اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔
مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔
کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔
ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کم سے کم یوپی میں تو ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ پرینکا نے ایک کتاب اور مکمل کر لی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی اور سیاست سے متعلق اس کتاب کا عنوان فی الحال Against Outrage دیا گیا ہے۔
سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