریل کو اُسی سال یعنی 2020 کے اوائل میں شمال–مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں ہوئے فسادات کے دوران جھڑپوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ 13 مئی 2020 کو جب کیس میں ان کو ضمانت مل گئی تو ان کے خلاف ایک نئی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
نئی دہلی: ‘ناانصافیوں کے باوجود خاموش رہو گے تو بچ جاؤ گے۔ لیکن اگر آپ ان کی (سرکارکی) تنقید کرتے ہیں ، تو وہ آپ کے لیے جیل کے دروازے کھول دیں گے۔’یہ کہنا ہے گلفشاں فاطمہ کے والد تصنیف حسین کا۔
فاطمہ کو دہلی پولیس نے (ایف آئی آر 48/2020 کے تحت) 2020 کے اوائل میں شمال–مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں ہوئے فسادات کے دوران جھڑپوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونےکے الزام میں گرفتار کیا تھا۔گزشتہ 9 اپریل کو فاطمہ کوجیل میں تین سال ہو گئے۔ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ ان پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی کئی دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا، جن میں دنگا برپا کرنے اور سرکاری ملازمین پر حملہ کرنے کے الزام بھی شامل تھے۔
اگرچہ، سی اے اے 11 دسمبر 2019 کو لاگو کیا گیا تھا، لیکن اس کے قوانین ابھی تک بنائے نہیں گئے ہیں۔ قوانین بنائے بغیر قانون پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔اب جبکہ اس قانون پر عمل درآمد ہونا باقی ہے، فاطمہ کی طرح کئی مسلمان سیاسی قیدی اس قانون کی مخالفت کے باعث جیل میں بند ہیں ، جس کو وہ ‘مذہبی طور پر امتیازی’ قانون قرار دیتے ہیں۔
دہلی پولیس اور سازش
فاطمہ کو 13 مئی 2020 کو دہلی کی ایک عدالت سےکیس (ایف آئی آر 48/2020) میں ضمانت ملنے کے بعد، پولیس نے ان کی حراست کو یقینی بنانے کے لیے ان کے خلاف ایک اور ایف آئی آر (59/2020) درج کر لی۔ دوسری ایف آئی آر میں، پولیس نے ان پریو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت الزام عائد کیے۔
ایف آئی آر 59/2020 میں الزام لگایا گیا ہے کہ دہلی فسادات شرجیل امام، عمر خالد، گلفشاں فاطمہ، شفیع الرحمان خان، نتاشا ناروال، دیوانگنا کلیتا، عشرت جہاں، میران حیدر، صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا، طاہر حسین، محمد فیضان، خالد سیفی، شاداب احمد، تسلیم احمد، سلیم ملک، محمد سلیم خان اور اطہر خان کی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھے۔
دونوں ایف آئی آرمیں فاطمہ پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ پولیس کا الزام ہے کہ 31 سالہ کارکن 22 فروری سے 24 فروری تک دہلی کے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب 66 فٹ روڈ پر ایک احتجاجی مظاہرے میں موجود تھیں۔ پولیس کا الزام ہے کہ یہ سی اے اے اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف مقامی مسلمانوں کو’سازش کرنے اور مسلسل اکسانے’ میں ان کےرول کو ثابت کرتا ہے۔
پولیس کے مطابق، فاطمہ نے سی اے اے، این آر سی اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ‘پرامن احتجاج کی آڑ میں’ مذکورہ احتجاجی سائٹ کے قریب ایک دفتر کھول لیا تھا۔ پولیس نے ایف آئی آر میں یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں عمر خالد، نتاشا اور دیوانگنا کے ساتھ مل کر فسادات کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ایف آئی آر میں ان پر مقامی لوگوں کو ‘تشدد اختیار کرنے’ اور پولیس کے خلاف پتھر، لاٹھی اور بندوق کا استعمال کرنے کے کے لیے اکسانےکا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
اپریل 2020 میں فاطمہ کی گرفتاری کے بعد ان کے اہل خانہ نے 22 جون 2020 کو دہلی ہائی کورٹ میں ان کی گرفتاری کو چیلنج کرتے ہوئے ایک ہیبیس کارپس کی عرضی دائر کی تھی۔ لیکن جسٹس وپن سانگھی اور رجنیش بھٹناگر کی ڈویژن بنچ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور فیصلہ دیا کہ وہ ‘غیر قانونی حراست’ میں نہیں ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ عدالتی حراست میں ہیں۔ عدالت نے مزید کہا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج کا انہیں 25 جون 2020 تک عدالتی حراست میں بھیجنے کا فیصلہ درست تھا۔ یہ بھی کہا کہ ان کو ریمانڈ پر نہ لینے سے عوامی خلفشار، کنفیوژن اور فساد کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
ان کے خلاف مجموعی طور پر تین ایف آئی آر درج ہیں: ایف آئی آر 48/2020، ایف آئی آر 59/2020، اور ایف آئی آر 83/2020۔
