کورونا وبا کے پھیلنے یا پھیلانے کا ذمہ دار اگر ہم ہندو مذہبی ٹھیکیداروں کو ٹھہراتے ہیں تو اس سے کوئی سادھو، سنت، سوامی یا سنیاسی مراد نہیں لے سکتے بلکہ وہ حکمران طبقہ ہی ہے جو بیک وقت صاحب اقتدار بھی ہے اور مذہبی دکاندار بھی۔ پورا آوے کا آوا بہروپ و ہم رنگ ہے، حالت یہ ہے کہ ان کی سیاسی ٹھیکیداری اور مذہبی دکانداری کے درمیان خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا۔
سوچو! جو رسول تمہیں معمولی آندھی اور بارش میں مسجد آنے سے منع فرمائے اور گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم دے وہ کس طرح وباؤں کے زمانے میں تراویح، جمعہ اور عیدین کی جماعتوں کے قیام پر تمہیں مجبور کرے گا اور خوش ہوگا؟
ہندوستان دو راہے پر کھڑا ہے اور عدالت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ پڑوسی ملک کی عدالتوں نے’نظریہ ضرورت’کی نا مبارک اصطلاح وضع کر کے ایوب خان، یحیی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت کو سند جواز بخشا اور آئین کی پامالی کا سبب بنتی رہی ہیں۔ ہماری عدالتوں نے بھی’آستھا/عقیدہ’ اور ‘جَن بھاونا/عوامی امنگوں’ کی نا معقول اصطلاحات وضع کر کے گزشتہ دنوں میں اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔
یہ کھیت اور پیٹ کی لڑائی ہے جو سڑکوِں پر لڑی جا رہی ہے۔ قیادت پنجاب ضرور کر رہا ہے لیکن اس میں پورے بھارت کے کسان شامل ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کو جمہوری ریاست عزیز ہے تو انہیں اب کی بار جمہور کے سامنے ہارنا ہی ہوگا، ہمیشہ جیت کی بے لگام خواہش کبھی کبھی بڑی تکلیف دہ دائمی ہار پر منتج ہوتی ہے۔