چھٹ بھیا لیڈروں اور وزیر اعظم کی زبان میں کوئی فرق رہ گیا ہے؟
جب اقتدار حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے اسٹار پرچارک نریندر مودی بن جاتے ہیں۔
جب اقتدار حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے اسٹار پرچارک نریندر مودی بن جاتے ہیں۔
الیکشن کےقصے: الیکشن کا موسم قریب آتے ہی بزرگ کئی ایسے پرانے قصے سناتے ہیں، جو جمہوریت کے اس تہوار پرتیر ونشتر کی طرح لگتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک باربھارتیندو ہریش چندر جب بستی پہنچے، توبولے–بستی کو بستی کہوں تو کاکو کہوں اجاڑ! ہرریا قصبے میں بالو شاہی کھائی تو یہ پوچھنے سےباز نہیں آئے کہ اس میں کتنا بالو ہے،وہ کتنی شاہی ہے۔
یہ ملک کے لیےانتہائی افسوسناک ہے کہ اس کےسابق نائب صدر کو بھی مذہبی آئینے میں دیکھا جانے لگاہے۔ان کے بیانات سےسبق حاصل کرنے اور آئینے میں حقیقت کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ان سے چاپلوسی کی امید کی جارہی ہے!
جس طرح سے وزیر اعظم خود اور ان کی پارٹی سکیورٹی میں کوتاہی کو اسی لمحے سےسنسنی خیز بنا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے صاف ہے کہ وہ اس واقعہ کی سنگینی کے بارے میں کم اور ممکنہ انتخابی فائدے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔
یوم شہادت پر خاص: راجندر ناتھ لاہڑی اُن انقلابیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اگست 1925 میں انگریزوں کا خزانہ لوٹا تھا۔ 1927 میں انصاف کے تمام تقاضوں کی نفی کرتے ہوئے انگریزی حکومت نے انہیں مقررہ دن سے دو روز پہلے اس لیے پھانسی دے دی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ گونڈہ جیل میں بند لاہڑی کو ان کے انقلابی ساتھی چھڑا لے جائیں گے۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کےہزار ہزاربازو اور ہزار ہزار منہ ہیں۔ان ‘ہزار ہزار منہ’میں بی جے پی ایم پی ورون گاندھی کو چھوڑ دیں تو کنگنا کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنےکو لےکرزبردست اتفاق رائے ہے۔ پھر اس نتیجہ تک کیوں نہیں پہنچا جا سکتا کہ کنگنا کا منہ بھی ان ہزاروں منہ میں ہی شامل ہے؟
اگرجناح، جو کم از کم 1937 تک ملک کی مشترکہ جدوجہد آزادی کا حصہ تھے، کی تعریف کرنا جرم ہے تو ہمارے ماضی قریب میں بی جے پی کے کئی بڑے لیڈر یہ جرم کر چکے ہیں۔
جس نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو شہریوں کےانسانی حقوق کےتحفظ کے ساتھ خلاف ورزیوں پرنظر رکھنے کے لیےبنایا گیا تھا، وہ اپنے یوم تاسیس پر بھی ان کی خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھانے والوں پر برسنے سے گریز نہ کر پائےتو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب مویشیوں کے بجائے انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ ہی کھیت کھانے لگی ہے؟
وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی پر‘تاناشاہ’ہونے کے الزامات پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ان سے زیادہ جمہوریت پسند رہنماہوا ہی نہیں ہے، جس پر امریکہ کی لیجنڈ ٹینس کھلاڑی مارٹینا نورا ٹیلووا نے فقرہ کسا تھا۔
جو لوگ اپوزیشن پر سیاست کرنے کی تہمت لگارہے ہیں، وہ بھی ایک خاص طرح کی سیاست ہی کر رہے ہیں۔ جب وہ کسی بھی طرح ناپسندیدہ سوالوں کو ٹالنے کی حالت میں نہیں ہوتے تو چاہتے ہیں کہ وہ پوچھے ہی نہ جائیں!
مودی سرکار نے کسانوں سے بات چیت کے کئی دور چلائے،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ‘پارلیامنٹ سے منظور شدہ’زرعی قوانین کو قطعی واپس نہیں لیا جائےگا۔ کیونکہ اس سے پارلیامنٹ کی بالادستی مجروح ہوگی۔گویا اب تک عوامی غم وغصے کی وجہ سےیاناقابل استعمال ہو جانےپرجن قوانین کو واپس لیایا منسوخ کیا جاتا رہا ہے، وہ پارلیامنٹ کے بجائے وزیر اعظم کے دفتر میں پاس کیے گئے تھے!
