آڈیو:کینیڈا کے سابق وزیرصحت اجل دوسانجھ نے دی وائر کے ساتھ بات چیت میں ان حالات کے بارے میں بتایا جن کی وجہ سے وہ سیاست میں آئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں سکھ برادری میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
نئی دہلی: جب اُجل دوسانجھ کینیڈا کے شہر وینکوور میں وکیل کے طور پر کام کر رہے تھے تو ایک بار ان کو بری طرح زدوکوب کیا گیا تھا۔ ان کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں اور 80 سے زائد ٹانکے لگانے پڑے تھے۔
ان پر حملہ سکھ برادری میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے خلاف ان کی مسلسل مخالفت اور کینیڈین حکومت سے اس پر توجہ دینے کی اپیل کے جواب میں کیا گیا تھا۔
دی وائر کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا، 1985 میں ایئر انڈیا کی پرواز میں ہوئے بم بلاسٹ ، جس میں 300 سے زیادہ مسافر، کینیڈین شہری مارے گئے تھے، کے باوجودحکومت نے کچھ نہیں کیا۔
لیکن ان کا اصرار ہے کہ خالصتان کے لیے شاید ہی کوئی عوامی حمایت موجود ہو۔ کچھ خالصتان انتہا پسند’ ڈائسپورہ کٹیگری میں ہیں، جو کینیڈین معاشرے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔
دوسانجھ نے سیاست میں شمولیت اختیار کی اور 2000 میں ان کی پارٹی نے انہیں برٹش کولمبیا صوبے کا چیف منتخب کیا، جوکینیڈا کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ چار سال بعد انہوں نے وہاں کی وفاقی حکومت میں وزیر صحت کا عہدہ سنبھالا۔
یہ ایک ایسےتارکین وطن کے لیے بڑی بات تھی، جو پنجاب میں اپنا گاؤں چھوڑ کر وہاں پہنچے تھے، حتیٰ کہ وہ انگریزی بھی نہیں بول پاتے تھے، لیکن ان کوپڑھنے کی شدید خواہش تھی۔
دوسانجھ باقاعدگی سے ہندوستان کا دورہ کرتے ہیں، اور ان کہنا ہے کہ وہ ‘اب بھی دل سے ہندوستانی ہیں۔’ ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے وہ افسردہ ہیں۔ دوسانجھ نے کہا کہ ہندوستان کی جو تصویریں مجھ تک آتی ہیں وہ لنچنگ، دانشوروں کے قتل، سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کی ہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ کس طرح پولیس جامعہ ملیہ پہنچی تھی۔ یہ سب گاندھی کے ملک میں ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، کسی کے ہیرو کو لے کرسب متفق نہیں ہو سکتے، کوئی گاندھی کی پوجا کرتا ہے، توکوئی گوڈسے کی پوجا کرتا ہے۔
اس پوری بات چیت کونیچے دیے گئے لنک پر سن سکتے ہیں۔
Categories: فکر و نظر