ادبستان

جب سرسید نےگھنگھرو باندھے

سر سید کو یہ طریقہ دیکھ کر خیال آیا کہ ایسی ہی منڈلی اور تھیئٹر مسلمانوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔

sir syed_amuچند دن ہوئےکہ سر سید احمد خان کی دو صد سالہ سالگرہ کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ اسی دوران ہندوستانی رائٹر رعنا صفوی نے دہلی میں سر سید کےآبائی محلے و حویلی کی چند تصاویرٹوئٹر پر پوسٹ کیں۔ میراتعلق پشتون پاکستان میں بائیں بازو اور قوم پرست تحریک سے رہا ہے جس کا سر سید سے براہِ راست تو تعلق نہیں تھا،مگر ہمارے مشاہیر میں سے خان عبدالغفار خان المعروف بادشاہ خان اور غوث بخش بزنجو مرحوم نے علی گڑھ میں تعلیم پائی تھی۔ عمارات کی زبوں حالی دیکھ کر بڑا قلق ہوا اور بے اختیار ہندوستان کے باکمال مگر جوانا مرگ شاعر جمال الدین عرفی شیرازی کا یہ شعر یاد آگیا؛

از نقشِ و نگارِ در و دیوارِ شکستہ آثار پدید است صنادید عجم را(ان شکستہ در و دیوار کے نقش و نگار سے گزرے ہوئے مشاہیر و عمائدین کی نشانیاں عجم والوں پر ہویدا ہو رہی ہیں۔ )

سر سید نے اپنی شاہکار تصنیف آثار الصنادید کا نام اسی شعر سے کسب کیا اور گمان ہے کچھ ایسی ہی وارداتِ قلبی ضرور رہی ہو گی۔ عرفی کا یہ شعر تو ان کے ایک نعتیہ قصیدے میں وارد ہوا ہے اور سر سید نے خود ایک بے مثال نعتیہ غزل لکھی تھی جو شیخ محمد اکرام نے موجِ کوثر میں سر سید کے تذکرے کے اندر مِن و عَن شامل کی تھی۔ مقطع یوں تھا کہ؛

 ز برہاں تا بہ ایماں سنگ ہا دارد رہِ واعظ نہ دارد ہیچ واعظ ہمچو برہانے کہ من دارم( واعظِ خشک کے راستے پر چلنے میں عقائد اور دلائل کے سنگلاخ مراحل ہیں۔ مگر واعظ کے پاس وہ دلیل ہے ہی نہیں جو میں رکھتا ہوں یعنی سرکارِ دو عالم سے محبت۔)

اور فی الحقیقت سر سید کو اپنے صوفی عقائد پر بڑا ناز تھا۔ آپ کا خاندان صاحبانِ نقشبندیہ مجددیہ کا معتقد تھا اور مرزا مظہر جانِ جاناں کے خلیفہ شاہ غلام علی کی خانقاہ سے منسلک تھا۔ سر سید شاہ غلام علی کو دادا حضرت پکارتے تھے اور ان سے اپنی نسبت کو ایک شعر میں یوں بیان کر گئے؛

بہ مکتب رفتم و آموختیم اسرارِ یزدانی ز فیضِ نقشِ بندِ وقت، جانِ جانِ جانانی(میں مکتب میں گیا اور الوہیت کے رازوں کی جانکاری پائی اس کی عطا و مرحمت سے کہ جو نقشبندِ دوران ہے اور مرزا جانِ جاناں کی جان ہے۔)

اس کے علاوه جس دودمان کے چشم و چراغ سر سید تھے اسے شاہ عبدالعزیز دھلوی کے خانوادے کہ جہاں شاہ ولی الله کی سخت گیر فکر رائج تھی،سے بھی خاص عقیدت تھی۔ گویا آپ آغوش ہائےطریقت اور شریعت میں پلے تھے۔ مگر زمانے کی زبان کون روک سکتا ہے۔ اس کے با وصف کہ سر سید متدین آدمی تھے ان پر سیاست مدار اور شریعت مدار دونوں ہی نے فتوے کسے۔ ایک گروه کے نزدیک آپ انگریز کے ایجنٹ ٹھہرے اور دوسرے کے مطابق نیچری اور لادین۔

