انہیں آزادی بہت عزیز تھی۔ وہ آج کے ہندوستانیوں (جو ان کی اولاد ہیں)کی طرح نہیں تھے، جنہیں آزادی کی اہمیت کا احساس کافی دیر سے ہوتا ہے۔ آریائی لوگوں کو موت منظور تھی، مگر بے عزتی اور غلامی کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھی۔
جواہر لعل نہر و نے کہا تھا کہ -اگر کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر دوسروں کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو میں ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے یا عام آدمی کی حیثیت سے اپنی آخری سانس تک اس سے لڑوں گا۔
میں مکمل جمہوریت کو مانتا ہوں یعنی سیاسی اور اقتصادی دونوں طرح کی آزادی حاصل ہو۔ فی الحال میں سیاسی جمہوریت کے لیے کام کر رہا ہوں۔ لیکن سمجھتا ہوں کہ یہی چیزبڑھ کر اور پھیل کر معاشی جمہوریت بھی بن جائے گی۔
سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں نظریاتی اختلافات بھی تھے۔بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔
ایک ہی دن عید منانے سے اتحاد کا سیدھا اور صاف پیغام ضرور جائے گا کہ اسی دن پورا ملک ایک ساتھ چھٹی بھی منا لے گا۔ مختلف مِلی و مذہبی گروپوں، تنظیموں اور اداروں کو اس سمت میں پہل کرنی چاہئے۔