Fisherwomen Series

سندربن میں اپنی ناؤپانی میں اتارنے جاتی ہوئیں پارل، ارمیلا اور رتنا۔ (تمام تصویریں: شری رام وٹھل مورتی، شمشیر یوسف)

قانون اور آدم خور باگھ سے برسرپیکار سندربن کی خواتین کی جنگلات کے حقوق کے لیے جدوجہد

ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کا اثر سندربن میں سب سے زیادہ ہے۔ سطح سمندر کے بلند ہونے، سائیکلون اور طوفان وغیرہ سے کھیتی کی بربادی کے بعد ماہی گیری پر انحصار زیادہ ہو گیا ہے۔ ایسے میں ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ یہاں جنگلات کے حقوق کا قانون لاگو کیا جائے اور ماہی گیری کے حق کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔

پڈوچیری کے کرائیکل میں مچھلیاں فروخت کرتیں خواتین۔ (تمام تصاویر: شری رام وٹھل مورتی، شمشیر یوسف)

خاموش احتجاج: پدرشاہی پنچایتی نظام کے خلاف پڈوچیری کی ماہی گیر خواتین کی بغاوت

پڈوچیری کی غیر رسمی اُر (گرام) پنچایتیں ماہی گیروں کے کاروبار سے لے کر شادی اور دوسرے تنازعات تک کے معاملے طے کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ حالانکہ ان پنچایتوں میں عورتوں کی نمائندگی نہیں رہی ہے اور نہ ہی ان کی بات سنی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب سست گام ہی سہی، تبدیلی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

ماہی گیر خواتین کے ہمراہ کمیا دیوی۔ وہ کہتی ہیں؛ پہلے برہمن کرسی پر بیٹھتے تھے اور ہم  زمین پر۔ اب ہم دونوں کرسی پر بیٹھتے ہیں اور برابری  سے بات کرتے ہیں۔ میں  نے بہت ساری  زمینیں خریدی جو پہلے برہمنوں کی ملکیت تھیں۔ ایک وقت تھا جب میرے پاس صرف ایک پھوس کی جھونپڑی تھی، جس کے باہری حصے میں میرے سسر سوتے تھے اور میں اور میرے شوہر اندر کے حصے میں سوتے تھے۔ ماہی گیری کے پیشے سے حاصل ہونے والی آمدن سے میں نے  زمین خریدی اور دو منزلہ مکان تعمیر کروایا۔ (تمام تصاویر: شری رام وٹھل مورتی، شمشیر یوسف)

اب اور غلامی نہیں: جنسی استحصال اور ذات پات کے نظام کے خلاف بہار کی ماہی گیر خواتین کی جدوجہد

طبقہ مقتدرہ و اشرافیہ کے ہاتھوں ماہی گیر خواتین کا جنسی استحصال عام سا واقعہ رہا ہے۔ خواہ وہ برہمن ہوں، یادو ہوں یا کوئی اور، مردوں کی مبینہ صنفی برتری اور پیسے کی طاقت اس بات کو یقینی بناتی رہی کہ متاثرہ عورتیں جبر و استحصال کے خلاف لب کشائی نہ کریں۔