علماء کے اعتراضات بیشتر ان مضامین کی بنا پر تھے جو رسالہ تہذیب الاخلاق میں رسوم و قیود اور موہومات و مکروہات کے رد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوئے۔ مگر سر سید بھی دھن کے پکے تھے، کیا مجال کے ٹس سے مس ہو جائیں۔ بلکہ ان کی اس استقامت کا ذکر مولانا حالی نے ایک ناقدانہ پیرائےمیں حیاتِ جاوید میں بھی کیا ہے۔ حالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سر سید علی گڑھ کالج کے لیے چندہ جمع کرنے کی نت نئی ترکیبیں سوچتے رہتے تھے۔ مگر ایک مقام ایسا آیا کہ سر سید کی آزادہ روی، قوم کا درد اور مذہب کے ٹھیکیداروں کا کھلا رد، سب یکجا ہو گئے۔

 1884 میں سر سید نے اپنا مشہور دورۂ پنجاب کیا جس میں وہ مہاراجہ پٹیالہ سے لے کر مسلمان امراء و عوام کے پاس چندے کی درخواست لیے لیے پھرے۔ دورے کا آغاز لدھیانہ سے ہوا تھا اور آپ چیدہ چیدہ شہروں میں گھومے۔ سر سید کے رفیق مولوی سید اقبال علی نے اپنے سفرنامہ پنجاب میں اس دورے کی تفصیلات لکھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرتسر میں یوروپی قومی تھیئٹر کے نام سے صاحبان و خانُمانِ افرنگ ایک ہال میں اپنا کھیل تماشا رچا رہے تھے جس پر ٹکٹ لگا تھا جس سے ہونے والی آمدن یورپیئن عوام کی بہبود کے لیے وقف تھی۔

سر سید کو یہ طریقہ دیکھ کر خیال آیا کہ ایسی ہی منڈلی اور تھیئٹر مسلمانوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ مولوی اقبال علی لکھتے ہیں کہ سر سید نے کہا:

“ہم نے مدرسۃ العلوم کے لیے روپیہ جمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ امیروں سے التجا کی، والیانِ مُلک سے درخواست کی، قوم سے بھیک مانگی، غیرت کو طاق پر رکھا، غیر قوموں کے سامنے گداگری کے لیے ہاتھ پھیلایا، لاٹری کاجوا کھیلا مگر پوری کامیابی نہیں ہوئی- لیکن اگر کالج کمیٹی کے لوگ بھی مل کر ایک تھیئٹر بنائیں اور خود مقدس مقدس ممبران اس میں گانے والے اور تماشا کرنے والے ہوں تو صرف تین چار شہروں میں تماشا کرنے سے کافی روپیہ ہاتھ آ جاوے-

ذرا خیال کرو کہ جب ہماری یہ قومی تھیئٹر کی پارٹی جب کسی شہر میں پہنچے اور اشتہار دیا جائے کہ مولوی سمیع الله خان بہادر سب جج علی گڑھ اس طرح کا سوانگ بھریں گے، مولوی سید زین العابدین خان بہادر سب جج آگره اس طرح ٹھٹھول کریں گے، جب مولوی خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل علی گڑھ اور فلاں صاحب اس اس طرح کی نقل کریں گے۔ ان صاحب کے گلے میں ڈھولک ہوگی اور وہ صاحب سارنگی بجائیں گے، ان کے ہاتھ میں مجیرے ہوں گے، اور ایک مجلس کے مسخرے ہوں گے تو کس قدر لوگ تماشا دیکھنے کو آویں گے اور کس قدر روپیہ ہاتھ آجاوے گا- اگر ہم ایسا کریں تو اس طرح پر اپنی قوم کی بھلائی کے لیا روپیہ جمع ہو سکتا ہے۔

