خبریں

میانمار : رخائن میں اجتماعی قبر کی جانچ کی جا رہی ہے : فوج

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنما زید رعد الحسین نے خبر رساں ایجنسی اے ایف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا-’’ اگر کوئی عدالت روہنگیا مسلمان اقلیت کے میانمار میں قتل عام کو ان کی نسل کُشی قرار دے دے تو انہیں اس بات پر قطعی حیرانی نہیں ہو گی۔‘‘

Navesh Chitrakar/Reuters

Navesh Chitrakar/Reuters

 ینگون ( رائٹرز)  :اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی جانب سے پڑنے والے مسلسل دباؤ کے بعد اب میانما ر سے کچھ مثبت خبریں مل رہی ہیں ۔میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی شمالی ریاست رخائن میں ایک اجتماعی قبر کے حوالے سے  جانچ کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کے فوجیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

میانمار کی فوج نے کہا ہے کہ وہ ریاست رخائن کے ایک گاؤں میں ایک ایسی اجتماعی قبر کی چھان بین کر رہی ہے، جس میں مبینہ طور پر بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر کے دفنا دیا گیا تھا۔ میانمار کی فوج پر یہ الزام اقوام متحدہ کی طرف سے لگایا گیا تھا کہ رخائن کے ایک گاؤں میں ملکی دستوں نے روہنگیا اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران بہت سے افراد کو قتل کر کے ان کی لاشیں اس اجتماعی قبر میں پھینک دی تھیں۔ غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق اس سال رخائن میں تنازع کے آغاز کے پہلے ماہ میں ہی 6500 روہنگیا افراد مارے گئے تھے۔

عالمی ادارے کا یہ الزام بھی ہے کہ میانمار کی فوج  نےرخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی بڑے منظم انداز میں نسل کشی کو انجام دیا۔ رخائن سے اس سال اگست سے اب تک ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے مہاجرین کے طور پر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں میانمار کی فوج کی جانب سے اس سال 30 اگست کے بعد سے  منظم انداز میں’قتل اور ریپ کے ‘ مبینہ واقعات کو تفصیل سےبیان کیا گیا ہے۔

دوسری جانب میانمار کی فوج ان تمام الزامات کو رد کر چکی ہے اور متنازع ریاست رخائن میں داخلے کو بھی محدود رکھا ہوا ہے۔ میانمار کے آرمی چیف کے فیس بک پیج پر لکھا گیا کہ خفیہ معلومات کی بنا پر کچھ فوجیوں کو رخائن ریاست کے ’دن‘ نامی گاؤں میں کچھ نامعلوم افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ اس فیس بک پوسٹ پر یہ نہیں لکھا گیا کہ میانمار کے فوجیوں کو کتنی لاشیں ملیں اور ان افراد کا تعلق کس مذہب یا علاقے سے تھا۔ تاہم فوجی سربراہ کے فیس بک پیج پر جاری بیان میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر ان افراد کے قتل میں فوجی اہلکار ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

میانمار کی فوج کا الزام ہے کہ اس سال 25 اگست کو روہنگیا نے میانمار کے فوجیوں کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد فوج نے رخائن میں روہنگیا افراد پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا اور روہنگیا کو نشانہ بنانے کا بھر پور دفاع بھی کیا تھا۔ میانمار کی فوج نے ان پر ہندوؤں کو قتل کرنے کا الزام بھی اس وقت عائد کیا تھا جب ستمبر کے ماہ میں 45 افراد کی لاشوں کی ایک اجتماعی قبر ملی تھی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنما زید رعد الحسین نے خبر رساں ایجنسی اے ایف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا-’’ اگر کوئی عدالت روہنگیا مسلمان اقلیت کے میانمار میں قتل عام کو ان کی نسل کُشی قرار دے دے تو انہیں اس بات پر قطعی حیرانی نہیں ہو گی۔‘‘