آخری ایف آئی آر (83/2020) اپریل 2020 میں ان کی گرفتاری کے بعد درج کی گئی تھی، اس وقت وہ تہاڑ جیل میں تھیں۔ اس میں ان کو 20 جولائی 2020 کو ضمانت مل گئی تھی۔
فاطمہ کی ثابت قدمی
فاطمہ تین سال سے جیل میں ہیں، لیکن ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور بہادر ہوگئی ہیں اور ایک ہندوستانی شہری کے طور پر اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ آگاہ اور بیدار ہیں۔
ایم بی اے گریجویٹ، اسٹوڈنٹ لیڈر اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والی فاطمہ نے اپنی گرفتاری سے مہینوں پہلےاہل خانہ کو بتایا تھا کہ وہ تاریخ میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہتی ہیں۔
ان کے والد کہتے ہیں، ‘وہ اپنے نام میں ‘ڈاکٹر’ کا سابقہ لگانا چاہتی تھی۔ وہ ہمیشہ چاہتی تھی کہ ہم اس پر ناز کریں۔ اور ہمیں نازہے کہ ہم ایک مضبوط خاتون کے والدین ہیں جو مسلمانوں کے حقوق کو سمجھتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ،’ عدالتی شنوائی سے گھر آنے کے بعد جب کوئی اچھی خبر نہیں ملتی تو گلفشا ں کی ماں روتی ہیں۔ بیٹی کے ہم سے دور جانے کی وجہ سے وہ صدمے میں ہیں۔ بحیثیت والدین اپنی بیٹی کو قید میں دیکھنا ہمارے لیے آسان نہیں ہے، جبکہ وہ اپنے لیے کا فی کچھ اچھا کر سکتی تھی۔
تاہم، یو اے پی اے کے سخت قانون کے تحت الزامات کا سامنا کر رہے جیل میں بند فاطمہ کے شریک ملزموں کی موجودہ حالت بھی ان کی طرح ہی ہے۔
شنوائی اور صدمہ
ستمبر 2020 میں اپنی ڈیفالٹ ضمانت کی سماعت کے دوران انہوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں جیل حکام کی طرف سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ تہاڑ جیل میں قیدی ان کے ساتھ فرقہ وارانہ طور پر نازیباسلوک کر رہے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا تھا، ‘انہوں نے مجھے ‘تعلیم یافتہ دہشت گرد’ کہا اور مجھے فرقہ وارانہ گالیاں دے رہے ہیں۔ مجھے یہاں ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ اگر میں نے خود کو نقصان پہنچایا تو اس کی ذمہ دار جیل انتظامیہ ہوگی۔
بعد میں، اکتوبر 2020 میں انہوں نے جب تہاڑ جیل میں 180 سے زیادہ دن مکمل کر لیے، اور چونکہ 90 دنوں کی لازمی مدت کے اندر پولیس نے ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی،تو انہوں نے سی آر پی سی کی دفعہ 167(2) کے تحت ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کی۔ لیکن عدالت نے ان کی درخواست کویہ کہتے ہوئےمسترد کر دیا کہ اس میں کوئی دم نہیں ہے۔
نومبر 2020 میں سیشن کورٹ نے ایف آئی آر 59 میں انہیں ضمانت دے دی۔ اس میں انڈین پینل کوڈ کے تحت قتل، قتل کی کوشش، غیر قانونی اجتماع، ہنگامہ آرائی اور آرمزایکٹ اور دیگر متعلقہ دفعات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کی روک تھام سے متعلق قانون کے تحت الزام عائد کیے گئے تھے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ فاطمہ 3 جون 2020 سے حراست میں ہے اور ‘شریک ملزمان دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کو پہلے ہی کیس میں ضمانت مل چکی ہے اور ان کا رول فاطمہ جیسا ہی رہا ہے’۔
نچلی عدالت نے مارچ 2022 میں ان کی ضمانت مسترد کر دی تھی اور اس لیے انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے۔ اس اپیل میں فیصلہ جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے محفوظ کر لیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے ایک اور ملزم تسلیم احمد کے ساتھ ان کی ضمانت کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ چارج شیٹ اور منسلک دستاویزات کے پیش نظر ملزم کے خلاف الزامات ‘پہلی نظر میں سچے’ معلوم ہوتے ہیں۔
حال ہی میں، 2 فروری 2023 کو ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی سماعت کے دوران ان کے وکیل سشیل بجاج نے دلیل دی تھی کہ ‘اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ہم انہیں ان کی آزادی واپس دے سکتے ہیں۔’ یہاں بھی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد کے ذریعے فاطمہ کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے دہلی پولیس نے کہا کہ وہ مظاہروں اور چکہ جام کو منظم کرنے کے لیے بنائے گئے ایک وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ تھیں۔
جواب میں ان کے وکیل نے کہا کہ فاطمہ نے صرف احتجاج کے مقصد سے وہاٹس ایپ گروپ ‘واریئرز’بنایا تھا اور اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔ کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد بنچ نے فاطمہ کی جانب سے دائر ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر