مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کے پس پردہ ، اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم کو اس قدر ذلت دی جائے، ان کےعزت نفس کو اتنی ٹھیس پہنچائی جائے کہ تھک ہارکر وہ ایک ایسی’شکست خوردہ قوم’کے طور پر اپنے وجود کو قبول کر لیں، جوصرف اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کو مجبور ہے۔
یتی نرسنہانند نے بتایا ہےکہ نام نہاد دھرم سنسد ہر چھ ماہ پر ہوتے رہے ہیں ۔تو پھر آئندہ ایک مہینے میں تین ‘دھرم سنسدوں’کے انعقاد کے پیچھے کیا راز ہے، وہ بھی دو بار اتر پردیش میں، جہاں اسمبلی انتخابات قریب ہیں؟
ہری دوار میں ہوئے نام نہاد دھرم سنسد میں کہی گئی زیادہ تر باتیں ہندوستانی قانون کے تحت سنگین جرم کے زمرے میں آتی ہیں، لیکن اب تک اس کولے کر کی گئی اتراکھنڈ پولیس کی کارروائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ قانون یا آئین کے لیے نہیں، بلکہ مقتدرہ جماعت کے لیے کام کر رہی ہے۔
اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب میں ابھی تقریباً پانچ مہینے باقی ہیں،لیکن سیاسی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔ کابینہ میں تبدیلی سے لےکرسیاسی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ تک دیکھنے کو مل رہے ہیں۔لیکن صوبے کی عوام کیا بدلاؤ چاہتی ہے یا موجودہ نظام میں ان کا بھروسہ بنا ہوا ہے؟
یوگی حکومت کے متھرا میں میٹ بین کے فیصلے کی قانونی حیثیت پر کوئی تنازعہ نہیں ہے کیونکہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے سے موجود ہے، لیکن اس کے اصلی ارادے اورممکنہ نتائج پر یقینی طور پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کےحقوق ، ان کےروزگار اور سلامتی سےوابستہ ہے۔
ملک کے رہنماگزشتہ کوئی بیس سالوں کی انتھک کوششوں سے سماج کا اتنا پولرائزیشن پہلے ہی کر چکے ہیں کہ آنے والے کئی سالوں تک ان کی انتخابی جیت یقینی ہے۔ پھر کچھ لوگ اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور انہیں ذلیل وخوارکرنے کے لیے جوش و خروش کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟
نکسل مسئلہ صرف ‘پولیس کا مسئلہ’ نہیں ہے جو محض طاقت کے استعمال سےحل ہو جائے اس کےبہت سے پیچیدہ پہلو ہیں۔حکومت کو اپنی جھوٹی اناترک کرکے ان پہلوؤں کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے۔
جس طرح ملک میں فرقہ وارانہ عداوتیں بڑھ رہی ہیں، اس سے مسلمانوں کے افسردہ اور اس سے کہیں زیادہ خوف زدہ ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔سماج ایک‘بائنری سسٹم’سے چلایا جا رہا ہے۔ اگر آپ اکثریت سے متفق ہیں تو دیش بھکت ہیں، نہیں تو جہادی،اربن نکسل یاغدار، جس کی جگہ جیل میں ہے یا ملک سے باہر۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔
جب خودمرکزی حکومت مان چکی ہے کہ لو جہاد نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، تو پھر کچھ ریاستی حکومتوں کو اس پر قانون لانے کی کیوں سوجھی؟
اتر پردیش سرکار کی جانب سےہاتھرس معاملے میں سپریم کورٹ میں دائرحلف نامے میں جان بوجھ کرگمراہ کن حقائق پیش کیے گئے ہیں۔ یہ حلف نامہ پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت،اعتباراورمتاثرین کوانصاف دلانے کی ان کی نیت، تینوں پر سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔
قرون وسطی کے یورپ میں خواتین کو جادوگرنی بتاکر‘وچ ٹرائل’ہوا کرتے تھے، جن کے بعد پچاسوں ہزارخواتین کو ستونوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔اس وقت اذیت دےکر (ٹارچر)خواتین سے جرم قبول کروا لیا جاتا تھا۔ ریا کا بھی‘میڈیا ٹرائل’نہیں ہوا ہے، ‘وچ ٹرائل’ ہوا ہے۔
حب الوطنی پر سوشل میڈیا ٹرالز کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی ۔ انہیں یہ حق ہر گز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان لوگوں کو پاکستان چلے جانے کو کہیں جو وطن پرستی کومختلف چشمے سے دیکھتے ہیں۔
ایک ملک اور ایک مجرم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ملک قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ مجرم اس کو توڑتا ہے۔ اگر ملک ایک بار بھی قانون توڑ دےتو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ بھی مجرم کےخانے میں آ گیا اور اس کو حکومت کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہے۔
یوں تو روزانہ سینکڑوں لوگوں کو ٹارچرکرنے کی بات کہی جاتی ہے لیکن غریب،پسماندہ اور اقلیت ان کے خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