مالیگاؤں دھماکہ میں مسلمان ہی ہلاک اور زخمی ہوئے، اور اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ہی عائد کرنے کی گھناؤنی کوشش کی گئی۔ تاہم، یہ ملک کا پہلا مقدمہ نہیں ہے،جس میں این آئی اے کو اپنی بے ایمانی کی وجہ سے شکست ہوئی۔ اور کیایہ اتفاق ہے کہ این آئی اے کوایسے بیشتر مقدمات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ملزمین ہندوتھے اور بم دھماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والے مسلمان ؟
سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اور ان ایام میں ان کا شیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
یہ مقدمہ کسی فلمی کہانی سے کم نہیں کیوں کہ اس مقدمہ کی تفتیش قانون کے مطابق کیے جانے کے بجائے ، انتہائی من مانے طریقہ سے کی گئی جیسے سب ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 153, 120Bکا اطلاق کیا گیا اور پھر اس کے بعد اچانک ٹاڈا قانون کی دفعات 3(3), (4), (5) 4(1), 4 لگا دی گئیں۔
شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔
اس مقدمہ میں ملزمین کو منظم طریقے سے مدد پہنچائی گئی جیسے تحقیقات این آئی اے کوسونپنا پھر اس کے بعد سرکاری وکی ملزمین کے تعلق سے نرمی برتنے کا دباﺅ بنانا اور پھر بعد میں یہ اعتراف کرنا کہ تحقیقات میں خامیاں ہیں ۔