نریندر مودی اپنی تقریروں میں لفظی بازی گری کا نمونہ پیش کرتے رہتے ہیں – کبھی معجز نمائی کے لیے تو کبھی ‘دانشوری’ بگھارنے کے لیے۔ حالاں کہ آئندہ 23 جولائی کو جب ان کی تیسری سرکار کا پہلا بجٹ آئے گا تو وہ اس ‘المیہ’ سے دو چار ہوں گے کہ لفظی بازی گری کا اب ایسا کون سا نیا نمونہ پیش کریں اور کس طرح پیش کریں؟
میڈیا کا ایک بڑا طبقہ، جس کا مذہب اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال پوچھنا ہونا چاہیے، گھٹنے ٹیک چکا ہے اور ملک کے کچھ سب سے طاقتور لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے، لیکن عام لوگ ایسا نہیں کرنے والے ہیں۔ ان کی آواز اونچے تختوں پر بیٹھے لوگوں کو سنائی نہیں دیتی، لیکن جب وقت آتا ہے وہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے دور کو پورا ہونے میں تقریباً16 مہینے کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ لیکن انہیں خود کو اور اپنی حکومت کو آزاد پریس کےتئیں جواب دہ بنانے کی ضرورت آج تک محسوس نہیں ہوئی ہے۔
کیا مودی سپر مین ہیں ،جن سے سوال نہیں کیا جاسکتا؟ جمہوریت کے چوتھے ستون کے ممبروں سے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ یاری گانٹھنے کی امید نہیں کی جاتی۔ ان سے یہ امید بھی نہیں کی جاتی کہ وہ وزیر اعظم کو دلاسا دیتے رہیں کہ […]