حقوق انسانی

کیا اسکول میں فیل کرنے سے بچّے زندگی میں‘ پاس ’ ہو جائیں گے؟

تعلیم کے حق قانون کو گزشتہ سات سال میں مناسب طریقے سے نافذ کیا گیا یا نہیں، اس کا اندازہ کسی نے نہیں کیا۔ سبھی نے اپنی ناکامی کو بچوں پر تھوپ دیا اور بچوں کی کسی نے پیروی تک نہیں کی۔

school-children-reuters.

کابینہ نے منظوری دے دی ہے کہ بچوں کے سیکھنے کے حق کو واپس لے لیا جائے۔ یعنی اب تعلیمی نظام کی کمزوری کو چھپانے کےلئے پھر سے بچوں کو فیل کرکے آگے بڑھنے سے روک دیا جائے۔

تعلیم کا حق قانون 2009 کے نافذ ہونے کے گزشتہ سات سالوں میں نہ تو بچوں کو سیکھنے کا مناسب ماحول دیا گیا اور نہ ہی صحیح طریقے سے ان کا اندازہ بھی کیا گیا،لیکن سبھی نے اپنی ہی ناکامی کو بچوں پر تھوپ دیا۔ اور بچوں کے کسی ہمدرد حامی نے پارلیمنٹ میں ان کی پیروی تک نہیں کی! ۔

غور طلب ہے کہ وزارت تعلیم نے جب 2009 میں یہ قانون منظور کیا تھا تو ایک سرکاری نوٹ میں بچوں کو فیل نہ کرنے کے سیکشن 16 کی یہ دلیل دی تھی:

‘امتحان کا استعمال اکثر ان بچوں کو فیل کرکے اسکول سے ہٹانے کےلئے کیا جاتارہا ہے جن کے نمبر کم آتے ہیں۔ فیل کرکے بچوں کو کلاس میں روکنے سے وہ مایوس اور حوصلہ شکن ہو جاتے ہیں۔ دوبارہ اسی کلاس میں روکنے سے بچے کو کسی بھی طرح کی توانائی یا نئے وسائل نہیں ملتے جس سے وہ اسی نصاب کو پھر ایک سال کےلئے دوبارہ کر پائیں۔ فیل ہونا بچے کی کمی نہیں زیادہ تر سیکھنے کے ماحول کی بدحالی کو دکھاتا ہے۔ یہ نظام کا فیل ہونا ہے۔ ضرورت ہے کہ نظام(یعنی سسٹم) کی حالت سدھاری جائے نہ کی بچے کو سزا دے کر روک لیا جائے۔ کوئی بھی ریسرچ یہ نہیں دکھاتا کہ فیل کرنے سے بچے کی سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ بلکہ وہ اسکول ہی چھوڑ دیتے ہیں’۔

دکھ کی بات ہے کہ زیادہ تر اساتذہ نے اس کو سیکھنے سکھانے کی خوبی بڑھانے کا وقت نہیں مانا بلکہ انہوں نے مان لیا کہ بچوں کو ڈرانے کا ان کا حق چھین لیا گیا ہے۔ بہر حال کچھ ایسے بھی استاد ہیں جو ڈٹینشن پالیسی کے لوٹنے سے اور موجودہ امتحانی نظام سے پریشان ہیں، صرف ان کی آواز سنائی کم دیتی ہے۔

ایک بار کچھ ایسے سرکاری استاد بچوں کی تشخیص(اندازہ) اور انتخاب(سلیکشن) کے نظام پر گفتگو کر رہے تھے۔داخلہ کے وقت کئی اسکول بچوں کا ٹیسٹ کیوں اور کیسے لیتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ دلّی میں تمام بچوں کو کہیں لے جاکر کہا جائے کہ چلو اب اپنے اپنے گھر پہنچو۔ یہی تمہارا امتحان ہے! ۔

ان کو اعتماد تھا کہ جہاں ان کے سرکاری اسکول میں آنے والے زیادہ تر تمام بچّے سمجھداری سے گھر پہنچ جائیں گے، وہیں مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں جانے والے بچے شاید اپنے سیل فون ٹٹولتے روتے ہوئے پائے جائیں۔

ہلکے لہجہ میں گہرا سوال تھا کہ ایسے امتحان میں آخر کیااندازہ لگایاجاتا ہے۔ کس‘ قابلیت’ کو اسکول کے لائق چنا جاتا ہے اور کیوں؟ اس شہر میں اکیلے، سمتوں، دوریوں، راستوں اور خطروں کو سمجھتے ہوئے صحیح مدد لے کر گھر پہنچ پانا کتنی خوداعتمادی، علم اور قابلیت کو دکھاتا ہے۔ واقعی بڑے بڑے بھی اس امتحان میں فیل ہو جائیں! ۔

