’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔‘‘ غالبؔ بہت خفیف ہوئے؛’’لاحول ولا…آپ میرے بزرگ ہیں…مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘
بوڑھے جنگی سپاہی کی ڈائری کا ایک ورق: جنگ یہ بتاتی ہے کہ انسان کے پاگل پن کی آخری منزل کیا ہوسکتی ہے۔ جنگ یہ بھی بتاتی ہے کہ دوسروں سے نفرت کی انتہا کیا ہے؟ جنگ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسانی دلوں میں محبت، مروت، درگزر اور ترحم کے وہ سب جذبات کس طرح اچانک دم توڑ دیتے ہیں، جنھیں پیغمبروں، فلسفیوں اور فنکاروں نے اعلیٰ ترین اقدار بنا کر پیش کیا ہے۔
انتظار حسین کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر: پھر آئے گی، جی یہی نام ہے اُس افسانے کا اور یہ نام منٹو کا رکھا ہوا ہے۔انتظار حسین کے مطابق منٹو نے افسانے کا مسودہ نکال کر کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے۔یہ “وہ” کون ہے۔ “وہ” اس کہانی کا پہلا نام تھا۔ انہوں نے کچھ اور اعتراض بھی کیے اور نہ نظر آنے والی لڑکی کا کردار ایک بار پھر لکھنے کو کہا۔ وہ تبدیل شدہ افسانہ لکھ کر لے گئے تو منٹو نے کہا “یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ “وہ” کیا ہوتا ہے؟ “بکواس”۔
یوم وفات پر خاص:عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
غضنفر کا 20 خاکوں پر مشتمل یہ مجموعہ خوش رنگ چہرے معاصر ادبی منظر نامہ کے نادیدہ پہلوؤں سے قاری کو واقف کراتا ہے گو کہ ’’مسلسل ذکر خیر‘‘ عام قاری کو کم ہی خوش آتا ہے۔
جو ملک اور معاشرہ اپنے ادیب کو نہ بچا سکے، وہ قاتل ہوتا ہے۔ ترقی پسندوں نے اسے بہت زچ کیا۔ اس کو کبھی فحش نگار، جنس پرست، تلذد پسند، لذتیت کا شکار قرار دیا تو کبھی اس کے کردار کی نکتہ چینی کی۔
فلم میں منٹو کی کہانیوں کے کردار بھی پیش ہوۓ ہیں-یہ بھی اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام ہیں- انہیں دیکھتے ہوۓ کئی بار ایسا لگا کہ ہم فلم کی بجائے اسٹیج پلے دیکھ رہے ہیں-
مجھے یقین ہے کہ 21 ستمبر کو “منٹو”کے پریمیئر پر لاہور کے قبرستان سے بھاگ کر ممبئی پُہنچ جائیں گے اور پھر نندتا داس اُن کو پوری دنیا میں لئے پھر ے گی!
”جاﺅ….چلے جاﺅ….ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے….تم مسلمان بہت اچھے ہو۔”شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کردیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔ مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر […]