شری کرشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق دسمبر،1992اور جنوری، 1993 کے دو مہینوں کے دوران ہوئے فسادات میں 900 لوگ مارے گئے تھے۔ ان میں 575 مسلم، 275 ہندو، 45 نامعلوم اور پانچ دیگر تھے۔
ہر شام عبدالستار جنوبی ممبئی کے محمد علی روڈ پر اپنی بیکری سلیمان عثمان مٹھائی والا کے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھکی لگاتے ہیں اور اپنی مٹھائیاں ان کو چکھنے کے لئے دیتے ہیں۔ یہ ایک بھیڑبھرا علاقہ ہے، جس میں پیدل راہ گیر اور پھیری والے جگہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ دھکامکی کرتے رہتے ہیں اور اس مصروف سڑک پر ٹریفک اپنی رفتار سے گزرتی رہتی ہے۔
یہ ایک عام سا منظر ہے، لیکن 25 سال پہلے اسی جگہ پر، اس بیکری کے اوپر واقع مدرسہ دارالعلوم امدادیہ پولیس کی زبردست فائرنگ کی واردات کا گواہ بنا تھا، جس میں 9 لوگ مارے گئے۔ مارے جانے والوں میں ستار کے پانچ ملازم بھی تھے۔ اس واقعہ اور اس واقعہ کے اردگرد کی گئی غلط رپورٹنگ، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اوپر والی منزل پر ہتھیار جمع کرکے رکھے گئے تھے، کا مقابلہ کرنا ستار کے لئے کافی مشکل تھا۔
مدرسہ کے استاد نور الہدیٰ مقبول احمد نے اس معاملے کو سپریم کورٹ تک آگے بڑھایا، لیکن آخر میں ہار گئے۔ پولیس اہلکاروں کو، جن کی قیادت اس وقت کے جوائنٹ پولیس کمشنر آر ڈی تیاگی کر رہے تھے، ثبوتوں کے فقدان میں قصوروار نہیں قرار دیا جا سکا۔ آج، 25 سال کے بعد ستار آگے نکل گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ یہ ایک بند باب ہے۔ یہ سب ماضی کی بات ہے۔ ‘
بیکری کے اوپر ایک مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں کام کرنے والے علاءالدین، انہوں نے اپنا پورا نام نہیں بتایا، بدبداتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے پولیس والوں کو سیڑھیوں پر چڑھتے اور گولی باری کرتے دیکھا، تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ علاءالدین کہتے ہیں، مدرسہ میں ایک چاقو تک نہیں پایا گیا تھا۔ نور الہدیٰ کے بیٹے عبدالصمد کہتے ہیں کہ اس وقت وہ کافی کم عمر کے تھے۔ مگر ان کو یاد ہے کہ ان کے والد کو بندوق کے کندہ سے مارا گیا تھا۔ اس سے آئی چوٹ نے 2012 میں ان کی موت تک ان کو پریشان کیا۔
کوئی بھی ان کی زندگیوں کو عذاب بنا دینے والے اس واقعہ کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے۔ 2015 کی یہ رپورٹ کہ اس مقدمہ میں آٹھ پولیس اہلکاروں پر پھر سے مقدمہ چل رہا ہے، ان کو کوئی راحت نہیں پہنچاتی۔
شہر کے دوسرے سرے پر واقع گورئی میں، سدرشن بانے ڈرائیور کی نوکری کرکے گزربسر کرتے ہیں۔ ان کے سرپرست اور چار دیگر لوگ، جن میں ایک معذور لڑکی بھی تھی، جنوری، 1993 کی بدنام گاندھی چال واقعہ میں زندہ جلاکر مار دئے گئے تھے۔ اس نے قتل عام کے ایک اور لمبے دور کو جنم دیا تھا۔ اس کی بہن نینا، کافی جلی ہوئی حالت میں وہاں سے کسی طرح بچ نکلی تھی اور کچھ مہینوں تک ہسپتال میں رہی تھی۔
