اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں وہ ایسی شخصیت تھے، جس کا سامنا کیے بنا اندرا گاندھی تک کسی کی رسائی ممکن نہ تھی۔اندرا گاندھی پر دھون کا کتنا اثر تھا، یہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 1980 کے نصف اواخر میں انہوں نے وزیر اعظم کو نماز تک پڑھوا دی۔
اگر کانگریس پرینکا گاندھی کی قیادت میں خود کو بی جے پی کے مضبوط متبادل کے طور پر پیش کر دیتی ہے تو 2022 اور 2024 میں اس سے اچھے نتائج کی امید باندھی جا سکتی ہے۔
کانگریس کی قیادت کا مسئلہ اس وقت بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون والے محاورے کے مصداق ہو گیا ہے۔ چونکہ راہل گاندھی کسی مکھوٹے نما صدر کو نامزد کرنے پر راضی نہیں ہیں، اس لیے کانگریس کی مجلس عاملہ کو بھی وفاداری نے عبوری صدر کے لیے کوئی نام پیش کرنے سے روک رکھا ہے۔
یہ شرمناک ہے کہ گاندھی خاندان اور تھرور و تیواری جیسے لوگ عہدوں کی خواہشات میں الجھ رہے ہیں، جبکہ یہ وقت کانگریس کو باہمی جمہوریت کی طاقت دکھانے کا تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی 44 سال پہلے یعنی اسی ماہ جون میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے لیے نہرو، اندرا گاندھی اور کانگریس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جےپی کو ایسے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن کے مطابق ایمرجنسی جیسے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے انہیں بنگال میں ممتا کو کنارے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
ہتھیاروں کے سودے کرانا، دو ریاستوں کے رشتوں میں ان کی سرحدوں کو متنازعہ بنانا، ڈپلومیسی اور انٹیلیجینس میں اس کا عمل دخل رہتا تھا۔ اندرا گاندھی کے دور میں ویلی مائیکل کا دہلی آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کچے تیل کا قرار کرانے میں اس نے اہم کردار نبھایا تھا، نیز ہندوستان میں برٹش سفارت خانے کے کئی بھیدیوں سے بھی اس کا خاصہ ربط ضبط تھا۔
نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک اس ٹکراؤ کا فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں کیا جاتا رہا۔ 1998 میں اسے اس وقت الٹ دیا گیا، جب سونیا گاندھی نے بطور کانگریس صدر ذمہ داری سنبھالی۔
کانگریس صدر کو اب پرینکا گاندھی کا کام کاج و پارٹی میں ان کی حیثیت بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ سونیا گاندھی اور ان کے دو بچوں کے بیچ کا کوئی خاندانی کام کاج جیسا معاملہ نہیں ہے۔
بہت منصوبہ بند طریقے سے پورے الیکشن کے دوران یا مشترکہ محاذ بنانے کے معاملے پر سونیا خاموش رہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ راہل کی والدہ یا کانگریس کی سابق صدر ہونے کا کوئی اثر راہل کی سیاسی سرگرمیوں پر پڑے۔ لیکن اب چناوی سرگرمیاں تھمنے کے بعد، سونیا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
الیکشن کےقصے:دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آزاد امیدواروں کا مقصد کسی بھی طرح انتخاب جیتنا نہیں ہے۔ باجوریا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ راشٹرپتی کے انتخاب سے لے کر مقامی سطح کے انتخابات تک میں 278 بارمقدر آزما چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میں کاغذات نامکمل ہونے کی بنا پر وہ میدان سے باہر ہو گئے۔ انتخاب لڑنے کے ان کے شوق کا یہ عالم ہے کہ شورش زدہ کشمیر تک سے وہ خم ٹھوک چکے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ضمانت ضبط کرانے کا نایاب تمغہ بھی انہیں کے پاس ہے۔
اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد این ڈی تیواری نے قبول کر لیا کہ روہت انہیں کا بیٹا ہے اور 15 مئی 2014 کو “آروہی” 1، مال ایونیو لکھنؤ میں اپنی پرانی معشوقہ اجولہ سے شادی کر لی۔
لالو پرساد یادو اپنی کتاب میں بتاتے ہیں؛ بہار کی تعمیر میں میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔
بتایا جاتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی بی جے پی سرکار کے خلاف وہ 200 سے زیادہ آر ٹی آئی کی درخواست لگا چکی تھیں۔اس وقت چل رہے انا ہزارے کے آندولن میں بھی ان کی بڑی دلچسپی تھی۔
شتروگھن سنہا ہوا کا رخ بھانپ لینے والے رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپریل 2014 میں انہوں نے بی جےپی کے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب دہلی، پٹنہ اور ممبئی کے حلقوں میں یہی قیاس آرائی ہے کہ کانگریس اور لالو کی مدح سرائی میں مصروف شترو نے کیا پھر کچھ اندازہ لگا لیا ہے؟
این سی ای یو ایس کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی 84 فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی اوسطاً 50 روپے سے بھی کم ہے۔وہیں شادیوں پر مسلمان اتنا خرچ کرنے لگے ہیں کہ اس کی مجموعی رقم عمرہ پر سالانہ خرچ کی جانے والی رقم سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔
کانگریس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے ملک و آزادی سے جڑے معاملات میں مسلم لیگ کو ایسی توجہ دی گویا وہی ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ مہاتما گاندھی تک اتنی بڑی نادانی کر بیٹھے کہ محمد علی جناح سے خط و کتابت میں انہیں- قائداعظم -کا خطاب دے ڈالا۔
26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔
پاکستان کو اس طرح کراری شکست سے دو چار کر دینے پر تب حزبِ اختلاف میں صفِ اول کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ’ابھینو چنڈی دُرگا‘ کا لقب دیا۔ واجپائی کے ذریعہ دیے گئے اس لقب نے کانگریس کی وزیر اعظم کو ایک عظیم شخصیت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ملائم سنگھ یادو کے اس تیر کا اصل نشانہ وہ شخصیت تھی، جو ان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔اب کانگریس اتر پردیش میں پرینکا کی قیادت میں اپنی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تو اس سے ملائم سنگھ یادو کا فکرمند ہونا ایک فطری امر ہے۔
کانگریس کو ابھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ لوک سبھا انتخاب میں 100 سیٹوں سے زیادہ لا پائے گی۔ ایسے میں امید کی کرن یہی ہے کہ رائے دہندگان پارلیامنٹ میں کی گئی مودی کی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔
بتایا جا رہا ہے کہ پرینکا نے ایک کتاب اور مکمل کر لی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی اور سیاست سے متعلق اس کتاب کا عنوان فی الحال Against Outrage دیا گیا ہے۔
سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔
اتر پردیش میں سیٹوں کی تقسیم کے ضمن میں کانگریس کو خدشہ ہے کہ اس صورت میں بی ایس پی، ایس پی اتحاد اس سے مدھیہ پردیش، پنجاب، راجستھان ، مہاراشٹر میں کچھ سیٹوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
فلموں کی شوقین شیلا دکشت کو ہندوستانی سیاست کا دیو آنند کہا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش میں ایک کے بعد ایک چار لوک سبھا ہار چکیں شیلا دکشت کے ستارے تب بدلے جب 1998 میں سونیا گاندھی نے انہیں دہلی کی صوبائی کانگریس کا صدر بنا دیا۔
کانگریس کے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ 9 بار ممبر آف پارلیامنٹ رہ چکے نئے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ صوبے کی سیاست میں بھی نئے ہیں۔انہیں کئی معاملوں میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اتر پردیش میں کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں نہ رہنا کانگریس کے لیے بھی سودمند رہے گا۔ اس سے اسے راجستھان، مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں ایس پی، بی ایس پی کے امیدواروں کا تصفیہ کرنے میں آسانی ہوگی، جہاں پارٹی کو بی جے پی سے سیدھے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہونے کی امید ہے۔
اپنے والد اور دادی کے برخلاف بطور کانگریس صدر راہل گاندھی نے تمام مدعیان کی باتیں سنیں، جس کی امید قدیم اورتاریخی پارٹی کے ہائی کمانڈ جیسے عہدےدار سے کم ہی رہتی ہے۔
شترمرغ کی طرح اس مسئلہ سے منہ چرانا کوئی حل نہیں ہے۔ابھی وقت ہے کہ کانگریس پارٹی کا خصوصی اجلاس طلب کر کے اپنے کارکنان کے خیالات جانے اور قرارداد لا کر ملک و قوم کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کرے۔
سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں نظریاتی اختلافات بھی تھے۔بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔
الیکشن کے ہنگاموں کے دوران مدھیہ پردیش میں کچھ اہم معاملات نظر انداز ہو گئے ہیں۔بی جے پی کی موجودہ سرکار نے ملک کے اس وسطی صوبے کے کچھ اہم مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
صوبائی صدر کو ان کارکنان سے ہمدردی ہے، لیکن پارٹی باہر سے آنے والے بہت سارے لوگوں کی امیدوں کو پورا نہیں کر سکتی۔وہیں ناراض لوگوں سے اب یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں کانگریس کی سرکار بننے پر انہیں مختلف بورڈس اور کارپوریشن میں موقعہ دیا جائے گا۔
گاسپ کی تخلیق کے کچھ غیر محررہ اصول ہوتے ہیں، جیسے اسے وہیں نوٹ نہ کریں یا اس سے متعلق سوال جواب نہ کریں۔ بتانے والے یعنی ذرائع کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے۔ گاسپ یا گپ شپ لکھنے والے کو آزادی حاصل ہوتی ہے، مگر اس میں حقائق کا متاثر نہ ہونا ایک اہم شرط ہے۔
اگر چھتیس گڑھ میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو جوگی کے پاس کئی راستے ہیں۔ اگر انہیں اور بی ایس پی کے گٹھ بندھن کو کل 10 سیٹیں بھی مل جاتی ہیں تو وہ کانگریس کے سامنے مکھیہ منتری بننے تک کا دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ عوام میں بےچینی ہے کیوں کہ چوہان نے وعدے تو خوب کیے لیکن پورے بہت کم کیےویاپم کی وجہ سے نوجوان خاص طور پرمایوس ہیں اور کسانوں میں حکومت کے خلاف بہت غم اور غصّہ ہے۔
آج اشوک گہلوت کانگریس کے مرکزی دفتر کی سب سے اہم شخصیت ہو چلے ہیں۔ ایسے میں کانگریسیوں کا یہ یقین درست معلوم ہوتا ہے کہ راجستھان میں کانگریس کی فتح کا فاصلہ کم رہا تو اشوک ہی راہل کی پہلی پسند ہوں گے۔
مایاوتی کی زندگی تضادات سے بھرپور ہے اور وہ سودےبازی کرنےمیں ماہر ہیں۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو چاہیے کہ وہ تضادات کو سلجھانے کے ساتھ مایاوتی جیسی پکی سودےباز لیڈر کو رام کرنے کا ہنر سیکھ لیں۔
طارق انور کی کانگریس میں واپسی ہو رہی ہے۔ 2014 کے مقابلے اس بار کانگریس کی حالت اچھی دکھ رہی ہے۔ ایسے میں ان کا کانگریس سے جڑنا، نہ صرف ان کے اپنے صوبے بہار میں بلکہ ملک بھر میں خاص طور سے مسلمانوں کے درمیان ایک مثبت پیغام ہے۔