حقوق انسانی

بھوپال مبینہ انکاؤنٹر :بارہ مہینے بیت گئے سوال اب بھی قائم ہیں

انکاؤنٹر کوکل ایک سال ہو جائے گا،لیکن ایک سال بعد بھی حکومت پر حقائق کو چھپانے کا الزام برقرار ہے۔

bhopal-encounter-ptiبھوپال سینٹرل جیل سےآٹھ قیدیوں کے فرار ہونےاور پولیس کے ہاتھو ں ان کے انکاؤنٹر کوکل ایک سال ہو جائے گا۔یہ ایک عجیب و غریب واقعہ تھا۔جیل افسران اور پولیس کی زبانی اگر کہا جائے تو بیحد سخت سیکورٹی والی بھوپال جیل میں نہ صرف ان  قیدیوں نے ٹوتھ برش کی مدد سے چابیاں بنایئں اور اپنے سیل اور بیریک کے تالے کھولے بلکہ ایک جیل محافظ کو  مار ااور چادروں کی مدد سے سیڑھی بنا کر جیل کی اونچی دیواریں پھلانگ کر،  یہ آٹھ قیدی  بغیر کسی باہری مدد کے فرار ہو گے تھے۔ یہ  سیمی کے ممبربتائے گئےتھےجبکہ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ ان پر نہ کوئی دہشت گردی کا کیس ثابت ہوا تھا اور نہ ہی ان کے سیمی کی ممبرشپ کو  ثابت کیا جا سکا تھا۔

خاص بات یہ کہ ہائی سیکورٹی جیل کے کیمرے بھی اس رات  کام نہیں کر رہے  تھے۔ جب اعلیٰ افسران کو خبر لگی تو پولیس ٹیمیں سرگرمی سے تلاش میں جٹ گئیں اور چند گھنٹے بعد ہی، آٹھوں  کو  اچارپورہ کے مقام پر گھیر کر گولی مار دی گئی۔ ایک بھی   زندہ نہیں بچا جو  بتا سکتا کہ آخر یہ سب کیسے ہوا تھا۔اگر جیل سے بھاگنے کی سازش تھی تو یہ کیسے عمل میں آئی اور جیل محافظ کا قتل کس طرح ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھوپال مبینہ انکاؤنٹر کے معاملے میں تفتیش کے نام پر محض خانہ پری

بہر حال،جس طرح اس مڈ بھیڑ   کو انجام دیا گیا، شکوک و شبہات  کا ہونا لازمی تھا۔ افسوس کی بات یہ رہی کہ اتنے بڑے انکاؤنٹر جس میں جیل گارڈ کو ملا کر نو لوگوں کا قتل ہوا، اس پر حکومت  کا رویہ پہلے دن سے ہی حقائق کو چھپانے کا رہا۔مدھیہ پردیش سرکار نے شروعات سے ہی انکوائری کے مطالبے کو خارج کیا۔ کسی بھی مرکزی تفتیشی ایجنسی کو جانچ کے لیے نہیں کہا گیا۔جیل کے اندر  جو کچھ ہوا  وہ آج تک راز ہے۔ساتھ ہی انکاؤنٹر پر بھی بہت سوالات ہیں۔

انسداد ہشت گردی دستہ  یعنی اے ٹی ایس چیف  سنجیو شمی نےاس واقعہ کے فوراًبعد  کہا تھا کہ مقتول نوجوانوں کے پاس پستول نہیں تھے جب کہ بھوپال آئی جی  نے کہا کہ ہتھیار تھے۔دوذمہ دار افسران کے ایسے بیانات نے انکاؤنٹر کو مزید مشکوک بنا دیا۔وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نے مقتولوں کو ‘دردانت آتنکی’ یعنی  سخت گیر دہشت گرد کہا اور ایک پبلک پروگرام میں انکاؤنٹر میں شامل پولیس افسروں کو اعزازواکرام سےنوازا۔

Bhopal-killing-protest

اسکے بعد بھوپال ہی نہیں  کئی اور مقامات پراحتجاجات ہوئے۔سرکار  کے رویہ کی سخت نکتہ چینی ہوئی –سماجی کارکنوں نے سوال اٹھائے کہ کیسے  جیل کے کیمرے بند ہوئے اور یہ  کس طرح  ہوا کہ  مقتول نئے جوتےپہنے تھے اور ان سب کی داڑھی بنی تھی۔اسکے بعد  ایک رکنی  جوڈیشیل کمیشن کو جیل بریک اور انکاؤنٹر کی جانچ  کا ذمہ دیا گیا۔

اب جانچ رپورٹ سرکار کو سونپ دی گئی ہے اورذرائع کہتے ہیں کہ  اس میں جیل اور پولیس افسران کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔مگر یہ رپورٹ ابھی ایوان  میں پیش ہونی ہے۔مبینہ سیمی ممبران کے وکلا کا کہنا ہے کہ جانچ کمیشن نے انکی کسی بات کو نہیں سنا، حتی کہ انکو پولیس کے پیش کئے  گواہوں کو ‘کراس اگزامن’ کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔وہ کہتے ہیں کہ انکاؤنٹر کے معاملے میں مقتولین کے رشتہ داروں کی شکایتوں پر کیس درج نہیں  کیا گیا۔

سماجی کار کن مادھوری کہتی ہیں کہ بھوپال سینٹرل  جیل کے اندرونی حالات بیحد خراب ہیں، سیمی کے نام پر گرفتار قیدیوں کے ساتھ تشدد ہوتا ہے اور قومی  انسانی حقوق کمیشن کے دورے کے بعد  رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔اب ایک سال بعد، انکاؤنٹر پر راز برقرار ہے مگر وکلا ابھی ہمت نہیں ہارے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ قانونی لڑائی جاری رہے گی۔

ایڈوکیٹ سید ساجد علی کہتے ہیں کہ انکے پاس  آگے کے راستے کھلے ہیں اور وہ  اسکے بعد ہائی کورٹ جا سکتے ہیں۔”سرکار کا فرض ہے کہ عوام کو بتائےکہ اتنی بڑی چوک کیسے ہوئی تھی۔جس جیل میں روز تالے  بدلے جاتے ہیں اور  سیل کے اندر سے قیدی کا ہاتھ تک تالے تک نہیں پہنچتا وہاں کیسے چابیاں بن گئیں۔ آخر کن حالات میں اور کیسے اتنی محفوظ جیل سے یہ لوگ فرار ہو ئے، یہ صاف ہونا چاہیے’۔ ساجد علی کہتے ہیں کہ قانونی راہ کھلی ہے اور آگے اعلیٰ عدالتوں تک جائیں  تا کہ اس معاملے میں سچائی سامنے آئے۔