’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
یوم وفات پر خاص: ادھر مقبولیت کا یہ عالم کہ ابن صفی کے جاسوسی ناول دھڑا دھڑ بک رہے ہیں اور ادھر یہ مٹھی بھر ناخدا اتنے زور آور ہیں کہ اتنے مقبول و مشہور مصنف کو ادب میں گھسنے نہیں دے رہے۔
انتظار حسین کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر: پھر آئے گی، جی یہی نام ہے اُس افسانے کا اور یہ نام منٹو کا رکھا ہوا ہے۔انتظار حسین کے مطابق منٹو نے افسانے کا مسودہ نکال کر کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے۔یہ “وہ” کون ہے۔ “وہ” اس کہانی کا پہلا نام تھا۔ انہوں نے کچھ اور اعتراض بھی کیے اور نہ نظر آنے والی لڑکی کا کردار ایک بار پھر لکھنے کو کہا۔ وہ تبدیل شدہ افسانہ لکھ کر لے گئے تو منٹو نے کہا “یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ “وہ” کیا ہوتا ہے؟ “بکواس”۔
انٹرنیٹ نے موبائل فون میں بھی گھس پیٹھ کر لی ہے، سو ہر کس و نا کس کے ہاتھ یہ جالِ جدید لگ گیا ہے۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا غالب کے نام سے بے تُکی باتیں نیٹ پر ڈال دیتا ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھیے وہ نایا ب کتابیں کون سی ہیں اور انہیں کیسے Digitizedکیا جارہا ہے۔
ہند و پاک کے ادیب ارجمند آرا،حقانی القاسمی ،خالد جاوید ،علی محمد فرشی ،محمد حمید شاہد،معید رشیدی اور ناصر عباس نیر کی پسندیدہ کتابیں۔