Shamsur Rahman Faruqi

تخلیقی سرگزشت: ’مجھے لکھنے کی بھوک لگتی ہے اس لیے لکھتا ہوں‘

چند بڑی طاقتیں احساس دلانا چاہتی ہیں کہ عام انسانوں کی محنت اور کوشش انہی کی طرح حقیر ہیں۔ انہیں اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر پیاسے انسان کو آبیاژوں سے بہلایا نہ گیا تو پیاس کی شدت صبرو تحمل کا بند توڑ سکتی ہے اور اگر بند ٹوٹا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی کھسک سکتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے شاعر،ناقد اورمعروف فکشن نویس غضنفر کو۔

’اگر نول کشور نہ ہوتے تو ہم  تخیلاتی ادب کے عظیم ترین کارناموں سے محروم رہ جاتے‘

’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘

ہمارے شمس الرحمن فاروقی!

مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔

ایک ہی چاند تھا سرِ آسماں

خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی […]

شمس الرحمن فاروقی، آہ …اب کون اس شفقت پدری سے مخاطب کرے گا

آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔

اردو اخبارات پر شمس الرحمن فاروقی کا تبصرہ : کیا وہ احسان فراموش ہیں ؟

شمس الرحمن فاروقی کو ہی نہیں ایک اردو قاری کو بھی ابکائی آتی ہے جب ایک اردو روزنامہ انسانی حقوق کی مجاہدہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے بعد ایک مضمون اس عنوان کے ساتھ شائع کر تاہے قادیانی خاوند، عیسائی داماد خود مذہب بیزار عاصمہ جہانگیر ۔

ورق در ورق: حکیم احسن اللہ خاں کی داغدار سیاسی شبیہ کے جالوں کو صاف کرتی کتاب

یہ کتاب تحقیقی دقت نظری کے نئے باب وا کرتی ہے اور حکیم احسن اللہ خاں کو ایک نئے تاریخی تناظر میں پیش کرتی ہے جہاں حکیم صاحب مغلیہ سلطنت کے سچے بہی خواہ اور انگریزوں کے مخالف کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ پہلی ایسی کتاب ہے جو حکیم صاحب پر لگائے گئے الزامات کا پوری معروضیت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے اور الزام تراشی کے مسلسل عمل پر فل اسٹاپ لگاتی ہے۔