اس سے بڑھ کر پھر دنیا میں کوئی قومی عزت ایسی نہیں جو اس پارٹی کو پھر نصیب نہ ہو”یہ پلان سن سر سید کے ساتھی کسی قدر سراسیمہ ہو گئے۔ کسی نے کہا کہ ہم کو ایسا کرتے شرم آئے گی، کوئی کہنے لگا کہ اس طرح ہم پر دریائے طعن و تشنیع کے بند کھول دیے جائیں گے۔ مگر سر سید نے مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ بولے:

“لوگوں کے کہنے کا اگر میں خیال کرتا تو جو کچھ کیا ہے اس میں سے کچھ بھی نہ کرتا۔ لوگوں کو بکنے دو، لوگوں کے بکنے سے کیا ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ درحقیقت قوم کو اس سے فائدہ پہنچے گا یا نہیں۔”

بالآخر علی گڑھ میں نمائش کے موقع پر سر سید نے اپنا قومی تھیئٹر منعقد کیا جس میں وہ سوانگ بھر خود اسٹیج پر آئے۔ ان کے علاوہ ان کے رفقاء مولانا شبلی نعمانی، حاجی اسماعیل خان ، مسٹر جی کینیڈی، ڈاکٹر موریاٹی، مسٹر سمتھ، مسٹر انٹونیو،مسٹر آرنلڈ، مولوی خواجہ محمد یوسف صاحب، محمد سعید خان درویش، آغا محمد حسین، یاقوت خان پٹھان بھی طرح طرح کے روپ بہروپ بھر کر نمودار ہوئے۔ حاضرین میں سے کسی نے مولوی یوسف صاحب کو للکارا کہ وہ اگر پشواز، پہن کر اور گھنگرو باندھ کر ناچیں تو انہیں دو سو روپے دیے جائیں گے۔ مولوی صاحب نے منظور کیا۔

اسی موقعے پر شبلی نے بشکلِ مسدس ارشاد فرمایا:

ہے گماں اُن کو کہ آیا ہے یہ تھیئٹر کوئی یا کہ اس بھی تماشا ہے یہ بڑھ کر کوئی اس سبھا میں بھی نظر آئے گا اندر کوئی مسخرہ بن کے بھی آئے گا مکرر کوئی نقل وہ ہوگی کہ دیکھی نہ سنی ہو گی کبھی سیر وہ آج کریں گے جو نہ کی ہوگی کبھی کوئی کہتا ہے یہ تھئیٹر تو نہیں ہے لیکن ساز و نغمہ بھی نہ ہو، یہ تو نہیں ہے ممکن راتیں کاٹیں ہی اسی شوق میں تارے گن گن دیکھیں کیا سیر دکھائیں یہ بزرگانِ مسّن ہاۓ کیا سین ہے یہ بھی کہ گروهِ شرفا صاحب افسر و اورنگ تھے جن کے آباء قوم کے عقدۂ مشکل کے ہیں جو عقدہ کشا ایکٹر بن کے وہ اسٹیج پہ ہیں جلوہ نما…

الله الله کیا اولوالعزم لوگ تھے، جو ٹھان لیتے تھے اس کے لیے خود کو دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر طرح وقف کر دیتے تھے۔ وہ قوم کے مقبول اور مخدوم اس واسطے ٹھہرے کہ اسے سنوارنے نکھارنے کے لیے قوم کے آستانے کے جاروب کشی خدمت بجا لاتے رہے۔ بقول منتظر لکھنوی:

یادگارِ زمانہ ہیں ہم لوگ سن رکھو، فسانہ ہیں ہم لوگ سب کے مخدوم ہیں، ولے تیرے خادمِ آستانہ ہیں ہم لوگ۔

نوٹ : یہ مضمون پہلی دفعہ 22 اکتوبر2017 کو شائع ہوا تھااور آج 17 اکتوبر 2019 کو اس کو دوبارہ  شائع کیا جارہا ہے۔

(ڈاکٹر محمد تقی پاکستانی ،امریکی کالم نگارہیں،@mazdakiان کا ٹوئٹر ہنڈل ہے۔)