6 دسمبر، کو بابری مسجد کے انہدام کی خبر پھیلنے کے ٹھیک بعد شروع ہوئے فسادات کچھ دنوں کے بعد تھم گئے تھے، لیکن گاندھی چال واقعہ کے بعد یہ پھر سے بھڑک اٹھے تھے۔ شیوسینا نے نینا بانے کو ‘ فسادات کا چہرہ ‘ کے طور پر پیش کیا اور اس واقعہ کا استعمال دنگا فساد مچانے کے بہانے کے طور پر کیا۔
پارٹی نے بانے فیملی کو گھر سمیت، کئی چیزیں دینے کا وعدہ کیا، لیکن وہ وعدے آج تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ اپنے بھائی بہنوں کی طرح سدرشن آج بھی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ گزرے ہوئے سالوں میں ان کو روزی کمانے اور اپنے بچّوں کو پڑھانے کے لئے لگاتار جدو جہد کرنا پڑی ہے۔ ان کا بیٹا کمپیوٹر انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہا ہے اور ان کی بیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ وہ اس جگہ پر لوٹکر نہیں گئے ہیں، جہاں ان کے ماں باپ کی موت ہوئی تھی۔
ان کا سب سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ کسی نے بھی فسادات کے دوران ‘ مراٹھی مانس ‘ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ 1992-93 میں فسادات کے بھڑکنے سے پہلے بھی جوگیشوری کا مضافاتی علاقہ، جہاں گاندھی چال آباد ہے، ایک بےسکون علاقہ تھا جہاں بار بار فسادات ہوتے رہتے تھے۔
ساجد شیخ، جن کا اپنا ایک ریئل اسٹیٹ بزنس ہے، نے بتایا کہ دونوں کمیونٹی کے درمیان آج بھی ایک دیوار ہے، لیکن کبھی کبھی وہ ہاتھ بھی ملا لیتے ہیں، خاص کر جب بھاری بارش ہوتی ہے یا باڑھ آتی ہے۔ جیسا کہ 2005 میں دیکھنے کو ملا، جب شہر میں باڑھ آئی تھی۔ حالانکہ فساد ماضی کی چیز ہو گئی ہے، لیکن یہ نشان چھوڑ گیا ہے۔
ہرجگہ، اس سے متاثر کوئی نہ کوئی مل جائےگا۔ قتل عام اور لوٹ کی یادیں آج بھی زندہ ہیں۔ وہ آگے جوڑتے ہیں، لوگ آگے بڑھ گئے ہیں، لیکن بھیڑ کے ذریعے پیٹ پیٹ کر کیے جانے والے قتلوں کے سلسلے اور گئورکشکوں کے بےلگام دنگا فساد کے بعد ایک بار پھر ڈر کا ماحول بن رہا ہے۔
شری کرشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق دسمبر،1992اور جنوری، 1993 کے دو مہینوں کے دوران ہوئے فسادات میں 900 لوگ مارے گئے تھے۔ ان میں 575 مسلم، 275 ہندو، 45 نامعلوم اور پانچ دیگر تھے۔ سدھاکر نائک کی کانگریس کی حکومت ان فسادات پر قابو پانے میں پوری طرح سے ناکام ثابت ہوئی اور آخرکار فوج کو بلانا پڑا۔
شری کرشن کمیشن کی رپورٹ میں 31 پولیس اہلکاروں پر الزام لگایا گیا تھا اور اس کے رہنما بالا صاحب ٹھاکرے کے اشتعال انگیز تقریروں کو بھی اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا تھا۔
