مدھیہ پردیش: این ایس اے کے تحت کارروائی ’سسٹم‘کے بھگواکرن کی علامت ہے
حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سال تک بی جے پی کی سرکار رہنے کے بعد، کانگریس بھی سافٹ ہندوتواکی پالیسی کے تحت حکومت چلا رہی ہے۔اور ‘سسٹم’پوری طرح سے اس سلوک کا عادی ہو چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سال تک بی جے پی کی سرکار رہنے کے بعد، کانگریس بھی سافٹ ہندوتواکی پالیسی کے تحت حکومت چلا رہی ہے۔اور ‘سسٹم’پوری طرح سے اس سلوک کا عادی ہو چکا ہے۔
مدھیہ پردیش کے ایک مسلم افسر نیاز خان نے ٹوئٹ کیا یے کہ خان سرنیم کی وجہ سے مجھے ہمیشہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ان حالات کی وجہ سے میں ایک دور میں سخت ڈپریشن کا شکار ہوا ۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس ٹرینڈ کی بڑی پذیرائی ہوئی اور وہاں سےدیوناگری میں نام لکھوانے کے لئے لوگ ہندوستانی دوستوں کو پیغام بھیجنے لگے۔ یہ ایک خیر سگالی کا جذبہ تھا، جس سے ٹوئٹر سرابور نظر آیا۔
تیرہ سال تک حکومت کرنے کے بعد شیوراج کو ایسے سلوک کی امید نہیں رہی ہوگی۔ان کو جب بالکل سامنے کی نشست دی گئی جہاں ملک کے کونے کونے سے آئے بڑے یو پی اے لیڈر تھے،تو شروعات میں کچھ پریشان نظر آئے۔
کمل ناتھ کی قیادت میں کانگریس ایک نئے جوش کے ساتھ لڑی اور ایک ایسے علاقے میں جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی جڑیں بہت گہری ہیں، فتح حاصل کی۔
آج تین دہائیوں سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یونین کاربایئڈ فیکٹری کا دیا ہوا زخم تازہ ہے، خاص طور پر ان ہزاروں متاثرین کے لیے جن کی زندگی اس حادثہ نے مکمل طور پر بدل دی۔
ماضی میں مدھیہ پردیش کے مختلف حلقوں سے مسلم امیدوار جیتا کرتے تھے، ان علاقوں سے بھی جہاں مسلم آبادی پانچ یا دو فیصد سے کم ہے ۔ مگر 1992 کے بعد حالات بالکل بدل گئے۔
ایک سیاسی مہم کے تحت شہر میں مختلف مقامات کو نئے نام دیے جا رہے ہیں۔لیکن جب ایک اخبار جو غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو، ایسی غیر ذمہ دارانہ اور مزموم حرکت کرے، تو شاید یہ عبرت کا مقام ہے۔
چاہے صوفی ملیں یا علما ئے دیوبند یا بوہرہ مذہبی رہنما-آپ کو سوال اٹھانا ہے، اٹھائیے، مگر کسی فرقہ کو اس بات پر‘غیر’یاFifth Columnistکی طرح دیکھنا، آپ کی فرقہ واریت کو مترشح کرتا ہے۔یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح درون قوم،اکثریت کا اپنی اقلیتوں کے لیےمتعصب نظریہ ہے۔
آدیش کھامبرا کی ایک عجیب و غریب منطق تھی کہ وہ اپنے ساتھیوں سے کہتا تھا کہ قتل کر کے وہ ان لوگوں کے لئے اچھا ہی کر رہا ہے کیوں کہ وہ جس طرح کی سخت زندگی اور گھر سے دور رہنے کی وجہ سے مختلف دقتوں کا سامنا کرتے ہیں، اس سے بہتر ہے کہ انہیں موت کی نیند سلا دیا جائے۔
جے یوا آدیواسی شکتی یعنی’جے وائی اے ایس’وہ گروپ ہے جوقبائلی علاقوں میں بیداری کا کام کر تا رہاہے اور اس نے ‘اب کی بار، آدیواسی سرکار’ کے نعرے سے، بی جی پی کی نیند حرام کر دی ہے۔