پچھلی دہائیوں میں گجرات بی جے پی کامحفوظ ترین گڑھ رہا ہےاور آج کی تاریخ میں وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست ہے۔اگر وہاں بھی بی جے پی کو ہار کا ڈر ستا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنی ناقابل تسخیر امیج کا جو متھ پچھلے سالوں میں بڑی کوشش سے گڑھا تھا، وہ ٹوٹ رہا ہے۔
کسانوں کی تحریک کےغیرسیاسی ہونے کواس کی اضافی قوت کی صورت میں دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مسلم بھائی چارے کی یہ مہم سیاسی نفع نقصان سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور زیادہ امیدیں جگاتی ہے۔
ایودھیا میں صدر رام ناتھ کووند کو اپنے خطاب میں نہ اودھ کی‘جو رب ہے وہی رام ہے’ کی گنگا جمنی تہذیب کی یاد آئی، نہ ہی اپنے آبائی شہر کانپور کےاس رکشےوالے کی، جسے گزشتہ دنوں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا اور جبراً ‘جئے شری رام’ بلوا کر اپنی ‘انا’ کی تسکین کا سامان کیا تھا۔
ترنگے میں لپٹے ایک سابق وزیر اعلیٰ او رگورنر کےجسدخاکی کےنصف حصے پر اپنا جھنڈا ڈال کربی جے پی نے کلی طور پر واضح کر دیا کہ قومی علامتوں کےاحترام کےمعاملے میں وہ اب بھی‘اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت’ کی اپنی پالیسی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی ہے۔
گزشتہ 20 جولائی کومرکز کی نریندر مودی سرکار کی جانب سے راجیہ سبھا میں کہا گیا کہ کورونا وائرس انفیکشن کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی غیرمتوقع ڈیمانڈ کے باوجودکسی بھی صوبےیایونین ٹریٹری میں اس کے فقدان میں کسی کے مرنے کی اسے جانکاری نہیں ہے۔اس کے پاس اس بات کی جانکاری بھی نہیں ہے کہ دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں میں سے اب تک کتنے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
اسمبلی انتخاب سےمحض چندہ ماہ قبل وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مجوزہ آبادی قانون کو ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ بڑھتی آبادی صوبے کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ لیکن کیایہ رکاوٹ اچانک رونما ہوئی ہے ؟ اگر نہیں، تو اس کو لےکراس وقت مناسب ا قدامات کیوں نہیں کیے گئے، جب ان کی حکومت کے پاس اس کو آگے بڑھانے کا وقت تھا؟
ضلع پنچایت انتخاب میں ملی جیت پر پھولی نہ سما رہی بی جے پی بھول رہی ہے کہ ضلع پنچایت صدور کے بالواسطہ انتخاب میں جیت کسی بھی دوسرےبالواسطہ انتخابات کی طرح کسی پارٹی کی زمینی پکڑ یا لومقبولیت کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ کئی بار تو متعلقہ پارٹی کو اس سے نفسیاتی برتری تک نہیں مل پاتی۔
اتر پردیش کےتین دن کےدورے کے دوران گزشتہ25 جون کو کانپور میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی اسپیشل ٹرین کے گزر نےکےلیے روکے گئے ٹریفک سے لگے جام میں پھنس کر انڈین انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے کانپور چیپٹر کی صدروندنا مشرا کی جان چلی گئی تھی۔اسی دن صدر جمہوریہ کی سلامتی کے لیے جا رہے سی آر پی ایف کی تیز رفتار گاڑی نے ایک بائیک کو ٹکر مار دی ، جس سے ایک تین سالہ معصوم کی موت ہو گئی۔
کووڈمینجمنٹ کی تنقیدکومودی حکومت ملک کی امیج کوخراب کرنا بتا رہی ہے۔ حالانکہ ملک کی امیج تب بھی بگڑتی ہے، جب وزیر اعظم انتخابی تشہیر میں حریف خاتون وزیر اعلیٰ کو ‘دیدی او دیدی’ کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ وہ تب بھی بگڑتی ہے، جب ان کے حامی قاتل ہجوم میں بدل جاتے ہیں یا ریپ کرنے والوں کے حق میں ترنگے لہراکر جلوس نکالتے ہیں۔
اتر پردیش کی سیاست کو لےکربی جے پی کے باربار ‘سب کچھ ٹھیک ہے’کہنے کے باوجود کچھ بھی ٹھیک نہ ہونے کے اندیشےختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
اس مشکل وقت میں سرکاروں کی کاہلی تو اپنی جگہ پر ہے ہی، لوگوں کا آدمیت سے بالاترہوتے جانا بھی متاثرین کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے۔اس کی وجہ سے ایک اور بڑا سوال سنگین ہوکر سامنے آ گیا ہے کہ کیا اس مہاماری کے جاتے جاتے ہم انسان بھی رہ جا ئیں گے؟
