خبریں

سعودی عرب کاروبوٹ، گجرات کی سونا اگلنے والی مشین ، وزارت ٹرانسپورٹ کی تصویروں کا سچ

گزشتہ ہفتے ایک دلچسپ بات سامنے آ ئی۔ وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ و ہائی ویز کی ویب سائٹ پرجن تصویروں کو استعمال کیاگیاہے وہ تصویریں ہندوستانی سڑکوں کی تصویریں نہیں ہیں !وہ تصویریں  کینیڈا اور امریکہ کی  ہیں ۔

fn_sa_robot

گزشتہ  ہفتے ایک خبر سعودی عرب میں خواتین کے سماجی اور سیاسی حقوق  کے تعلّق سے عام رہی ۔ خبر کے مطابق ایک انسانی روبوٹ جس کا نام Sophia  ہے ، اس کو حال ہی میں سعودی عرب میں شہریت حاصل ہوئی ہے؛اس کا ایک چوراہے پر سر قلم کر دیا گیا !  یہ خبر غالباً اس بات کی طرف اشارہ تھی کہ سعودی عرب میں خواتین کی تو بات ہی چھوڈ دیجئے، وہاں خاتون کی شبیہ اور نام والے انسانی روبوٹ  کو  بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ خبر میں ایک شہری کا بیان بھی  موجود ہے  جس میں  کہا گیاہے کہ وہ روبوٹ کھلے عام  بنا محرم کے بے پردہ ہوکر گھوم رہی تھی اور پلکوں سے لوگوں کو اپنی طرف  مائل کر رہی تھی ، اس کا یہی انجام ہونا تھا !

خبر کی تحقیق سےظاہر ہوا  کہ جس ویب سائٹ پر سب سے پہلے یہ خبر شایع ہوئی تھی وہ امریکہ  کی ایک فیک نیوز ویب سائٹ ہے جس کا مقصد مزاحیہ مضامین  شائع کرنا ہے۔ ڈفِل بلاگ نام کی اس سائٹ نے اپنے ڈس کلیمر میں پہلے ہی  واضح کر دیا ہے کہ اس سائٹ کی باتیں حقیقت کے برعکس ہیں اور یہ سائٹ امریکہ کی دوسری نیوز ویب سائٹوں کی پیروڈی کرتی ہے۔ لہذاسعودی عرب کے روبوٹ والی نیوز میں جو باتیں عام ہوئی ہیں وہ جعلی ہیں۔

گزشتہ ہفتے کی دوسری فیک نیوز  میں پھر کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کو نشانہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا میں 20 سیکنڈ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں راہل گاندھی گجرات کی ایک انتخابی ریلی میں کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک ایسی مشین لگائیں گے جس میں ایک طرف سے اگر آلو ڈالا جائےگا تو مشین کی دوسری طرف سے سونا نکل کر  آئے گا !بوم لائیو نے  اپنی تفتیش میں واضح کیا کہ راہل کے اس ویڈیو کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے ۔ دراصل راہل گاندھی سے جس بات کو منسوب کیا گیا ہے وہ راہل گاندھی  کی زبان سے نرنیدر مودی کی بات ہے ! جب بوم نے کانگریس کے ترجمان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ راہل گاندھی اس بات سے یہ ظاہر کرنا چاہ رہے تھے کہ نریندر مودی بہت گپ مارتے ہیں اور وعدہ خلافی کرتے ہیں ! ویڈیو کی حقیقت اے بی پی نیوز پر یہاں دیکھی جا سکتی ہے ۔

گزشتہ ہفتے ایک دلچسپ بات سامنے آ ئی۔بھارت سرکار کی وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ و ہائی ویز کی ویب سائٹ پرجن تصویروں کو استعمال کیاگیاہے وہ تصویریں بھارت کی سڑکوں کی تصویریں نہیں ہیں !وہ تصویریں  کینیڈا اور امریکہ کی  ہیں ۔الٹ نیوز کی تفتیش میں ظاہر ہوا کہ ان تصویروں میں ایک تصویر گارڈ ینر ایکسپریس وے ، کینیڈا کی ہے، جب کہ دوسری تصویر امریکہ کےCanyon Road کی ہے۔الٹ نیوز پر شائع ہوئے مضمون میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا کہ ہندوستان کی تمام ویب سائٹوں کی تشکیل اور تکنیکی نگرانی نیشنل انفارمیٹکس سینٹر کے ذمے ہے اور یہ سینٹر از خود ایک ذمّہ دار ادارہ ہے ۔ لہذا سرکار یا سرکاری اداروں کو احتیاط برتنی چاہیے کہ ان سے اس طرح کے معاملات انجام نہ پائیں۔

fn_trnasport

گزشتہ ہفتے کی سب سے بڑی فیک نیوزآزاد  بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے متعلق تھی۔گزشتہ14تاریخ کو جواہرلعل نہرو کا یوم پیدائش تھا  اوراس کے اگلے دن ہی بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ  نے خواتین کے ساتھ نہرو کی کچھ تصویریں  اپنے ٹوئٹر پر شیئر کر دی اور نہرو کو بدنام کرتے ہوئے یہ لکھا کہ گجرات کے نوجوان لیڈر ہاردک پٹیل کاڈی این اے بھی یہی ہے ۔

fn_Nehru

یہ کوئی نیا موقع نہیں تھا کہ جب پنڈت نہرو کو ان تصویروں کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وقتا ًفوقتا  ً ان تصویروں کو پنڈت نہرو کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور ان کارناموں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نہرو کےچال چلن اوران کی  ذاتی زندگی پر سوالیہ نشان لگایا جائے ! الٹ نیوز نے ان نو تصویروں کی اصلیت اس طرح واضح کی :

