افسانہ

ہمارے شمس الرحمن فاروقی!

مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔

ایک ہی چاند تھا سرِ آسماں

خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی […]

شمس الرحمن فاروقی، آہ …اب کون اس شفقت پدری سے مخاطب کرے گا

آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔

عینی آپا کے ہندوستان میں ہنومان بھی یا علی بولتے تھے

ادبی میدان میں عورت اور مرد کی تخصیص انھیں قطعی نا پسند تھی۔ عینی نے اپنی ساری زندگی عورت سے جڑےان ٹیبوز کو توڑا جس کے تحت عورت کمزور تصور کی جاتی ہے اور بغیر ہم سفر کے اس دنیا میں اس کا رہنا تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔

الیاس احمد گدی: کوئلہ مزدوروں کا قصہ گو…

جو کام مہا شویتا دیوی نے بنگلہ میں کیا ہے،وہی کام الیاس احمد گدی اردو فکشن میں انجام دے رہے تھے۔گدی انسانی تاریخ کو استحصال کی تاریخ تصور کرتے ہیں اور انسان کے تمام مسائل کی جڑ میں بھوک کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، جس کے سبب انسان پلو والے آم بھی کھانے کو مجبور ہوتا ہے۔