اتنے بڑے اسکینڈل کے باوجود’جنگل راج‘ کااستعمال کہیں نہیں کیا گیا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک روایت سی بن گئی تھی کہ جب بھی اتر پردیش یا بہار میں کوئی بڑا جرم یا لاقانونیت کا معاملہ سامنے آتا تھااخبارات اور ٹی وی فوراً اس کو جنگل راج سے تشبیہ دیتے تھے۔
بےروزگار سیناکی تشکیل اسی سال ہوئی اور شروعات سے ہی اس نے بےروزگاری کے مسئلے پر مسلسل آواز اٹھائی۔ خاص طور پر صوبہ میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکری نہ ملنا اور بےروزگاری کی بڑھتی شرح کو لے کر اس نے احتجاج کئے۔
ایک طرف ہندتوا کے علمبردارگائے کو بچانے کے نام پر کسی بھی حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور دوسر طرف بارہا بیف کو مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور گئوکشی کو جاری رکھنے کی حمایت میں کھل کر بیانات بھی دیتے ہیں۔
آرکیٹیکٹ ایس ایم حسین نے دی وائر کو بتایا کہ یہ بےحد افسوس کی بات ہے کہ ایک بعد کے ایک ان محلات کو گرایا جا رہا ہے اور شہر کی تاریخ مٹتی جار ہی ہے۔
مدھیہ پردیش میں شیوراج کو اکثر ‘گھوشنا ویر’ کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسا شخص جو اعلانات تو خوب کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتے۔وعدے کس حد تک پورے ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے مگر ظاہر ہے شیوراج کو اندازہ ہے کہ ایسے اعلانات کا فائدہ تو ہوتا ہے۔
اس کو کاؤنسلنگ سینٹر سمجھا جائے، کورٹ نہیں کیوں کہ یہ اپنے فیصلے منوانے کا اختیار نہیں رکھتے، اوران میں نیا کچھ بھی نہیں کیوں کہ دار القضاء تو عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں۔
ہندی بولنے والوں کے تعداد میں دس سال میں 10کروڑ کا حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ 42 کروڑ سے بڑھ کر یہ تعداد اب 52 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔
ایک ایسا معاملہ جس میں 8قیدیوں اور ایک گارڈ سمیت 9جانیں گئی ہوں اور جس میں سرکاری ایجنسیوں کے رول پر اتنے شکوک و شبہات ہوں ،اس میں حقیقت سامنے آئے گی یہ اب اور بھی مشکل نظر آتا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اردو کی نئی نسل میں جاسوسی ادب میں اب کوئ بڑا نام نہیں ہے، اور خاص طور پر ہندوستان میں تو ڈٹیکٹو فکشن کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
انکاؤنٹر کوکل ایک سال ہو جائے گا،لیکن ایک سال بعد بھی حکومت پر حقائق کو چھپانے کا الزام برقرار ہے۔ بھوپال سینٹرل جیل سےآٹھ قیدیوں کے فرار ہونےاور پولیس کے ہاتھو ں ان کے انکاؤنٹر کوکل ایک سال ہو جائے گا۔یہ ایک عجیب و غریب واقعہ تھا۔جیل افسران […]
تقریر اور تحریر کی آزادی جس کو ہم میں سے بیشتر لوگ فطری طور پرملا ایک حق سمجھتے ہیں، اسکے لئے کتنی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بنگلور میں ہوۓ اس واقعہ اور ان تمام واقعات سے سمجھ میں آتا ہے-
ڈرامہ نگار رفیع شبیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کتابیں تباہ ہو گیئں۔ ‘کتابوں کے علاوہ مشہور زمانہ رسالہ کھلونا ، شمع سے لے کر آجکل جیسے رسالوں کی فایئلیں، سب بھیگ کر خراب ہو گیئیں، یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ بھوپال : صرف ڈیڑھ گھنٹے کی […]