پھر کیوں ایسی کئی قابلیتوں والے بچوں کو اسکول میں جلدہی‘سلو لرنر’کا خطاب دیا جاتا ہے؟ ان کے علم کو بغیر سمجھے، ہم (جانے انجانے طورپر) ان کے سلیف امیج (خود خیالی) اور عزت پر چوٹ پہنچا دیتے ہیں۔

اسکول کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ ہم تن تن کر یہ چوٹ پہنچاتے رہیں؟ ہر ہتھیار سے، طعنوں سے یا پٹائی سے، کلاس میں ناقدری یا کھچائی سے، ان سے کم توقع رکھنے یا ان پر رحم دکھانے سے نا اہل یا‘ نالائق’کی خود خیالی دے کر، فیل کرکے اسکول سے ہی باہر دھکیل دیں؟

تعلیم میں ان سوالوں پر خاص کر اسّی کی دہائی سے کافی عمیق صلاح مشورہ ہوا ہے اور ساتھ ہی بچوں کے سیکھنے کے عمل پر بھی نظریاتی سمجھ بنی ہے۔

تعلیم کا حق قانون 2009 بھی انہی مدعوں سے مقابلہ کرتاہوابچوں کے سیکھنے کے حقوق کو ترجیح دیتا ہے۔

مانتا ہے کہ صرف اسکول میں بھرنے یا بھرتی کرنے سے، ڈانٹ- ڈپٹ-ڈر اور مقابلہ جاتی ماحول بناکر تعلیم نہیں دی جاتی۔ کتنا ہی ٹپ ٹاپ ایئر کنڈیشنڈ اسکول ہو، کتنے ہی اسمارٹ بورڈ ہوں، صرف انفارمیشن یا معلومات دے کر بچّوں کو اچھا لرنر نہیں بنایا جا سکتا۔

ہاں، شاید اسمارٹ حاضر جواب انسان بنا سکتے ہیں جو بغیر گہری سمجھ کے فوراً وہی انفارمیشن خوبصورت طریقے سے دوہرا لے۔ مگر علم اور انفارمیشن میں تو فرق ہے نا؟ اور معاشرہ میں آج بھی اس کو پہچانا جاتا ہے، صرف اس معاشرہ کو یا اس کی آواز کو درکنار کر دیا جاتا ہے۔

کبیر نے پانچ سو سال پہلے کہا تھا نا‘ تیرا میرا منوا کیسے ایک ہووے؟-میں کہتا ہوں آنکھن دیکھی، تو کہتا کاگد کی لیکھی’۔

بچے اپنا علمی تخلیق تو شروع سے ہی کرتے ہیں لیکن اگر سبھی کے علم کو سمجھنا ہو، تعریف کرنی ہو اور ساتھ بڑھانا ہو تو اسکول کا منوا بدلنا ہوگا۔

آر ٹی ای نے یہی کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آر ٹی ای کو ہی سمجھا نہیں گیا یا پھر جان بوجھ کر ناکام کرنے کی کوشش کی گئی۔

آر ٹی ای نے منع کیا کہ 6-14 سال کے بچّوں کا کمپٹیشن کی بنیاد پر کوئی بھی انتخاب نہ کیا جائے، داخلہکے وقت یا اس کے بعد۔ اور اسی لئے بورڈ کے امتحان کو ممنوع کیا۔

اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ اسکول میں امتحان یا ٹیسٹ نہیں ہوںگے۔ بلکہ یہ سراسر غلط تشہیر کی گئی ہے کہ امتحانات نہیں ہیں۔ضابطہ نے آخر ایسا کیوں کہا ہوگا؟ اس کے پیچھے تعلیمی اصول کیا ہے؟

آپ ہی سوچیں کہ اسکول میں لا مرکزی طور پر امتحان لینے اور بورڈ کے امتحان میں آپ کو کیا فرق نظرآتا ہے؟

دکھائی دینےسے زیادہ ہم سب کو ان دونوں عوامل میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟ کیونکہ یہ محسوس ہم سبھی نے کسی نہ کسی طرح کیا ہوگا۔ اسکول کی سطح پراندازہ کرنے میں بچوں کا لوکل علم، ان کی اپنی زبان اور زندگی سے جڑی باتوں کا صحیح جائزہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ استاد اس سے آشنا ہوتے ہیں یا جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اس سے بھی ضروری ہے کہ اسکول میں اس اندازہ سے بچوں کو فیڈبیک دیا جا سکتا ہے کہ بہتر کرنے کےلئے وہ کیا کریں۔

یہاں یہ مطلب نہیں کہ رٹ کر جواب دیں،لیکن اپنی سوچ سے، مطالعے سے، سمجھ سے، اور ذرائع سے پڑھ کر، سوالوں کے جواب کھوج کر، تخلیقی ڈھنگ سے لکھ کر، تجسس سے، جگاڑ سے، استعمال کرکے وغیرہ دیگر کن کن طرحوں سے ان کے سیکھنے کے عمل اور کارگر بن سکتے ہے۔

