اس نیوز پورٹل کےمدیر اعلیٰ بینو میتھیو کی زندگی صحافتی برادری کے لیے ایک ایک سبق ہے کہ پیسہ، ترقی یا شہرت کبھی بھی اصولوں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صحافی کو اقتدار کی گلیوں میں جگہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ادارتی آزادی کو کیسے بچائے رکھا جائے، یہ ان کی پہلی ترجیح ہے۔
امبیڈکر نے کہا تھا؛’اصل میں دنیا میں دو ذات ہے، پہلا امیر اور دوسرا غریب’۔مودی حکومت کی نوٹ بندی، جی ایس ٹی، فلاحی کاموں سے سرکار کی کنارہ کشی اور سرمایہ داروں کے مفاد کے لئے ہر روز نئی پالیسی کا نفاذ کسی بھی طرح سے امبیڈکر کے نظریات سے میل نہیں کھاتے۔
سیاست داں اور ارباب اقتدار جہاں ایک طرف اپنے آپ کو امبیڈکر کا سچا ‘مقلد’ بتاتے ہیں وہیں دوسری طرف اقلیتی طبقات کی حق تلفی کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے۔
جن کے اکابرین نے خود کبھی انگریزوں سے لوہا نہیں لیا اور اپنی ساری توانائی عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے میں لگائی ، وہی آج ملک میں دیس بھکتی کے “ٹھیکیدار” بن بیٹھے ہیں۔
جن لوگوں کو بھی لگتا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے یا پھر اس نے ہندووں کے مفاد کو نظر انداز کیا ، وہ ذرا مسلمانوں کےموجودہ سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالات کے سرکاری اعداد و شمار کو بھی جان لیں۔
کیا وجہ ہے کہ ایک خاص حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے روی شنکر بابا سے سیاست داں بن جاتے ہیں اور جب ان کی پسندیدہ سرکار اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے ، تو وہ پھر سے “سنیاسی” بن جاتے ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں ؟
ذات پات کے سوال پر اگر آپ سوچتے ہیں تو آپ کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے اور علی انور کی دیگر تحریر و تقریر سے بھی آشنا ہونا چاہیے۔ علی انور بہار سے راجیہ سبھا کے ایم پی ہیں مگر عام لوگ انہیں پسماندہ تحریک سے وابستہ […]
ہر لمحہ میں اس کا انتظار کرتی ہوں۔ کوئی رات ایسی نہیں گزرتی ہے جب میں اس کے لئے ایکسٹرا دعا نہ کرتی ہوں : نجیب کی ماں نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کبھی بستر پر لیٹ جاتی اور کبھی اٹھکر بیٹھ جاتی۔ ان کی زبان سے لفظ […]
میں مسلمانوں کو الگ سے اہمیت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے اندر زیادہ تر پچھڑے (پسماندہ) لوگ ہیں جیسے جلاہے، دھنیے۔ پانچ کروڑ میں یہ چار ساڑھے چار کروڑ پچھڑے مسلمان میں۔ میں ان کو اہمیت دیتا ہوں، پڑھائی لکھائی میں، غریبی میں، ہر معاملے میں۔ آج سے ٹھیک […]
دہشت گردی کی کاروائی میں دوہرا پیمانہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے جرم میں ملوث ہندو شدت پسند وں کو اکثربے قصور مانا جارہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اکثریتی طبقہ سے متعلق لوگ قطعی اس طرح کی کاروائی انجام نہیں دےسکتے […]