باندرا کی ایک بڑی جھگی بستی بیہرامپاڑا میں97-1992کے دوران کارپوریٹر رہے گلزار شیخ نے بتایا کہ ایک بار بدامنی کم ہونے کے بعد کئی ہندو سخت تشدد جھیلنے والے اس علاقے کو چھوڑکر چلے گئے۔ انہوں نے کہا، ‘ لوگ اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں بھول سکتا کہ بابری مسجد منہدم کر دی گئی تھی۔ ‘ سماجی کارکن مریم راشد، جو فی الحال سوسائٹی فار ہیومن انوائرنمینٹل ڈیولپمینٹ کی ڈپٹی سی ای او ہیں، یاد کرتی ہیں کہ دھاراوی میں جہاں فسادات 6 دسمبر کو ہی شروع ہو گئے تھے، تشدد کے دوران ان کی سب سے اہم فکر وہ بچّے اور ان کا تحفظ تھا، جو یتیم ہو گئے تھے یا جنہوں نے اپنے ماں باپ میں سے کسی کو کھو دیا تھا۔
دھاراوی کے زیادہ تر حصے کو خالی کرا دیا گیا تھا، خاص کر ان علاقوں کو جن میں ہندو رہتے تھے۔ میرے گھر میں کچھ مسلم فیملیوں کو پناہ دی گئی تھی۔ کسی کو یہ پتا چل گیا کہ میں ان کو اپنے ساتھ رہنے دے رہی ہوں اور ایک رات جب میں دیر سے گھر لوٹی، کچھ لڑکے میرے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے باہر نکل جانے اور اس علاقے میں آگ لگا دینے کی دھمکی دی۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ قسمت سے وہاں پولیس وقت سے آ گئی۔جن فیملیوں نے میرے گھر میں پناہ لی تھی، وہ کافی ڈر گئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ‘ اگر آپ بھی محفوظ نہیں ہیں، تو ہمارا کیا ہوگا؟ ‘
اس رات وہ اس لئے بچ سکی، کیونکہ قاتل اور فسادی مریم کا پتا پوچھتے ہوئے گھوم رہے تھے، جو کہ ان کی شادی کے بعد کا نام تھا۔ لیکن اپنے پرانے علاقے میں اس کو اب بھی لینا کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ایک بار تو وہ کسی طرح سے موت کے منھ سے بچ نکلیں، جب سڑک پر چلتے ہوئے انہوں نے دو لوگوں کو تمل میں یہ کہتے سنا کہ ‘ یہ عورت مسلموں کی مدد کرتی ہے، اس کو قتل کر دیتے ہیں۔ ‘ وہ تیزی سے وہاں سے واپس لوٹ گئیں۔ ان کی تمل کے علم نے ان کی جان بچا لی۔
کئی فیملی، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں تھے، فسادات کے دوران دھاراوی کو چھوڑکر بھاگ گئے۔ ان میں سے کچھ ہی پھر واپس لوٹے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے کمیونٹی والوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اب ایک ملی جلی آبادی والے علاقے میں رہنے سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے اور کئی ہندو اس علاقے کو چھوڑکر چلے گئے ہیں۔دھاراوی نے بھاؤ کورڈے اور دیگر کی قیادت میں محلّہ کمیٹیوں کی تشکیل کی تھی۔ اس کو دستاویزی صورت میں ایکٹیوسٹ سوشوبھا بروے کے ذریعے ان کی کتاب، ‘ ہیلنگ اسٹریم : برنگنگ بیک ہوپ ان آفٹر ماتھ آف وائلینس ‘ میں انکشاف کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، اب پولیس امن قائم رکھنے کے لئے کام کر رہی ہے اور دونوں کمیونٹی بدامنی سے بچنے کے لئے آپس میں بات چیت کرتے ہیں، خاص کر مذہبی مواقع پر۔فسادات نے شہر کو بانٹ دیا تھا۔ اس نے الگ الگ گروہوں کی الگ الگ بستیوں کو جنم دیا۔ بھلے یہ اب ایک بند باب ہو، لیکن اس کی یادیں اب بھی زندہ ہیں اور زخم آج بھی پوری طرح سے بھرے نہیں ہیں۔
(مینا مینن سینئر صحافی اور Riots and after in Mumbai کی مصنفہ ہیں)
Categories: حقوق انسانی