سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے پندرہ سال بعد کے ‘نیو انڈیا’ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنے کو اکثریت کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن چکا ہے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
سرکاری اسکولوں کو بہت ہی اسپانسرڈ طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے اس بات کی غلط تشہیر کی گئی ہے کہ سرکاری اسکولوں سے بہتر پرائیویٹ اسکول ہوتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔
مودی حکومت کے آنے کے بعد تعلیم کے میدان میں بہت احتیاط کے ساتھ اس نظریہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا ملک کے فطری مزاج کے ساتھ کوئی میل نہیں ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن نے ایک جانچ میں بھوپال سینٹرل جیل میں سیمی سے جڑے زیر سماعت قیدیوں کے ساتھ زیادتی کی شکایتوں کو صحیح پایا ہے اور ا س کے لیے جیل اسٹاف کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔
کسی بھی ملک یا سماج کا یہ رویہ کہ اس کی مذہبی کتاب یا پہچان تھیوری آف ایوری تھنگ ہیں اور ان میں ہی ماضی، حال، مستقبل کا سارا علم اور سائنس ہے، بہت ہی خطرناک ہے۔
جدیدکاری کے نام پر ریلوے اسٹیشنوں کو نجی کمپنیوں کو سونپنے کی پوری تیاری ہے، لیکن ملک کے پہلے نام نہاد ماڈل اسٹیشن کے شروعاتی تجربے عام ریل مسافروں کے لئے ڈرانے والے ہیں۔
کبھی حاشیے پر رہی ہندو توا کی سیاست آج مین اسٹریم کی سیاست بن چکی ہے۔ سنگھ کے لئے اس سے بڑی کامیابی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی اہم سیاسی پارٹیاں نرم / گرم ہندو مذہب کے نام پر مسابقت کرنے لگیں۔