ظاہر ہے کہ لوکل سطح پر مقابلہ کا جذبہ کم ہوتا ہے اور اس سے جڑے نفسیاتی مسئلہ بھی، جس میں ڈر، فکر اور کشمکش اہم ہیں۔

یہ دماغی تناو ہر طالب علم پر ہوتاہے چاہے وہ سیکھنے میں اہل ہے یا کمزور۔ تمام ریسرچ بتاتے ہیں کہ اندازہ کے ماحول میں مقابلہ اور ذہنی تناوکو جتنا کم کریں اتنی بہتر طالب علموں کی کارکردگی ہوتی ہے۔

(فائل فوٹو : رائٹرس)

تشخیص کی جگہ اندازہ اوردوسروں کے ساتھ مقابلہ نہ کرکے طالب علم کی کارکردگی اپنے ہی ساتھ، اپنی بہتری کےلئے لگایا جاتا ہے۔

پہلے کے کچھ سال جب ہر طالب علم کو سیکھنے کا صحیح ماحول ملے، جس میں سیکھنے کو سمت دینے اور پوری حوصلہ افزائی کرنے والے استاد تیار ہوں، سیکھنے کا ضروری سامان میسر ہو، اچّھی تخلیقی کتابیں، کتب خانہ، بنیادی آلات وغیرہ تو پھر ہر طالب علم اپنی رفتار سے اور اپنے دوستوں سے سیکھتے ہیں اور پوری طرح سے ان کی صلاحیتیںنکھرتی ہیں۔

یہ ہر طرح کے طالب علم کےلئے تو ہے ہی مگر ان کے لئے اور ضروری(ہے) جو محروم گھروں سے ہوں چونکہ ان کو گھر پر اکثر سیکھنے کےلئے مناسب ماحول اور مدد نہیں مل پاتی۔

ایسا کئی ممالک میں پایا گیا کہ الگ الگ طبقات اور صلاحیتوں کے بچوں کو ایک ساتھ رکھنا، ایک دوسرے سے سیکھنے کے موقع دینا، امتحان نہ لینا، اور فیل نہ کرنے سے سبھی کی قابلیتوں میں اضافہ ہوا، سبھی بلند سطح کے لرنر(سیکھنے والے) بنے۔

آر ٹی ای نے اسی لئے دائمیً اور مکمل تخمینہ یا سی سی ای پر زور دیا تھا۔ اس عمل سے بچوں کی سبھی قابلیت کو دیکھ کر ان کی بہتری کو مکمل طور پرتشخیص کرنے کے طریقے اپنانے پڑتے ہیں۔

صرف تحریر شدہ سوال نامہ سے نہیں دیگر کئی سرگرمیوں سے، ہاتھ کے ہنر، تجسس، تخلیقی صلاحیت، دل کے احساس، دوسروں کے ساتھ کام کرنا، اسکول اور اپنے علاقے کے متعلق بیدار ہونا ایسی کئی قابلیتوں کو تشخیص کرنے اور پنپنے کا موقع دینا پڑتا ہے۔

آر ٹی ای قانون یہ حق ہر بّے کو دیتا ہے کہ اس کو سیکھنے کا اچھا ماحول ملے اور ایسے ہی اندازہ کا طریقہ ملے۔ ایسا نہ ہونے پر اس کے حق کی حق تلفی مانا جانا چاہئے۔

ظاہر ہے کہ جب ساٹھ ستّر بچّے ایک ساتھ کلاس میں ٹھونسے جائیںگے اور صحیح اور مناسب استاد، سامان اور ماحول نہیں پائیںگے تو سیکھنے کا موقع کہاں ملے گا۔

اس پر بے معنی سوالوں والے امتحان، جس میں علم نہیں غیر سنجیدہ طرح کی معلومات پوچھی جا رہی ہے، اس سے ان کو لتاڑا جا رہا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ اب ان کو پاس نہیں فیل کر دیں تو یہ کیسا انصاف ہے؟

کیا فیل کرنے سے بچے بہتر سبق لیں گے؟ اگلے سال اسی درجے میں بیٹھنے سے یا بیٹھانے کے ڈر سے کیا ان کی سیکھنے کہ صلاحیت بڑھ جائے گی؟

تحقیق اور اصول آج دکھاتے ہیں کہ سیکھنے کی صلاحیت موٹیویشن یا ترغیب سے پنپتی ہے۔ تو اب آپ ہی بتائیں کیا آپ ایسے بچوں کو جانتے ہیں جو بغیر دلچسپی اور ترغیب کے، فیل کے ٹھپے کے ساتھ، ساتھیوں اور ٹیچر کی نظر میں، اور اپنی ہی نظر میں گرنے کے باوجود، بہتر سیکھنے کےلئے اہل ہوں گے؟ ان کے حق کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیوں؟

(انیتا رامپال دلّی یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم میں پروفیسر ہیں)