نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔
جو چیز ششی کو اپنے ہم عصروں سے واقعی اوپر اٹھاتی ہے وہ تھا ان کا تنوع versatility جس کی بدولت وہ ایک ہی دور میں کمرشل فلم کے رومانوی ہیرو بھی تھے، آرٹ ہاؤس سنیما کے روح و رواں بھی اور مغربی پکچرز کے مرکزی کردار بھی۔
سر سید کے رفیق مولوی سید اقبال علی نے اپنے سفرنامہ پنجاب میں اس دورے کی تفصیلات لکھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرتسر میں یوروپی قومی تھیئٹر کے نام سے صاحبان و خانُمانِ افرنگ ایک ہال میں اپنا کھیل تماشا رچا رہے تھے جس پر ٹکٹ لگا تھا جس سے ہونے والی آمدن یورپیئن عوام کی بہبود کے لیے وقف تھی۔
یہ خیام کا فن تھا کہ انہوں نے قدامت کو یوں جدت دی کہ گویا لافانی کر دیا۔ اگر خیام نے صرف ایک دھن بنائی ہوتی تو وہ تب بھی اسی مرتبے پر فائز ہوتے جس پہ کہ ہوئے۔ اور وہ دھن تھی میر تقی میر کی غزل کی جوانہوں نے ساگر سرحدی کی فلم بازار کے لیے بنائی۔
مشتاق احمد یوسفی کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ساتھ ہنستے ہیں، ان پر نہیں۔
یوم وفات پر خاص :سدا کا عاشق مزاج راج کپور اپنی فلموں میں سماجی برائیوں کے مد مقابل محبت کو لا کھڑا کرتا تھا۔ نا انصافیوں کے سامنے راج کپور کی فوج میں سپاہی نہیں بلکہ امن کا جھنڈا تھامے ، پیار کے ترانے گاتے عاشق ڈٹے نظر آتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کا پاکستانی فوج سے اختلاف شخصی یا جبلی نہیں تھا بلکہ مضبوط اصولوں پر استوار تھا۔وہ ایک ایسے پاکستان کی داعی تھیں جو وسیع المشرب اور متنوع قومی ریاست ہو، یعنی ایک ایسا وفاق جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو۔