تصویر1: پہلی تصویر میں پنڈت نہرو اپنی بہن وجے لکشمی کے ساتھ ہیں۔ وجے لکشمی اس وقت بھارت کی طرف سے روس کی سفیر  تھیں ۔یہ تصویر اس وقت کی ہے جب وجے لکشمی روس سے  بھارت آئی تھیں اور دہلی ائیرپورٹ پر نہرو نے  انکا خیر مقدم کیا تو انہیں اپنے گلے سے لگا لیا تھا  ! نہرو کا اپنی بہن وجے لکشمی کو یہی گلے لگانا زعفرانی فکر کو ناگوار گزرا ہے!

تصویر 2:دوسری تصویر میں پنڈت نہرو  لارڈ  ما ؤ نٹ بیٹن کی زوجہ لیڈی ما ؤ نٹ بیٹن کے ساتھ ہیں اور اس تصویر میں وہ لیڈی ما ؤ نٹ بیٹن کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔ الٹ نیوز نے اس پر سوال اٹھایا  کہ کیا امت مالویہ کی رول بک میں اس کی جگہ نہیں ہے؟

تصویر 3: یہ تیسری تصویر بھی نہرو اور انکی بہن وجے لکشمی کی ہے ۔1949 میں جب نہرو اپنے امریکہ دورے پر گئے تھے تو وجے لکشمی اس وقت ہندوستان کی طرف سے امریکہ کی سفیر تھیں ۔ جب نہرو امریکی ائیرپورٹ پر اترے تو انکی بہن نے انکا اس طرح خیر مقدم کیا جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے !یہ امت صاحب کوپسند نہیں آیا ہے !

تصویر  4:امریکہ کے سابق صدر جان ١ یف کینیڈی کی زوجہ جیکلین کینیڈی اپنے شوہر کے ساتھ 1962 میں بھارت تشریف لائیں تھی۔ الٹ نیوز کے مطابق یہ تصویر اس وقت کی ہے اور تصویر میں نہرو محترمہ کینیڈی کا  خیر مقدم ایک تِلک یا ٹیکا لگاکر کر رہے ہیں۔  تلک یا ٹیکا لگاکر خیر مقدم کرناخالص ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے لیکن مالویہ صاحب کو یہ بھی برداشت نہیں ہوا !

تصویر  5:اس تصویر میں نہرو معروف کتھاکلی فنکار ہ مرنالنی سارا بھائی کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ کتھاکلی ایک طرح کا رقص ہے جو ان دنوں اتنا عام نہیں تھا۔ نہرو فن و ہنر کے بڑے پارکھی تھے ۔1948 میں  جب دہلی میں مرنالنی سارا بھائی کی پرفارمنس ہوئی تو بقول مرنالنی پرفارمنس کے بعد نہرو جی ان سے ملے اور ان کی بہت تعریف کی۔ اپنے ایک انٹرویو میں مرنالنی نے یہ بات کہی تھی۔ مرنالنی کی نہرو سے عقیدت کی دو وجہ تھیں ؛ ایک یہ کہ انکی والدہ جنگ آزادی میں شریک ہوئی تھیں اور دوسری یہ کہ انکے شوہر وکرم سارا بھائی کے گھرانے سے بھی نہرو کے  گہرے تعلقات تھے ۔

تصویر  6:اس تصویر میں نہرو سگریٹ سلگاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ تصویر میں ہاردک پٹیل کا ڈی این اے کیسے نظر آ جاتا ہے، یہ تو امت مالویہ صاحب ہی بتا سکتے ہیں !

تصویر  7:اس تصویر میں نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل  پنڈت نہرو  کا بوسہ لے رہی ہیں۔ تصویر میں سہگل کی ماں اور نہرو کی بہن وجے لکشمی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ تصویر 1955کے لندن ائیرپورٹ کی ہے اور وجے لکشمی اس وقت لندن میں ہائی کمشنر تھیں ۔ نہرو جب کہیں لندن، امریکہ تشریف لے جاتے تھے تو ان کا استقبال اسی خلوص کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ لوگوں کی طرف سے نہرو کے لئے یہ خلوص آج کے دور میں گناہ ہے !

تصویر  8:اس تصویر میں نہرو  ما ؤ نٹ بیٹن کی بیٹی پامیلا ما ؤ نٹ بیٹن کے ساتھ دہلی میں نظر آ رہے ہیں ۔ اخبار دی ہندو سے حاصل کی گی اس تصویر میں پامیلا کے والدین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

تصویر  9: آخری  تصویر میں نہرو برطانیہ کی ہائی کمشنر مسز سائمن کی سگریٹ جلا رہے ہیں۔

ان  تصویروں کا سچ یہی ہے جس کو امت مالویہ نے غالبا ً جان بوجھ کر چھپایا ہے۔ ملک کے پہلے پرائم منسٹر اور جنگ آزادی کے عظیم مجاہد کی ذات کے ساتھ ایسا مذاق قابل افسوس ہے !

(مضمون نگار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں پبلک ایڈمنسٹریشن کے ریسرچ اسکالر ہیں )