نریندر مودی کواقتدارسنبھالے ساڑھے چھ سال ہو چکے ہیں اور اس دوران وہ لگ بھگ اتنی ہی بار رو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی سیاست ہی طے کرتی ہے کہ ان کے آنسوؤں کو کب بہنا ہے اور کب سوکھ جانا ہے۔
کئی سال پہلےپاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ ‘تم بالکل ہم جیسے نکلے،اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن ، جس میں ہم نے صدی گنوائی، آخر پہنچی دوار تمہارے…ملک کے آج کے حالات میں یہ مصرعے سچ کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔
گزشتہ پانچ اگست کوایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہوئے بھومی پوجن اورشہر کی ترقی کے دعووں کے بیچ ایودھیاکے لوگ صرف ویسا نہیں سوچ رہے ہیں جیسا اکثرذرائع ابلاغ کی جانب سے بتایا جا رہا ہے۔
کاس گنج میں جن اقلیتوں نے ترنگا پھہرانے کے لئے سڑک پر کرسیاں بچھا رکھی تھیں، وہ اچانک وندے ماترم کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت کیوں کرنے لگیںگے؟
19 دسمبر1927 کو مجاہدآزادی اشفاق اللہ خاں کو فیض آباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ایودھیا میں ان کی شہادت کے موقع پر ہرسال منعقد ہونے والی تمام تقاریب پر شہریت ترمیم قانون کو لےکر مظاہرہ کے خدشہ کی وجہ سے روک لگا دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی متنازعہ زمین رام للا کو دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس کافیصلہ نہ صرف 6 دسمبر، 1992 کی توڑپھوڑبلکہ 22-23 دسمبر، 1949 کی رات مسجدمیں مورتیاں رکھنے والوں کی بھی جیت ہوگی۔ ایسے میں عدالت کا ان دونوں کارناموں کوغیر-قانونی ماننے کا کیا حاصل ہے؟
ایودھیا میں بی جے پی کے منتخب رکن پارلیامان، ایم ایل اے اور اہلکاروں نےسنیچر کو فیصلے کے دن دیپ جلائے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ سوموار کو پارٹی ضلع صدردفتر پر رامائن کاپاٹھ کیا گیا ، جہاں رہنما اور کارکنان نے ایک دوسرے کو مبارکبادی۔وہیں منگل کو 1992 کی کارسیوا کے دوران پولیس فائرنگ میں مارے گئے رضاکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
بک ریویو: اپنی نئی کتاب-مودی نامہ ،میں مصنف سبھاش گاتاڈے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کے پچھلے پانچ سالوں کا سفر آنے والے پانچ سالوں کے لئے وارننگ ہے۔
جب تک گلوبلائزیشن کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہیں ہوتی، ہندوستان وشوشکتی بن جائے توبھی، حکومت کا سارا بوجھ ڈھونے والے نچلے طبقے کی یہ تقدیر بنی ہی رہنے والی ہے کہ وہ تلچھٹ میں رہکر عالمی سرمایہ داری کے رساؤ سے گزر بسر کرے۔
غنیمت ہے کہ اپنی خود ستائی اور خودنمائی میں مہارت کو رائےدہندگان کو پھانسنے کے جال کی طرح استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایئراسٹرائک پر جا رہے پائلٹوں کو رام کا نام لینے، کوئی منتر بدبدانے یا ہنومان چالیسہ پڑھنے کا مشورہ نہیں دیا۔
الیکشن کے قصے: چودھری چرن سنگھ نے ایک انتخابی جلسہ میں رائےدہندگان سے کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کے امیدوار کا کردار خراب ہو یا وہ شراب پیتا ہو، تو وہ اس کو ہرانے میں نہ جھجکیں۔
الیکشن کے قصے: ایس پی –بی ایس پی کے پہلے اتحاد کے وقت اتر پردیش اسمبلی کی وسط مدتی انتخاب میں جنتا دل نے اپنی تشہیر کی ذمہ داری لالو پرساد یادو کے کندھوں پر ڈالی تھی۔
الیکشن کے قصے: ملک کی سیاست میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب سادگی ہمارے رہنماؤں کے درمیان ایک روایت کی طرح ہوا کرتی تھی۔
میں بھی چوکیدار-اورچوکیدار ہی چور ہے-کے شور میں کئی دوسرے مدعے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔
کانگریس کا انتخابی منشور کم از کم یوں بامعنی ہے کہ فوری طور پر ہی سہی، ملک کے سیاسی ڈسکورس میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔
ایودھیا کے تاریخی ہنمان گڑھی نے آزادی سے پہلے سے ہی اپنے سسٹم میں جمہوریت اور انتخاب کا ایسا انوکھا اور ملک کا غالباً پہلا تجربہ کر رکھا ہے، جس کا ذکر تک کرنا فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو راس نہیں آتا۔