یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔
’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔‘‘ غالبؔ بہت خفیف ہوئے؛’’لاحول ولا…آپ میرے بزرگ ہیں…مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘
ہندی اور اُردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اُردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟— زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔ میں نے اس تازہ اور گرما گرم موضوع پر کچھ لکھنا چاہا تو ذیل کا مکالمہ تیار ہو گیا۔
یوم وفات پر خاص:عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
”جاﺅ….چلے جاﺅ….ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے….تم مسلمان بہت اچھے ہو۔”شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کردیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔ مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر […]